فاصلہ اور فیصلہ

اہم واقعات اور کہانیاں ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتی ہیں ایک مشہور سبق آموز واقعہ آج کے حالات پر فٹ آتا ہے تو گویا رہنمائی ملتی ہے اس لئے کہانیاں اور واقعات نہ صرف  تاریخ کا حصہ ہوتے  ہیں بلکہ خود  تاریخ  بناتے رہتے ہیں ہارون رشید کے دور میں ایک مرتبہ  قحط کے برے اثرات ہوئے ایک بڑا علاقہ اس کی زد میں آیا تو ہارون رشید نے قحط سے نمٹنے کیلئے  تمام  تدبیریں آزمائیں، غلے گوداموں کے منہ کھول دیئے ، ٹیکس معاف کردیئے ، ساری جگہ سرکاری لنگر خانے کھول دیئے تمام امراء اور تا جروں کو بھی متاثرین کی مدد کیلئے مئوثر کردیا  لیکن پھر بھی عوام کے حالات  ٹھیک نہیں ہوئے ، تھک ہار کر وہ پریشانی اور فکر سے نیند کی آغوش میں چلا گیا پھر اچانک آنکھ  کھلی  خیال آیا اس پریشانی میں اپنے استاد اور وزیراعظم یحیٰ بن خالد کو بلا کر کہا کہ  مجھے کسی پل قرار نہیں ، سو نہیں سکتا آنکھ کھلتے ہی فکر لگ جاتی ہے مجھے کوئی ایسی کہانی سنائو جسے سن کر مجھے قرار آجائے اور میں سو سکوں ۔

بڑی اور لمبی کہانی داستان کہلاتی ہے جن کا آج کل تو کوئی نام بھی سننا نہیں چاہتا مگر جب فرصت ہو اور مطلب ہو تو بندہ داستان بھی سننے کو تیار ہوجاتا ہے ۔ یحیٰ بن خالد نے مسکرا کر کہا “بادشاہ سلامت میںنے اللہ کے کسی بندہ کی حیات طیبہ میں ایک داستان پڑھی تھیـ” ۔ داستان مقدرقسمت اور اللہ کی رضا کی سب سے بڑی اور شاندار تشریح ہے۔ اجازت ہو تو وہی داستان دہرا دوں ۔ بادشاہ نے بے چینی سے فرمایا “یا استاد فرمائیے ” میری جان حلق میں اٹک رہی ہے ۔ یحیٰ اور خالد نے عرض کیا کہ “کسی جنگل میں ایک بندر یا سفر کیلئے روانہ ہونے لگی وہ اپنے بچے کو ساتھ نہیںلے جا سکتی تھی چنانچہ وہ شیر کے پاس گئی اور کہا ۔ آپ جنگل کے بادشاہ ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ آپ میرے بچے کی حفاظت بہت اچھی کرسکیں گے میں سفر پر روانہ ہونے لگی ہوں آپکی بڑی مہربانی ہوگی۔ شیرنے حامی بھرلی تو بندریا نے اپنا بچہ شیر کے حوالے کردیا ۔ شیر نے اسکا بچہ کندھے پر بٹھا لیا اور بندریا سفر  پر روانہ ہوگئی ، اب شیر روزانہ بندر کے بچے کو کندھے پر بٹھاتا اور جنگل میں اپنے روزمرہ کے کام کرتا رہتا ۔

ایک دن اچانک ایک چیل نے ڈائی لگائی شیر کے قریب پہنچ کر بندریا کا بچہ دبو چا اور آسمانی میں گم ہوگئی ۔ شیر جنگل میں بھاگا دوڑا مگر چیل کو نہ پکڑسکا چند دن بعد بندریا واپس آگئی اور شیر سے اپنے بچے کا مطالبہ کیا ۔ شیر نے شرمندگی سے کہا کہ تمہارا بچہ تو چیل لے گئی۔ بندریا کو غصہ آگیا اس نے چلا کر کہا تم کیسے بادشاہ ہو ایک امانت کی حفاظت بھی نہ کر سکے؟ تو اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلائو گے ؟ شیر نے افسوس سے سرہلایا اور بولا میں زمین کا بادشاہ ہوں اگر کوئی آفت تمہارے بچے کی طرف آتی ہے وہ بھی زمین سے تو میں ا سے روک لیتا لیکن یہ آفت تو آسمان سے اتری تھی اور آسمان والی آفتیں صرف اور صرف آسمان والا ہی روک سکتا ہے۔ پھر یحیٰ بن خالد نے کہا بادشاہ سلامت قحط کی یہ آفت بھی اگر زمین سے نکلی ہے تو آپ اسے روک لیتے یہ آسمان کا عذاب ہے اسے صرف اللہ تعالیٰ ہی روک سکتا ہے چنانچہ آپ یہ آفت رکوانے کیلئے بادشاہ نہ بنیں ، یہ آفت رک جائے گی ۔

دنیا میں دو طرح کی آفتیں ہوتی ہیں آسمانی مصیبتیں اور زمینی آفتیں ۔ آسمان کی مصیبتیں اور آفتوں سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا ضروری ہے جبکہ زمینی آفت سے بچائو کیلئے انسانوں کا متحد ہونا ، وسائل کا بھرپور اور جائز استعمال ، حکمرانوں کا اخلاص درکار ہوتا ہے ۔ پھر یحیٰ بن خالد نے ہارون رشید سے کہا تھا کہ “آسمانی آفتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک انسان رب کو راضی نہیں کرتا آپ اس آفت کا مقابلہ بادشاہ بن کر نہیں کر سکیں گے چنانچہ آپ فقیر بن جا ئیے اس سے توبہ کیجئے اس کے حضور گڑ گڑائیے اس سے مدد مانگئے ۔ دنیا کے تمام مسائل اور ان کے حل کے درمیان صرف اتنا سا فا صلہ ہے ۔ جتنا ماتھے اور جائے نماز میں ہوتا ہے لیکن افسوس ہم اپنے مسائل کے حل کیلئے سات سمندر پار تو جاسکتے ہیں لیکن ماتھے اور جائے نماز کے درمیان چند انچ کا فاصلہ طے نہیں کرسکتے ۔ کبھی یہ بڑی داستان ہوتی تھی آج مختصر کہانی ہے مگر بڑی دانائی اور حکمت والی ہے آج زندگی کی دوڑ میں ہر بندہ بادشاہ بنا ہوا ہے ، رب سے دور ہے ، رب کو اپنے کرتوتوں سے مسلسل ناراض کیا جارہا ہے ۔ یہی دنیا کا بادشاہ خلیفہ ، انسان اپنی اکڑ میں اتنا آگے بڑھ گیا ہے بقول شاعر ؎

                                خدا مجھ کو ایسی خدائی نہ دے    کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

آج ہر بندہ ہر ملک اتنا خود غرض ہو گیا ہے کہ لگتا ہی نہیں ہے کہ وہ کسی سپر پاور رب کو اپنے خالق اللہ کو جانتا ہے تمام حدود کراس کرکے اس نے انسانوں کا گلہ گھونٹا ہوا ہے اپنے ستم بالا ئے ستم یہ کہ اس کھلی درندگی اور بربریت پر کوئی جان لڑانے کو آگے نہیں آرہا ۔ سب تماشائی بنے اس دنیا میں مگن ہیں ، بھول گئے ہیں کہ اس رب کی نوازشیں ہمیشہ ہیں کیونکہ وہ رحیم ہے کریم ہے مگر اسکی پکڑ بڑی شدید ہے تم اس حال کو پہنچ ہی نہیں سکتے ۔ وہ اپنی کسی مخلوق پر ظلم برداشت نہیں کرسکتا۔ دنیا میں اس کی پکڑ صرف تنبیہ ہے ، ڈانٹ ہے ، دھمکی ہے ۔ اصل سزا تو یوم تغابن پر ملے گی ۔

کبھی کسی کو بھی کمزور اور حقیر نہ جانیں آج ذرا جائزہ لیں ۔ ہر فرد انفرادی طور پر اپنی نیکیوں پر بھی متکبر نہ ہو یہ تو اللہ کی توفیق ہے ۔ آپکی مانگی ہوئی طلب و تڑپ کے ساتھ ہدایت ہے اپنی ذرا سی نیکیوں پر اکڑ اور غرور مزید بڑا گناہ ہے ۔ وہ نظر نہ آنے والا رب وہ عالم الغیب کیا تم پر نگہبان نہیں ؟ اسکی نگہبانی سے ڈرتے نہیں ؟ مرنے کا یقین نہیں ؟ مرنے کے بعد جواب دہی کا کیا بالکل یقین نہیں ؟ ایک ذرا سی نہ نظر آنے والی وائرس کرونا نے سب کو آڑے ہاتھ لیا ہوا ہے ۔ اتنے دنوں سے بے گناہ قیدو بند کی مصیبتیں جھیلتے کشمیری کیاہماری اور آپ کی طرح کے انسان ہیں ؟ دنیا میں جہاں جہاں جو جو ظلم کر رہا ہے نا انصافی کر رہا ہے ، حق مار رہا ہے۔ دوسروں کی زندگیاں لے کر خود دندنا تا پھر رہا ہے تو کیا قدرت خاموش رہے گی؟ رب نے خود دعا ئوں کا حصار قول و فعل کا منصفانہ اظہار تمہاری نجات کا ذریعہ بنایا تھا تم نے کیا کیا؟ آج بھی ترقی یافتہ ملکوں میں تو لوگ اس آفت کو سنجیدگی سے لیکر اپنے اعمال مزید درست کر رہے ہیں جبکہ ہم معذرت کے ساتھ اس کو بھی مذاق میں لے رہے ہیں ۔

اس کرونا سے زیادہ منافقت ، دوغلا پن ، حق تلفی ، سستی ، نااہلی، اکڑ ، تکبر ، داداگیری ، تیری میری، چوری چکاری اور میں میں کے موذی لاعلاج بیماریوں کا شکار دھڑلے سے ہورہے ہیں او ر احساس بھی نہیں رکھتے ۔ آج بھی چند سفید پوشوں کے علاوہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ۔”مومن ایک بل سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا ” یہ حدیث نبویؐ مومنوں کیلئے ہے جسکو اپنے رب سے اپنے رسولؐ سے محبت ہوتی ہے۔ تقویٰ والے خشیت والے ہوتے ہیں ۔ اللہ کے حدود کو توڑنے والے نہیں ہوتے ۔آج اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے پورے خاندان کے لوگ اپنا جائزہ لیں زمین سکڑ دی گئی ہے اور مزید سکڑ کر صرف قبر رہ جائے گی؟ کیا ایسا نہیں ہوگا ، ہوگا ہی نہیں ، آج نہیں کل نہیں کبھی نہ کبھی ۔۔۔۔ پھر خوش قسمت ہونگے وہ لوگ جہ نہلا دھلا کر غسل دلوا کر دفنائے جائینگے۔

آج موقع دیا ہے اللہ نے وہ گھات لگا ئے ہوئے ہے اور موت گھات لگائے ہوئے ہے ۔ اتنی بڑی حقیقت موت کو ہم بھولے ہوئے ہیں ۔ کسی کوخاطر میں نہیں لا رہے ۔ دنیا لاک ڈا ئون ہے کیا اب بھی نہ جا گو گے ؟ آج بھی دکھا وا، بناوٹ ، دھوکا دہی ، جھوٹ ، دغا ہم کس کو دے رہے ہیں ؟ اپنے آپ کو ؟ سوچیں اپنا جائزہ لیں ۔ اپنے خاندان کو اپنے متعلقین کو اپنے رول ماڈل سے پیغام انسانیت دے دیں ۔ مقصد انسانیت سمجھئے اور سمجھائیں کہ یہ فرصت کے وقت کا بہترین استعمال بھی ہے حق بھی ہے اور اولین ذمہ داری ہے تعاون کیجئے اپنے آپ سے برائیوں کے خلاف تعاون کیجئے فلاحی میں بھلائی میں وقت کے پیغام اور ضرورت کو سمجھئے ۔ جو کرنا ہے آج سے ابھی سے کر ڈالئے کیونکہ؎

                            وقت کی بات گر وقت پہ نہ مانی تم نے     وقت پھر وقت نہ دیگا تمہیں پچھتانے کا

وقت بڑی ظالم چیز ہے جو بندے کی اوقات بدل دیتا ہے ۔ مہلت زندگی آپکا مختصر ترین وقت ہے اس کو غنیمت جانئے۔ اولون بنیں ، سابقون، تائیون بنیں ، حامدون بنیں کہ اس کی رحمت اب بھی منتظرہے کہ پلٹ آئیے ، توبۃ النصوح کے ساتھ کہ رب کی ذات عظیم ہے اور نا امیدی کفر ہے۔ احساس لیجئے اپنی غلطیوں ، کمیوں کوتا ہیوں کا کہ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا ۔ سچی توبہ اور ندامت  کا ایک آنسو اور تیری باقی زندگی تیری اولاداور تیرا عمل ظاہر ہے اسکا اختیار تجھے ابھی ہے تیرا فیصلہ بھی رب کی رضا والا  ہونا چاہئے نا ؟ فیصلہ تیرا ہے فاصلہ تو نے خود کھڑا کیا ہوا ہے۔ اپنے آپ سے بھی سوال ہے ؟ تو اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائے گا ؟؎

                        احساس مر نہ جائے تو انسان کیلئے      کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

جواب چھوڑ دیں