اداسیاں اور رات کے گہرے ساۓ

اداسی بھی کیا چیز ہے، میں اکثر اکیلے بیٹھے سوچوں کے سیلاب میں گم ہوتی ہوں ،تو بھول جاتا ہے کہ اس جگہ بیٹھے اپنی اداسیوں کو شمار کرتے کتنے ورق کالے کر دیۓ اور کتنے لمحے اسکی نظر۔ پر ایسا ہوتا ہے،جب انسان لوگوں کے ہجوم سے اٹھ کے آۓ اور پھر اس کے اندر کی اداسی اس کو اک عجیب سی لپیٹ میں لے لے۔

اداسیوں کا ڈھیرا بھی عجیب ہے ،دل میں کنڈلی مار کے بیٹھ گیا ہے_ناجانے کتنا عرصہ گزر گیا کہ کھل کے مسکرائی نہیں میں،ایسے ہی سوچوں کے بھنور میں زندگی گزر رہی ہے یا کٹ رہی ہے،مجھے تو یہ بھی اندازہ نہیں_ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں آنسوؤں کی صورت آنکھوں میں چبھ رہی ہیں۔

اور اک گہری دھند ہے جو آنکھوں پہ چھائی ہے ،درد کے بادل آنسوؤں کی بارش ہے کہ تھم ہی نہیں رہی_میں کسی سے ملنا ہی نہیں چاہتی ،خود سے بےزار کسی کو مل کر کیا راحت دے گی۔ مجھ جیسا شکستہ پا انسان کسی کا کیا حوصلہ بنے گی۔ اندر کا شور اور چیخیں اس قدر ہیں کہ باہر سے کسی کی آواز اندر نہیں جاتی۔

مختصر یہ ہے کہ مجھے سمجھا جاۓ ،میرے جذبات کو روندا نہ جاۓ۔ میں جذبات نہ روندنے کی اپیل بھی کن لوگوں سے کر رہی ہوں جو بےحد بے حس ہیں۔ میں بھی نہ جانے کیا کیا لکھ رہی ہوں،یہاں احساس سے عاری لوگوں کے لۓ احساسات سے بھری تحریر لکھ رہی ہوں۔ پرخیر ،زندگی ہے ،کٹ ہی جاۓ گی۔

ادسیاں کبھی اپنا رخ بدل ہی لیں گی_ اداسیاں کبھی تو خوشیاں بن کے دستک دیں گی_اور نہیں بھی دیں گی تو میں انکے ساتھ ہی خوش رہنا سیکھ لوں گی_ادسیوں کو ہی اپنی ہم راز،ہمزاد اور گھر کی مکین بناؤ گی_ادسیوں کو پیار سے سجاؤں گی تاکہ ہو مجھے سمجھیں میں انھیں سمجھوں_ان اداسیوں کے ساتھ ان کی دوست بن کے رہوں _شاید کہ یوں زندگی اچھی گزر جاۓ_

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں