جماعت اسلامی کی اتحادی سیاست

پاکستان کی سیاسی جماعتیں الیکشن میں اقتدار کی خاطر ایک دوسرے سے اتحاد کرتی رہتی ہیں۔ مگر اسلامی نظریات کی حامل، جماعت اسلامی نے ہمیشہ ملک کے وسیع تر مفاد اور اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے لیے پاکستان کے سیاسی اتحادوں میں حصہ  لیا۔ پہلا بڑا اتحاد متحدہ پاکستان میں ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف بنا تھا۔ اس میں جماعت اسلامی نے ڈکٹیٹر سے جان چھڑانے اور بڑے مقصد کے لیے لسانیت اور قومیت کے فلسفہ پر سیاست کرنے والوں سے بھی اتحاد کیا۔ مقصد پاکستانی قوم کو ڈکٹیٹر کے ہاتھوں میں جانے کے بجائے جمہوریت پسند قوتوں کے ہاتھ میں دینا تھا۔

 مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ اس اتحاد کی روح رواں تھیں۔ ڈکٹیٹر ایوب خان نے ۱۹۵۸ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگا یا۔ڈکٹیٹر نے بالغ رائے دہی کے معروف جمہوری طریقہ سے ہٹ کر بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کیا گیا۔ پھر اس کے ذریعے اسی ہزار بلدیاتی ممبران کی بنیاد پرپاکستان کی صدارت حاصل کی۔ ۱۹۵۶ء کے آئین کو منسوخ کر کے ۱۹۶۲ء کا آئین دیا۔ناجائز طریقے سے اختیارات حاصل کر کے پاکستان میں مغربی سیکولر قوانیں پاس کرائے۔ امریکا کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کے عاہلی قوانین کو تبدیل کیا ۔ سلولین ڈکٹیٹر ذوالفقار علی بھٹو صاحب جو ڈکٹیٹر ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا۔ ڈکٹیٹر کے ساتھ حکومت میں شامل بھی تھا۔ تاشقند کے معاہدے کی آڑ میں ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف ہو گیا۔

 جب پاکستان کی عوام ڈکٹیٹر ایوب خان کے مخالف ہو گئی تو وہ یخییٰ خان کو حکومت حوالے کر کے ایک طرف ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈکٹیٹر جنرل یخییٰ خان سے دوستی کی۔ بھٹو اور یخییٰ کھٹ جوڑ ، غلط پالیسیوں اور مجیب کی بغاوت کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوا۔۱۹۷۰ء کے الیکشن جنہیں سیکولر حضرات غیر جانبدار الیکشن کہتے ہیں ، بلکل غلط ہے ۔ یہ الیکشن پاکستان کی بنیادی اسلامی وژن کے خلاف ، جبر اور قومیت کی بنیاد پر لڑے گئے۔ مشرقی پاکستان میں غدار وطن شیخ مجیب بنگلا زبان اور قومیت کی بنیاد ، جبر دھونس دھادندلی سے کامیاب ہوا۔

 مغربی پاکستان میں بھٹو نے اسلامی سوشل ازم اور روٹی کپڑا مکان کے نعرہ سے اکثریت حاصل کی۔ بھٹو نے پاکستان کی معیشت کو قومیانے کی غلط پالسی کی وجہ سے تباہ برباد کیا۔بھٹو نے فسطائی طریقے سے حکومت کی ۔اپنے پارٹی اور حزب اختلاف کے ساتھ ظلم کیا۔ لوگوں کو سیاسی اختلاف پر قتل کروایا۔ اسی وجہ سے پھانسی کی سزا بھی پائی۔ ۱۹۷۷ء میں بھٹو نے الیکشن کروائے۔ الیکشن میں دھاندھلی کے سارے سابقہ ریکارڈ ٹوڑ ڈالے ۔

بھٹو کی فسطائی حکومت اور اسلامی سوشلزم کے فلسفہ کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی شکل میں اتحاد قائم ہوا۔ جماعت اسلامی اس میں شامل ہوئی۔ اس اتحاد نے نظام ِ مصطفیٰ ؐ کی شکل اختیار کر لی۔ اس اتحادمیں پاکستان میں جماعت اسلامی نے مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کیا۔ مقصد اس میں بھی پاکستان کی سیاست کو خالص جمہوریت کی پٹری پر ڈالنے اور ملک میں قائد اعظمؒ کے وژن کے اسلامی نظام کی رہ ہموار کرنا تھا۔ پاکستان قومی اتحاد میں بھی جماعت اسلامی پاکستان قومی اتحاد کی روے رواں تھی۔ بھٹو نے پریس پر کنٹرول حاصل کیا ہوا تھا ۔ پریس پاکستان قومی اتحاد کی خبروں کا بائی کاٹ کرتی تھی۔

جماعت اسلامی نے اس زمانے جلسے جلوسوں کا انتظام کرنے کے علاوہ خبر نامہ کے نام سے روزانہ کی بنیاد پر سائیکلو اسٹائل کے ذریعے خبر نامہ تیار کرتی تھی۔ اپنی تنظیم کے ذریعے پورے شہر میں تازہ خبروں کے ساتھ خبر نامہ روزانہ کی بنیاد پر ہر جگہ پہنچ جاتا تھا۔ کارکن خبر نامے کو برنس روڈ کراچی میں جماعت اسلامی کے دفتر کے باہر دیوار پر چپساں کر دیتے تھے۔ایک دفعہ کچھ فوجی جماعت اسلامی کے دفتر میں گھس آئے۔ راقم جماعت اسلامی کے دفتر انچارج محروم ظفر صاحب کی ٹیبل کے سامنے بیٹھا کسی بات پر مشورے میں مصروف تھا۔ پاک فوج کے جوان فوجی انداز میں بولتے ہوئے کہنے لگے یہ خبر نامہ کس نے چساں کیا ہے؟ظفر صاحب نے کہاں ہم نے چپساں کیا ہے۔ خیر فوجی ہمیںڈرا دھمکا کر واپس چلے گئے۔ اس اتحاد کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پہلی اور آخری بار پہیا جام تاریخی ہڑتال ہوئی تھی۔ بد قسمتی کے نظام مصطفیٰ  ؐ کے مطالبے کو روکنے کے لیے امریکا کی شہ پر فوج نے ایک بار پھر مار شل لا لگا دیا۔

بے نظیر بھٹوکے دور حکومت میں ایک اور ا تحاد پاکستان جمہوری اتحاد کے نام سے وجود میں آیا۔ اس میں بھی جماعت اسلامی شامل تھی۔ جماعت اسلامی کے پاس سیکرٹری شپ تھی۔ مرحوم عبدالغفور صاحب پاکستان جمہوری اتحاد کے سیکر ٹیری تھے۔شاہد یہ اتحاد بھی پیپلز پارٹی کے قومی مفادات سے ہٹ جانے کی وجہ سے بنا تھا۔پیپلز پارٹی نے بھارت کے ساتھ پاکستان کے مفادات کے خلاف رویہ اپنا تھا۔ سکھوں کی لسٹیں بھارت کو فراہم کی گئیں۔ بھارت کے وزیر اعظم راجیو کے دورے کے دوران اسلام آباد کی سڑکوں سے کشمیر کے بورڈ ہٹا دیے گئے۔ اس اتحاد میں بھی جماعت اسلامی نے مثبت کردار ادا کیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے نا اہل قرار پانے والے نواز شریف صاحب اس اتحاد کے صدر تھے۔ اسی اتحاد کی وجہ سے نواز شریف وزیر اعظم پاکستان بنے۔

 جماعت اسلامی کے زور ڈالے کے باوجود  شہرت بل کو پاس نہیں کروایا۔ سود کو ختم کرنے کے شہریت کورٹ کے تاریخی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی جو آج تک لٹکی ہوئی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد صاحب نے اتحاد بنتے وقت نواز شریف صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے اثاثے پاکستانی عوام کے سامنے ظاہر کر دو یا اپنے اثاثوں کو ٹرسٹ کی شکل دے دو۔ مگر نواز شریف نے اپنے والد سے مشورے کے بعد قاضی حسین احمد کو جواب دیا کہ ہم تجارت پیشہ ہیں ایسانہیں کر سکتے۔کیا یہ اسی سوچ کی وجہ ہے کہ اس کے بعد نواز شریف کے اثاثوں میں بے انتہااضافہ ہوتا رہا۔بقول عمران خان وزیر اعظم پاکستان کہ ایک اتفاق فوئنڈری سے نواز شریف نے گیاہ ملیں بنائیں۔ لندن میں فلیٹ بنائے۔ بیرون ملک جائدادیں  بنائیں۔نوزاز شریف کرپشن کے مقدمات میں سزا یافتہ ہے۔ اب بھی کرپشن کے مقدمات میں تاریخوں پر تاریخیںبھگت رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر کا مشورہ مان لیتے تو شاہد یہ دن نے دیکھنے پڑھتے۔ مگر دولت کی ہوس مقتدر لوگوں کو یہ دن دکھاتی رہتی ہے! نواز شریف کی پاکستان کے سارے فوجی سربراہوں کے ساتھ نہیں بنتی تھی۔ مخالف الزام لگاتے کہ نواز شریف کا مزاج ہی ایسا ہے۔

وہ پاک فوج کو بھی پنجا ب کے گلو بٹ پولیس کے طرح دیکھنے کے خواہش مند رہے ہیں۔ لیکن پاک فوج دنیا کی بہترن فوج مانی جاتی ہے۔ وہ نواز شریف کی خواہش پر پوری نہیں اُترنا چاہتی۔ کیا دنیا نے نواز شریف کا فوج دشمن رویہ نہیں دیکھا۔ پاک فوج کا سربراہ جنرل پرویز مشرف جو لنکا کے سرکاری دورے پاکستان واپس آرہا تھا ۔ اس کے جہاز کو پاکستان کے ایئر پورٹ پر نہیں اُترنے دیا۔پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے کسی ایئر پورٹ پر اُترنے کا کہا۔ پھر پاک فوج نے اپنے سربراہ کی عزت کا خیال کرتے ہوئے اسے کراچی ایئر پورٹ پر اُتارا۔ ڈکٹیٹر مشرف پرویز نے نواز شریف حکومت کو ختم کر کے مارشل لا لگا دیا۔ فوج سے سو اختلافات کے باوجود یہ نواز شریف کا پاکستان فوج کو ذلیل کرنے کا اقدام نہیں تھا؟ اس پر ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کہا  تھا کہ مجھے دھکا کس نے دیا ہے۔

اس کے بعد پاکستان میں ایک اتحاد متحدہ مجلس عمل کے نام سے بنا۔ خیر اس میں تو ساری دینی جماعتیں شامل تھیں ۔ اس اتحاد میںصدرات جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور سیکرٹیری شپ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے ہاتھ میں تھی۔ یہ اتحاد بردار اسلامی ملک افغانستان پر امریکا اور چالیس ملکوں کی نیٹو اتحاد کی فوجوں کا حملہ اور افغان طالبان کی جائز حکومت امارت اسلامیہ کو بزور قوت ختم کر کے افغانستان پر قبضہ تھا۔ اس اتحاد کو افغانوں کے خون کی وجہ سے پاکستان کے عوام میں پذیرائی ملی ۔متحدہ مجلس عمل نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختونخواہ اور بلو چستان میں صوبائی حکومتیں بنائیں۔مرکز میں لیڈر آف حزب اختلاف کی سیٹ مولانا فضل الرحمان صاحب کو ملی۔ یہ اتحاد ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف خیر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی نہ توڑنے کے اختلاف پر ختم ہوا۔

 صاحبو! جماعت اسلامی ایک اسلامی نظریات جماعت ہے۔ اس نے ہمیشہ اپنے اسلامی نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے اتحادی سیاست میں حصہ لیا۔جماعت اسلامی علامہ اقبالؒ کے خواب اور قائد ا عظمؒ کے اسلامی وژن کی امین ہے۔جماعت اسلامی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ تک جد وجہد جاری رکھے گی۔ ان شاء اللہ۔ اللہ کرے پاکستان میں اسلام کا بابر کت نظامِ حکومت جلد قائم ہو جائے آمین۔

2 تبصرے

  1. جب سے سراجو جماعت کا امیر بنا ہے جماعت کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے سراجو بھی منافقین کے ٹولے میں شامل ہو گیا ہے

جواب چھوڑ دیں