عدم برداشت

یہ ایسا زہر ہے جو ہمارے معاشرے میں بری طرح سرائیت کر چکا ہے۔ یہ زہر بڑی آسانی سے اپنا ہدف ڈھونڈ کر اسے شکار بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شکار ہونے والے شخص کا تعلق وکالت،طب ،تدریس، سیاست ،تجارت یا کسی بھی شعبے سے ہو اس کے لئے بس انسان ہونا شرط ہے ۔ میں گاؤں کے بس اسٹاپ پر بیٹھا ایک مہمان کا انتظار کر رہا تھا۔

معمول کے مطابق گزرنے والی ٹریفک کے شور میں ایک عجیب سی آواز کانوں میں پڑی۔ ایک کار موٹر سائیکل سوار سے ٹکرا گئی تھی جس کے ساتھ دو عورتیں بھی سوار تھیں۔ خوش قسمتی سے تمام لوگ محفوظ تھے، اس دوران کار سوار اور موٹر سائیکل سوار کے درمیان شدید تلخ کلامی ہو رہی تھی۔ حسب معمول لوگوں کا ہجوم تماشہ دیکھنے میں مصروف تھا جن میں میں بھی شامل تھا۔

تلخ کلامی شدید ہونے کے بعد کار سوار نے گاڑی سے پستول نکالا تو سامنے دو عورتوں نے ہاتھ جوڑ لئے وہ اس سے کچھ مانگ رہی تھیں، شاید ان میں سے ایک عورت اپنے اکلوتے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی اور دوسری عورت اپنی سات جوان بیٹیوں کے باپ اور اپنے غریب شوہر کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی لیکن تاجر کے بگڑے ہوئے بیٹے کی بینائی اس منظر کو نظر انداز کر رہی تھی۔ اس نے پستول کی ساری گولیاں سامنے کھڑے شخص پر برسا دیں اور آسانی کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

اس کے بعد شور مچ گیا، لوگوں کا ہجوم بڑا تو فروٹ کی ریڑھی لگانے والا چاچا حسین بخش میری طرف آیا اور اپنی لڑکھڑاتی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی آواز میں کہنے لگا کہ “پتر” یہ میرے گاؤں کا “رشید ڈرائیور” تھا میرا بچپن کا یار تھا ۔ چاچا حسین بخش کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو تھے کہ اس نے اپنے جگری یار کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے  دیکھا تھا ۔

چاچا اپنی بات کو مکمل نہ کر سکا تو میں نے اسے گلے  لگا لیا اور حوصلہ دینے کے لیے روایتی جملے ادا کیے۔ دراصل رشید ڈرائیور کو غلط موڑمڑنے اور مہنگی گاڑی کو ڈینٹ ڈالنے کی سزا میں بیوی کو بیوہ ،بیٹیوں کو یتیم اور بوڑھی ماں کی گود کو خالی چھوڑنا پڑا۔ حسب معمول پولیس تاخیر سے پہنچی تو چوکی انچارج کی آواز میرے کانوں میں پڑی جو تقریر فرما رہے تھے کہ” پتا نہیں ہماری عوام کو ٹریفک کے قوانین کی آگاہی کب  حاصل ہو گی؟”۔

میں ٹھنڈی آہ بھرنے کے بعد ایک سوچ میں چلا گیا کہ موصوف کو کیسے سمجھاؤں کہ ضرورت اس وقت برداشت، میانہ روی، تحمل مزاجی، درگزر کرنا اور معاف کرنے کی آگاہی کی ہے جو بے چینی، شدت پسندی، جارحانہ پن، غصہ، تشدد اور لاقانونیت جیسی بیماریوں کا علاج ہیں۔

                   “آپ کس سمت  نکلیں گے  بچا کے دامن   حادثے راہ میں ملتے ہیں فقیروں کی طرح”

جواب چھوڑ دیں