کورونا نہیں غریب کا جنازہ

گھرپہ رک کربسرنہیں ہوتی

میرے بچوں کوروٹی کھانی ہے

تم کوملتی ہے بیٹھے بیٹھے گھر

ہم کوجاں مارکرکمانی ہے

(تزئین اختر)

محترتزئین اخترصاحب کی بات کومزید آگے بڑھاتے ہوئے کہناچاہتاہوں کہ

تم کوجوملتی ہے بیٹھے بیٹھے گھر

وہ میں نے ہی کمانی اور پہنچانی ہے

کیاحاکم ملے ہیں اورکیاخوب عادل ملے ہیں؟ غریب کی جان پربنی ہے ،اُن کوشغل سوجھ رہے ہیں،میری میرے بچوں کی بھوک کی بات کرنے والے بھوک کی حقیقت سے واقف ہی نہیں لگتے انہوں کبھی بھوک دیکھی ہی نہیں فقط بھوک لفظ سنایاپڑھاہے کبھی بھوک سے پالاپڑاہوتاتویقیناآج میری میرے بچوں کی بھوک پراس قدرغیرسنجیدہ نہ ہوتے۔اللہ تعالیٰ کوحاضروناظرجان کرکہتاہوں لاہورکے گنجان آباد علاقہ کاہنہ کارہائشی ہوں جہاں آج تک کوروناوائرس کے متعلق بتائی جانے والی احتیاطی تدابیرپرکسی ایک فردکوبھی مکمل یاجزوی عمل کرتے نہیں دیکھا ہاتھ ملاناتومعمول کی بات لوگ آج بھی ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔

سماجی فاصلے کی کسی کو کوئی فکرنہیںلوگ آج بھی ایک دوسرے کی طرف آتے جاتے ملتے ملاتے ہیں مسجدیں آبادہیں محفلیں جاری وساری ہیںرمضان المبارک میں دوست رشتہ ایک دوسرے کوسحری وافطاری کی دعوت دیتے اورقبول کرتے نظرآتے ہیںاورالحمدللہ۔اللہ پاک کے کرم وفضل سے ابھی تک کسی فیملی توکیاکسی فردکوبھی کوروناوائرس نے متاثرنہیں کیاجس طرح حاکم وعادل عوام کی بھوک اورکاروبارزندگی کے متعلق فقط باتوں کی حدتک سنجیدہ ہیں اسی طرح لوگ کوروناوائرس اوراحتیاطی تدابیرکے حوالے سے غیرسنجیدہ ہیں۔

جس طرح کاتعارف کوروناوائرس کاکروایاگیاجواحتیاطی تدابیربتائی گئیں ہیں اُن پرعمل درآمدکامطلب ہے کاروبارِ زندگی کی مکمل بندش۔ڈیڑھ ماہ بعد شاہ عالم مارکیٹ لاہورگیاتوکیادیکھتاہوں کہ تاجروں کے پاس اکثرایٹمزشارٹ ہیں، دریافت کرنے پرمعلوم ہواجب کارخانے اورفیکٹریاں بندہیں توآیٹمزکہاں سے آئیں گی؟

موجودہ صورتحال میں جب تک تمام کارخانے فیکٹریاں مکمل طورپربحال اورفعال نہیں ہوجاتی ہفتے کے تمام دن چوبیس گھنٹے مارکیٹ کھولنے کی اجازت مل جائے تب بھی کاروبارزندگی بحال رہناممکن نہیں۔جہاں تک بحال کی بات ہے توکسی بھی وقت ہوسکتی ہیں پرسالوں تک فعال ہوتے دیکھائی نہیں دیتیں۔حاکم وقت ایک فیصدسے بھی کم آبادی میں 12ہزارتقسیم کرکے چندایک کومخیرحضرات کے حوالے کرکے سرخروہوچکے ہیں اوراب اپنی کارکردگی کوسنہری حروف میں لکھنے اورخودہی پڑھنے میں مصروف ہیںایسے سنگین حالات میں سپریم کورٹ کاکوروناوائرس کے حوالے سے ازخودنوٹس اور اُس پرہونے والی کارروائی متاثرین کے زخموں پرنمک چھڑکنے جیسی معلوم ہورہی ہے ایک دن سپریم کورٹ حکم دیتاہے کہ ملک بھر میں ہفتہ اتوار سمیت تمام دن شاپنگ مالز اور مارکٹییں کھولی جائیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ قرار دیتاہے کہ پاکستان میں کوروناوائرس اس قدر سنگین نہیں‘ جتنی رقم خرچ کی جا رہی۔ فاضل چیف جسٹس صاحب حکم دیتے ہیں کہ دکانیں سیل کرنے کی بجائے ایس او پیز پر عمل کرایاجائے جو دکانیں سیل کی گئی ہیںانہیں بھی کھول دیاجائے نہیں تو چھوٹے تاجر کرونا کے بجائے بھوک سے ہی نہ مر جائیں تواگلے ہی روزاسی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ مارکیٹیں کھولنے کی اجازت بس عید تک ہے۔ہماری تشویش اخراجات سے متعلق نہیں بلکہ ہماری تشویش سروسز کے معیار پر ہے۔کورونا کے مشتبہ مریض کا سرکاری لیب سے ٹیسٹ مثبت اور پرائیویٹ سے منفی آتا ہے۔

سوشل میڈیا پر قرنطینہ سینٹرز کی حالت زار کی ویڈیوزچل رہی ہیں۔سپریم کورٹ لاہور کے رجسٹری ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہمارے ملازمین کا کورونا ٹیسٹ سرکاری لیب سے مثبت اور نجی لیب سے منفی آیا۔ کورونا کے مریض کو دنیا جہان کی ادویات لگا دی جاتی ہیں۔ ویڈیو دیکھی جس میں لاہور میں ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کورونا نہیںپھربھی ڈاکٹر چھوڑ نہیں رہے تھے۔حالات واقعات کودیکھاجائے تولگتاہے کہ حاکم،عادل،معالج وتاجرصرف بانٹنے پرلڑرہے ہیں آپ سوچ رہے ہوں گے کیا بانٹنے پرلڑرہے جی جی آہوآہوغریب عوام کاخون گوشت اورہڈیاں آپس میں بانٹ کرفروخت کرناچاہتے ہیں اورایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں ساڈہ حق ایتھے رکھ ۔کیسی احمقانہ بات ہے کہ منظم ترین ادارے سکول کالج بندکرکے غیرمنظم اوربے لگام بازاراورمالزکھول دیئے گئے ہیں۔یوں لگتاہے کوروناوائرس مال دارکاقریبی رشتہ داراورغربت کادشمن ہے۔

کیساسمجھ دارہے کوروناوائرس مسجد وامام بارگاہ میں نمازاداکرنے سے روکتاہے کسی مزارپرحاضری ودُعاکی اجازت نہیں دیتاپرپریس کانفرنس کے دوران سیاستدانوں کوکچھ نہیں کہتا مساجدپرپابندی لگواتاہے پرحکمران اورامیرترین طبقے کی افطارپارٹیوں میں جانے سے گریزکرتاہے کیااخبارات میں افطارپارٹیوں کی خبریں شائع نہیں ہورہی؟ کیا صاحب حیثیت طبقہ سرعام کھلم کھلا کوروناوائرس کے ایس اوپیزکی خلاف ورزی نہیں کررہا؟ امیرپرمہربان کوروناوائرس دنیامیں غریب اورامیرکے درمیان فاصلے کواس قدربڑھاچکاہے کہ قیامت تک یہ فاصلہ کم ہوتامعلوم نہیں ہوتا۔اقتدارکے مزے لوٹنے والے بڑی بڑی تنخواہیں اورمرعات لینے والے عادل اورفرینڈلائن پرلڑنے والے ڈاکٹرز کیاجانیں بھوک کس بلا کوکہتے ہیں۔جب کوروناوائرس کاکوئی علاج ہی دریافت نہیں ہواتوپھرڈاکٹرزکس چیزکاعلاج کررہے ہیں؟علاج دریافت کرنے سے قبل ڈاکٹرزکو سلام وخراج تحسین کس سلسلے میں پیش کیے جارہے ہیں؟ کیا ڈاکٹرزکایہ فرض نہیں کہ بیماروں کاعلاج کریں؟کیاڈاکٹرزتنخواہیںاورفیسیں وصول نہیں کرتے؟کوروناوائرس کے مریضوں کودیکھنے پرڈاکٹرزسلیوٹ کے حق دارہیں توپھروہ مزدورجوہمارے گھر،دفتر،کارخانے،فیکٹریاں،سڑکیں اوردیگرعمارتیں بنانے میں خون پسینہ ایک کردیتے ہیں؟اُن کسانوں کوکیوں کبھی سلام پیش نہیں کیاجاتاجورات دن محنت کرکے ہمارے لئے اناج اگاتے ہیں؟اُس رکشے والے کوخراج تحسین کیوں پیش نہیں کیاجاتاجوگرمی وسردی میں رات بھرسڑک کنارے ہمارے انتظارمیں کھڑارہتاہے؟ کوروناوائرس کی آڑمیں فائدے اُٹھانے والوں کاایک ہی نعرہ ہوتاہے کہ ساڈہ حق ایتھے رکھ ۔غریب دی ہوگئی بس۔غریب دی ہوگئی بس

جواب چھوڑ دیں