چھوٹی سی جان کردے حیران 

آج اتنے دنوں بعد کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ۔ کاپی میں رکھا پن کھلا رہ گیا تھا ۔ جیسے ہی دیکھا دونوں صفحات کے بیچ بال پین اور اس کے گرد سینکڑوں چیونیٹیاں انتہائی چھوٹی کالی مگر پھر تیلی میں دیکھ کر حیران ہو گئی کہ اتنی سی جان! اللہ کی شان سب کو کردے حیران ! اتنی ہلکی پھلکی کہ سانس لینے سے ادھر ادھر ہو جائیں ۔ میں نے سینک میں جا کر رجسٹر اور قلم جھٹکا اور واپس آئی ایک دومیرے ہاتھ پر تھیں بے وزن بے ضرر ایک پھونک سے نہ جانے کہاں چلی گئیں ۔ قلم چلایا ہی تھا کہ ایک اور نکلی اور جھٹکے میں نہ جانے کہاں چلی گئی نظر بھی نہ آئی ۔

میں سوچنے لگی یہ کہاں سے آئیں اور کیوں آئیں ؟ یقینا کچھ کھانے پینے آئی ہونگی ۔ میرا کیک یا سویوں والا ہاتھ پن پر لگ گیا ہو گا یا کوئی میٹھا تنکا ان کے مطلب کا اڑ کر آگیا ہو گا یہ صفحے پر بہرحال کتنی ہی حیرت کی بات ہے اللہ تعالیٰ کی ہزارہاں مخلوقات ہیں جن کو شاید کوئی گن بھی نہیں سکتا لیکن اس کی خصوصیات دیکھ کر دل سے سبحان اللہ ہی نکلتا ہے ۔ ایسی کاریگری ذات باری تعالیٰ کے علاوہ ممکن ہی نہیں۔

ایک خاموش دنیا ہے جو زمین پر بلا شور شرابہ کے مسلسل متحرک رہتی ہے ۔ انکی اتنی پھرتیلی اور مصروف زندگی ہمارے لئے لمحہ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اتنی سی مخلوق کی اتنی طاقت کہ غذائی ذرے تک پہنچ جاتی ہے جبکہ ہم تمام مخلوقات پر افضل بنا کر بھیجے گئے ہیں مگر رزق کی خاطر نہ صرف خوار ہوتے ہیں بدنام ہوتے ہیں سب نہیں لیکن جتنے بھی ہیں انسانیت کے نام پر دھبہ اور دنیا میں توازن کے بگاڑ کا ذریعہ ہی تو ہیں اپنی حرکتوں سے ناپاک عزائم سے دوزخ کے نچلے ترین درجے کے حق دار بنے جا رہے ہیں ۔

ایسی چیونٹی اور ہاتھی کی موت کا واقعہ پھر ایک تو اس سے بھی چھوٹا وائرس “کرونا” خود مشہور ہو گیا اور کتنوں کو سبق دے گیا مگر وہی بات “ہے کوئی جو عبرت حا صل کرے” ؟ جو پلٹے جو اجتناب کرے جا ئزہ لے؟ ہم پر جو بھی مصیبتیں آتی ہیں وہ اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہوتا ہے رب تو رحیم ہے ہر طرح کی مخلوق اسکے کہنے پر ہے اور وہ بہترین خالق مالک رازق ہے ۔

ہم ہی ناشکرے بگڑے شیطان کے ہتھے چڑھے بندے بار بار ٹھوکر کھا کر بھی نہ سنبھلتے ہیں نہ بدلتے ہیں بلکہ منہ کی کھانے کی تیاری میں لگے ہوتے ہیں ۔ ابھی اتنا مقدس محترم مہینہ گزرا ۔ الحمد للہ ایمان بڑھا اللہ نے ہر نعمت عطا کی روزے اچھے گزرے ، تراویح ملی ، تہجد پڑھی ، دعائیں کیں ۔ ارد گرد ملک میں دیس میں پردیس میں جان لیوا واقعات مسلسل آندھیاں ، طوفان کبھی مکانوں کی چھتیں گرنے کے واقعات تو کہیں بے تحاشہ طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں تو کہیں نہ بجھنے والی آگ کے مرغولے ، پھر ٹڈی دلوں کے حملے ۔

آگ اور خون کا کھیل ، فضائی حادثات اور ہر دم لگنے والی بیماری دنیا بھر کی ماری، ایک نفسیاتی بیماری سب کی پریشانی اس پر بھی حکومتی اداروں کی کھینچا تانی ، گروہ بندی اور سیاسی اکڑ، حاسد دشمنوں کی بے تکی تیاری، کیا یہ عذاب کی شکلیں نہیں ؟ گر می بڑھی ، مکھی مچھر کی آمد بارش کے ساتھ ساتھ ڈینگی اور دیگر لوڈشیڈنگ ، پانی کی قلت اور آٹے، چینی، تیل ، پٹرول کی تنگی کے خطرات ، اتنے دنوں کا لاک ڈاؤن خسارہ اور ہمارا صرف یہ نظارہ کافی نہیں ؟

انتہائی سنجیدہ ہو کر صرف اور صرف خلوص دل سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے، استغفار مسلسل کرنے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو مسلسل بنیادوں پر اپنانے کی ضرورت ہے ، حقوق العباد ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ حقوق اللہ پر لازمی عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔ اب بھی نہ جاگے تو کب جاگیں گے ؟ بچے ، بوڑھے ، نوجوان ہر شعبہ کے افراد خلوص نیت سے محنت ، محبت اور لگن سے زندگی کے ہر لمحے کو حلال اور جائز طریقے سے مئوثر طور پر استعمال کریں ، محنت مشقت کریں ۔

اپنے لئے اپنے پیاروں کے لئے ہمدردی اور وفا شعاری سے خدمت خلق انجام دے کر رب کو راضی کریں ۔ جب یہ چھوٹی سی جان چیونٹی اپنے کام سے غافل نہیں تو پھر ہم کیوں اتنے مایوس سست کاہل بن کر دوسروں پر بوجھ بن جائیں؟ ہر مشکل کوصبر برداشت سے ہمت سے ہنستے ہوئے دعائوں کے ساتھ استغفار کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے کہ یہی فریضہ آدمیت ہے ۔ اللہ کے حدود میں رہ کر کام کریں کہیں بھی قوانینِ قدرت کی خلاف ورزی نہ کریں نہ کسی کا حق ماریں تو رب ضرور ہم سے راضی ہو جائے گا ۔ زندگی مسلسل آگے بڑھنے اور اچھا کرنے کانام ہے مگر اس کی مدت کسی کو نہیں معلوم ؎

                     تو اسے پیمانہ امروز وفردا می نہ ناپ     جاویداں ‘پیہم جواں’ ہر دم جواں ہے زندگی

دیکھیں نا ہم کتنے بڑے ہیں چیونٹی ہمارا کچھ نہیں کرسکتی ، اسکا راستہ روکیں ، بدل دیں ، مسل دیں ، وہ بے بس ہے جو حیثیت ہمارے نزدیک اسکی ہے ۔ ہماری حیثیت بھی اللہ کے نزدیک شاید اس سے بھی کمتر ہے۔ مگر اس کی نوازشیں دیکھیں کرم دیکھیں، نعمتیں دیکھیں اور پھر اپنا عمل دیکھیں ، کرم دیکھیں ، نعمتیں دیکھیںاور پھر اپنا عمل دیکھیں جس کا جواب دینا ہے تو بس اپنے عمل کو اللہ کو جواب دہ بنانے کی ہر دم کوشش میں لگ جائیے ۔

کیونکہ انسان سے کئی گنا طاقت ور اور انوکھی صلاحیتوں والوں سے بھی بڑھ کر ہمیں اس دنیا میں خلافت عطا کی اور دیگر ساری مخلوقات کو حیرت میں ڈال دیا ۔ راہ دکھائی، قرآن دیا، راہنما بھیجا ۔ سنت عطا کی ، خود آن لائین ہمہ وقت نگہبان ہے پھر بھی ہم کیسے ؟ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں ۔ پلٹنا ، جھپٹنا رب کا کام ہے ۔ کیوں؟

                                   پلٹنا ، جھپٹنا ، جھپٹ کر پلٹنا     لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ

جواب چھوڑ دیں