جان لیوا لفٹ، بے خبر انتظامیہ

دو سال پہلے میں نے ایک میسج دیکھا تھا جس میں کراچی کے ایک اسکول کی 8یا 10سالہ بچی اپنی ماں کے ساتھ اسکول سے واپسی پر لفٹ میں اتنی بری طرح پھنسی کہ اسکول بیگ اور نچلا دھڑ باہر رہ گیا باقی لفٹ میں گھس گیا ماں مچھلی کی طرح تڑپتی رہی ۔ بس میسج فارورڈ ہوتا رہا لوگ افسوس کرتے رہے کوئی کاروائی عمل میں نہ جانے آئی کہ نہ آئی ۔ اسی طرح جناح ہسپتال کی ایک فا ئنل کی طالبہ کا قصہ سنا جو ایک مریضہ کو دیکھنے جاتے وقت مریضہ کی والدہ نے بتا یا کہ اس لفٹ کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا ۔ اس لڑکی نے ذرا سا سر نکال کر سہیلی کو بائے کر رہی تھی کہ کچل گئی ۔

اس طرح کے واقعات خاص کر بچوں کے ہاتھوں کے کٹنے کے واقعات آئے دن سننے میں آتے ہیں ابھی بھی بعض علاقوں میں پرانے دروازوں اور دیواروں والی گندی ، غلیظ لفٹس جیسے تیسے کام کر رہی ہیں اور مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ آج سے 22سال پہلے خود میرے بیٹے نے بھی اپنی بیوقوفانہ شرارتی حرکت کر ڈالی تھی کہ دروازے کے گیپ میں تھوڑا سا اپنا پائوں دے ڈالا بس پھر کیا تھا ۔ ٹانگ کھنچ گئی اور چند انگلیاں گھسیٹ گئیں ۔ کسی ساتھی نے فوراً روک دی تو اللہ کی مہربانی سے بچت ہوگئی ورنہ سوچ کر بھی لرزہ طاری ہوتا ہے ۔

میں خود دو مرتبہ پھنس چکی ہوں ۔ کھٹکھٹا کر چیخ چیخ کر چوکیدار کو بلوا کر کھلوانے تک آدھی جان نکل چکی تھی ۔ ایک مرتبہ تو مجھے بہت زور زور کے دروازہ پیٹنے کی آوازیں آئیں کیونکہ میرا کمرہ، باورچی خانہ بالکل لفٹ کے سامنے تھا لہٰذا سمجھ گئی کہ کوئی پھنسا ہے فوراً گئی بمشکل ایک عورت کی آواز سنی نکالو ورنہ مر جائونگی ۔ فوراً چوکیدار کو بلوایا وہ اوپر گیا اور لفٹ کھلی مگر اتنی اوپر دروازہ کھلا کہ اس عورت کو نیچے اتروانہ بہت مشکل تھا نہ اتنا بڑا اسٹول تھا نہ وہ خود کسی کو پکڑ کر اترنے کے قابل تھی ۔ ظاہر ہے گرنے سے گھبرا رہی تھی پھر مجمع الگ لگا ہوا تھا جسے دیکھ کر اور پریشانی تھی ۔

بہرحال بڑی مشکل سے دو تین بڑے چھوٹے اسٹول قریب قریب رکھے عورتوں نے سہارا دیا پہلے بڑے اسٹول پر بیٹھ کر اتری پھر عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر دوسرے چھوٹے اسٹول پر ، پھر ایک کرسی پر اس طرح وہ روتی ہوئی نیچے آئی اس کے بعد کبھی لفٹ میں نہ بیٹھی ۔ یہ لفٹ کے بٹن خراب ہوتے ہیں پرانی لفٹوں کے دروازے ، خاص طور پر پرانی لفٹیں جن میں دیواریں ہوتی ہیں ۔ بہت ہی خطرناک ہوتی ہیں گارڈن اور شو مارکیٹ کے پورے علاقے میں اس طرح جا ن لیوا خطرناک لفٹس موجود ہیں جنہیں کوئی بھی لفٹ کروانے والا نہیں ہے ۔

کتنی حیرت اور افسوس کی بات ہے ہمارے ایک عزیز نے بتا یا کہ 27رمضان کو مغرب کے بعد گارڈن فوارہ چوک کا رہائشی کوئی 38یا 40سالہ خوبرو مضبوط توانا نوجوان تین بچوں کا باپ مغرب کے بعد لفٹ میں جانا چاہ رہا تھا ایک لڑکا لفٹ سے نکلا اسکوا اشارہ کیا ذرا روکو میں آتا ہوں وہ تو نکل کر چلا گیا لڑکا اور یہ نوجوان جس کا نام شکیل تھا جیسے ہی لفٹ میں داخل ہوا لفٹ چل چکی تھی ۔ دروازے نے کچھ اندر اور کچھ باہر نوجوان کو ایسا دبو چا کہ آنکھ، کان، منہ، پیٹ سب جگہ سے خون کے فوارے چھوٹ گئے ۔ وہ وہیں موت کے منہ میں چلا گیا۔

اتنے ناقص انتظامات کہیں مرمت کا ، مستقل بنیادوں پر سروس کا کوئی انتظام ہی نہیں ۔ بتا ئیے اس طرح کی خونخوار لفٹوں میں سفر کرتے ہوئے ہی لوگ ادھ موئے ہو جاتے ہیں ۔ رہی سہی کسر بجلی والے بجلی بن کر گراتے ہیں ۔ سب لوگ گھبراتے ہیں لیکن انتظامیہ اور عوام سنجیدہ نہیں ۔ خدارا موت کا یہ کھیل نسلوں کی تباہی ہے۔ بندے ، بچے ، بڑے سب اس کا شکار ہو جاتے ہیں اور معاشرے کے مفید شہری بننے کے بجائے الٹا معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔ خاندان کے خاندان مستقل اذیت کا شکار رہتے ہیں ۔

بتائیے اتنے لحیم شحیم بندے کی یوں اچانک موت ! اللہ اکبر، بقول اسکے دوست کے کہ وہ آج تک غم میں ہے، بھلا نہیں سک رہا تو گھر والوںکا کیا حال ہو گا ؟ بچوں اور بیوی کا کیا بنے گا ؟ آج کل تو آدمیوں کے لئے نوکریاں نہیں ہیں تو عورتیں تین تین، چار چار بچوں کی کفالت کیسے کرینگی ۔ دین کی کمی اور اسلامی احکامات کی خلاف ورزیوں نے لوگوں کو بے حس اور سخت جان ، بے ضمیر بنا دیا ہے ۔ اسی لئے وہ عذاب الٰہی کو بھی ہلکا لیتے ہیں ۔ میری کزن کی ایک دوست بھی آفس جانے کیلئے جلدی میں جیسے ہی لفٹ میں گئی معلوم ہوا کہ لفٹ کا فرش ہی نہیں آیا تھا صرف دروازہ کھلا اور وہ سیدھی چرخیوں پر دب دبا کر ختم ہوگئی ۔

ہم کب تک ان واقعات کو ہلکا لیتے رہینگے ؟ حکومت سے انتظامیہ سے التماس ہے کہ اس طرح کی لفٹوں کی مستقل بنیادوں پر چیکنگ کروائیں ۔ اسی طرح بجلی کے تار ، پرانی عمارتوں کی چھتوں ، پانی کے ٹینکوں اور دیگر پلوں اور اسٹورز کی خاص کر گیس سلنڈر اور کھچاڑا گاڑیوں کو نوٹس میں لاکر درستگی کا پابندبنایا جائے تا کہ اس طرح کے جان لیوا حا دثات سے عوام کومحفوظ رکھا جائے ۔ ہر انسان کی زندگی اہم ہے امانت ہے اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے غفلت نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ مجرمانہ ہے جو آپ کو ظالموں کی صفت میں لاکر حشر میں جہنم رسید کردے گی ۔

اللہ نہ کرے !! یہ ہلاک ہونے والا بندہ ۔ میرا آپ کا ہم میں سے کسی کا بھی ہوسکتا تھا ۔ دوسروں کا درد محسوس کریں ۔ یہی انسانیت ہے ۔ ورنہ انسان درندہ ہے ۔ کیا آپ اس بات سے متفق نہیں ؟ تو خدارا اپنا فرض نبھانے زندگیاں بچائیے کہ یہی کار خیر ہمارے حق میں صدقہ جاریہ ہو گا انشاء اللہ ۔ احتیاط ہی زندگی کی حفاظت ہے ۔ اپنے آپ کو اپنے بچوں کو جلد بازی سے دور رکھیں اور ان قیمتی برقی مشینوں کو حفاظت سے در ست طریقے سے استعمال کریں ۔ بچوں کو شعور دیں کہ جتنی سہولت ہے اتنی ہی قیمتی اور خطرناک بھی ۔ یہ لفٹس ہیں آپ ہی کی سہولت کیلئے ہے ۔

خدارا ان کا جائز اور مئوثر استعمال کریں یہ امانت ہیں قوم کا اثاثہ بھی ہیں ان میں موج مستی اور چھیڑ چھاڑ بہت بری بات ہے ۔ حکومتی اداروں اور دی گئی سہولیات کو اگر اچھا نہیں کر سکتے تو ان میں بگاڑ بھی پیدا نہ کریں کہ ان کے بغیر زندگی بڑی مشکل ہو جاتی ہے ۔ ہمارے حیدری کے فلیٹ کی لفٹ اتنی اچھی تھی لیکن کبھی مرمت نہ ہوسکی اور 25سال سے ناکارہ پڑی ہے ۔ لوگ بیچارے بغیر لفٹ کے مشکل کا شکار ہیں لہٰذا مستقل بنیادوں پر انکی مرمت کرکے انہیں استعمال کریں اور انتظامیہ ہر دم چوکنی رہے کہ عوام کے تحفظ کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہے وہ ٹیکس دیتے ہیں آپ فرض نبھائیے زندگیاں بچائیے۔

جواب چھوڑ دیں