گداگروں  کی  فوج

کراچی کی جس شاہراہ ، بازار ،گلی ،محلہ اور اب تو مساجد میں چلے جائیں وہاں بچے ،بوڑھے ،جوان اورمرد و عورت وہاں آپ کو دست سوال دراز کئے ہوئے یہ لوگ  ایک فوج کی شکل میں نظر آتے ہیں ۔ابھی گاڑی سگنل پر رکی کہ کئی کئی  بھکار ی گاڑی کو گھیر لیتے ہیں ۔ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔جیسے ہی  نماز باجماعت مکمل ہوئی ایسے ہی کوئی شخص کھڑا  ہوجاتاہے اور ایک مختصر سی تقریر کرنا شروع کردیتاہے کسی کے پاس مالک مکان کے ظلم کی داستان ہے کسی کے پاس علاج کے رقم کی ضرورت کی کہانی ہے۔

کئی مساجد میں امام صاحب کے روکنے کے باوجود یہ گداگر اپنی کہانی پوری کرکے مسجد کے دروازے پر جاکر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ان میں سے بہت بڑی تعداد ان مرد وعورتوں کی ہوتی ہے جو کہ ہٹّے کٹّے ہوتے ہیں۔ وہ بجائے محنت کرنے کے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلارہے ہوتے ہیں۔ کچھ گدا گر اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کیلیے بیلچے اور دیگر اوزار اٹھائے ہوتے ہیں ان کے پاس یہ بات ہوتی ہے کہ صبح سے مزدوری نہیں ملی اور اس طرح وہ لوگوں مال  بٹور تے ہیں ۔اگر آپ ان کو کسی مزدوری  یا کسی کام کا کہ دیں تو یہ آئیں بائیں شائیں  کرکے  نکل جاتے ہیں۔

یہ تو معاشرے کا ایک رخ ہے دوسرا رخ  یہ ہے کہ بہت سے ضعیف ،معذور عورت مرد اور بچے اپنے لیے حلال زرق کی تلاش کی جدوجہد میں سرگرم نظر آتےہیں ۔اور ایسی جانفشانی سے اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے رزق حلال کماتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہےکہ اے اللہ ان کو حلال اور طیّب رزق وافرمقدار میں آسانی سے عطا فرما۔

ایک حدیث کا ایک حصّہ یہاں  پیش کیا جا رہا ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ ہیں آپ  نے بیان کیا کہ حضورنبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ” جس آدمی نے رزق حلال کمایا اس خیال سے کہ وہ خود دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے محفوظ رہے گا۔ نیز اپنے اہل وعیال کفالت اچھی طرح کرسکے گا، اور اپنے ہمسائے کی (اگر ضرورت مند ہوتو ) مالی امداد بھی کرے گا تو ایسا شخص جب عدالت خداوندی میں حاضر ہوگا تو اس کا چہرہ  چوہودیں کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔

ایک دفعہ  صحابہ اکرام  رضی اللہ عنہ حضورؐ کے پاس  بیٹھے تھے کہ دیکھا کہ ایک صحت مند اور توانا جوان  اپنے لیے رزق کے حصول کے لیے سر گرداں نظر آیا   صحابہ نے کہا کہ کاش یہ جدوجہد اللہ کے راستے میں جہاد کرتا اس پر نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ حلال رزق کے لیے جدوجہد کرنا بھی اللہ کے راستے میں ہی ہے۔

ایک دفعہ ایک انصاری آپؐ کے پاس آئے اور مدد کی درخواست کی۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا’’ تمھارے پاس کیا ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا’’ پانی پینے کا پیالہ اور ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ بچھا لیتا ہوں اور کچھ اوڑھ لیتا ہوں ‘‘آپؐ نے انصاری سے دونوں چیزیں منگوائیں اور مجلس میں موجود لوگوں سے ارشاد فرمایا’’ یہ چیزیں کون خریدے گا ‘‘؟ ایک صحابی چار درہم دینے کو تیار ہو گئے ۔

آپؐ نے وہ چیزیں چار درہم میں ان کے حوالے کیں اور رقم انصاری کو دے کر فرمایا’’ ایک درہم کا کھانا خرید کر گھر دے دو۔ باقی رقم سے کلھاڑا اور رسی خریدو اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچ کر آیا کرو‘‘ پندرہ دن بعد انصاری کے پاس بیس درہم جمع ہو چکے تھے۔اس رقم سے انھوں نے کچھ کا غلہ اور کچھ کا کپڑا خریدا ۔ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو رسول اکرمؐ نے خوش ہو کر فرمایا’’ تمھاری یہ حالت اچھی ہے یا وہ جب قیامت میں تم چہرے پر گدائی کا داغ لے کر جاتے۔

بھیک مانگ کر  اپنی ضرویات کو پورا کرنا ایک قبیح فعل ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک سنگین مسئلہ ہے اس پر ہمیں توجہ دینی چاہیئے ۔اور اس طرح کے گدا گروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے ۔مساجد اللہ کے گھر ہیں ۔یہاں اس غرض سے نماز باجماعت میں شامل ہونا کہ جب جماعت مکمل ہوجائے تو لوگوں کے سامنے سوال کرنا اللہ کے گھر میں بجائے یہ کہ اللہ سے مانگا جائے لوگوں سے سوال کرنا حرام ہے یہ پیشہ ور گداگر اس بات کا قطعا لحاظ نہیں کرتے۔

حدیث کے مطابق تین شخص کے علاوہ کسی کے لیے مانگنا جائز نہیں  حضرت قبیصہ بن مخارق کہتے ہیں  کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : ”یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے پاس صدقہ آئے۔ پھر ہم تیرے لیے کچھ کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے فرمایا : قبیصہ! تین شخصوں کے علاوہ کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑ جائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر رک جائے۔

دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے کہ اس کا سارا مال تباہ کردے وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آ گئی ہو۔ یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین معتبر شخص اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے اسے سوال کرنا جائز ہے تا آنکہ اس کی محتاجی دور ہو جائے۔ پھر فرمایا : اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کر کے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔” (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ)

ہمیں چاہیئے کہ   اپنے ارگرد اپنے محلے اور رشتہ دار وں اور جاننے والو کی معاشی حالت پر اس طرح نظر رکھیں  جس طرح اللہ کے رسول ﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے  اور ان لوگوں کی ضروریات کا خیال کریں  اور ایسے افراد کو جو سفید پوش ہوتے ہیں ان کی مدد رکریں اور ان کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچائیں ۔اور پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ شکنی کریں  اس طرح سے بغیر سوچے سمجھے ان گداگروں کو  مال دینا کوئی معاشرے کی خدمت  نہیں بلکہ ایک ایسے فرد کی تیاری ہے جو کہ معاشرے پر بوجھ ہوگا اور معاشرے کےلیے نقصان  کا باعث بنے گا۔ اگر ان کی قومی سطح پر حوصلہ شکنی ہوگی اور لوگ ان کو دینے کے بجائے ان افراد کی مدد کریں جو اپنے سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے  تو یہ کام کار ثواب  بھی ہوگا اور ان افراد کا حق بھی ادا ہوگا۔

اگر ہم نے پیشہ ور گداگروں  کی مالی امداد جاری رکھی تو ان کی تعداد بڑھتی جائے گی اور ان میں سے ایسے افراد بھی  پیدا ہوں گے جو دیگر اخلاقی جرائم میں ملوث ہونگے ۔اور معاشرے کے امن  کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ ایسا کرنا  ہمارے لیے  ضروری ہی نہیں بلکہ معاشرے اور اس کے ماحول کوان عناصر سے پاک صاف رکھنا  ہماری ذمہ داری ہے ۔ مشہور چینی کہاوت ہے کہ” کسی کو مچھلی پکڑ کر دینے سے بہتر ہےکہ اس کو مچھلی پکڑنا سکھا دیا جائے”۔

جواب چھوڑ دیں