انفاق فی سبیل اللہ 

کتنی خوشی ہوتی ہے کسی کو کچھ دیتے ہوئے کسی کو پیسے دینے میں تو بڑا ہی سکون آتا ہے انجانی سی خوشی ہوتی ہے یہی راحت ہے زندگی کی ۔ اللہ تعالیٰ رازق ہیں کریم ہیں ، رحیم ہیں ہزارہا صفات کے مالک مگر سبحان اللہ انہوں نے اپنی چند صفات اپنے بندوں کو بھی اپنی روح کے ساتھ دے دی ہیں ۔ ایک فی صد رحم ڈال کر ساری دنیا کی مخلوقات میں محبت کا ایسا جذبہ پیدا کردیا ہے جو زندگی کو حسین تر رنگین اور خوبصورت بنا دیتا ہے ۔

چھوٹے بچوں سے بے لوث محبت ایک ہلکی سی اس محبت کی جھلک ہے ۔ ماں کی ممتا جان وار دیتی ہے اس محبت پر اور باپ قربان ہوجاتا ہے اولاد کی محبت میں۔ اللہ کے ہر ہر حکم کو ماننے میں کتنی لذت ہے ۔ قر آن کا فرمان ہے خرچ کرو اللہ کی راہ میں۔ پو چھا گیا کیا خرچ کریں ؟ فرما یا گیا کہ جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو ۔ کتنا اچھاجواب ہے کو ئی تنگی نہیں جو کچھ ہماری ضروریات سے زیادہ ہو اللہ کی راہ میں دے دیں۔

روپیہ پیسا ہی نہیں ، کپڑے کھانے پینے کی چیزیں ، اشیاء ضروریات ، یہاں تک کے مکان ، دکان یا اس طرح کی بھی جائیداد کا ٹکڑا ، مویشی، اجناس کھیت ، کھلیان بھی اللہ ہی نے آپکو دیئے ہیں اس میں سے آپ کو خرچ کرنا ہے ۔ زکوٰۃ تو فرض ہے اس لئے ہے کہ معاشرے میں توازن رہے نفرتیں اور دوریاں جنم نہ لیں ۔ زکوٰۃ کے علاوہ صدقات ، خیرات ، کار خیر کیلئے دل کھول کر خرچ کریں تو یہ صدقہ جاریہ ہے ۔ خوبصورت قرض حسنہ ہے۔

اللہ پاک اسے بڑھا چڑھا کر واپس کردینگے ۔ اللہ کو کسی کی مقدار یا تعداد سے مطلب نہیں وہ تو نیتوں کو تولا جاتا ہے ۔ جہاں نیتیں ڈلتی ہیں پلڑوں میں اور ایک کا بدلہ ہزاروں میں ہوتا ہے ۔ کہتے ہیںنا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ ہمیں شکر کرنا چاہئے کہ اس نے تمہارا ہاتھ اوپر گویا دینے میں رکھا ہے ۔ اگر کسی کو کچھ دے نہیں سکتے تو کم ازکم اس کے غموں میں اضا فہ نہ کرو بلکہ اسکے غم لے لوں …کیونکہ ؎

                           دل توڑ دیں کسی کا یہ زندگی نہیں ہے     غم لے لیں ہم کسی کا یہ خوشی نہیں ہے

اتنی زیادہ مجھے خوشی ہوئی اس بات سے کہ کرونا کے سلسلے میں کافی لوگوں کے جذبے دیکھے مثبت بھی منفی بھی مگر مثبت روئیے مثبت انداز مثبت کام ہی پھیلانا چاہئے ۔ خوش رہیں یہ سارے صابن والے، لائف بوائے والے ، کلینرز والے جنہوں نے ذرا بھی اپنی اشیاء میں قیمتوں کا ا ضافہ نہ کرے بھی انفاق فی سبیل اللہ کا ثبوت دیا۔ منافع یہ بھی دل کھول کر لوٹ کر کماسکتے تھے مگر وہی بات خوف خدا اور شوق رضا نے انہیں یہ گھنائونا جرم کرنے سے روکا اور یوں انہوں نے کھلے دل کا مظاہرہ کیا جو ایک قابل تعریف عمل ہے۔

کتنے لوگوں  نے محض دو کلو چینی یا آٹا دیا مگر ان میں ہزاروں روپے رکھ کر اپنے بھائیوں کی سفید پوشی  برقرار رکھی ۔ ایک صاحب نے تو راشن مفت کا بورڈ لگایا ہوا تھا جس سے کچھ عادی فقراء اور لالچی لوگ کئی کئی بار آتے اور لائین میں لگ کر راشن لے جاتے ان صاحب نے انوکھی ترکیب چلی اور دکان پر ایک بورڈ لٹکا دیا جس پر لکھا تھا آٹا بیس روپے کلو اور چینی تیس روپے کلو اسی طرح دیگر اشیاء خوردنی کم پرائز لکھے تو جو عادی بھکاری تھے وہ خود چھٹ گئے ۔

دیگر لوگوں سے انہوں نے پیسے لئے مگر ان کی عزت نفس کو مجروح کئے بنا ان کے پیسے ان ہی کے سامان میں رکھ دیئے اور حضرت یوسف ؑ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے کسی کی بھی عزت نفس کو مجروح نہ کیا بلکہ عزتوں کا بھرم اور سفید پوشی برقرار رکھی جبکہ دوسری جانب کچھ لوگوں نے ان حالات میں بھی دوسروں کو بے عزت کرنے میں کمی نہ چھوڑی ۔ انتہائی مختصر راشن کلو ڈیڑھ کلو آٹا ذرا ذرا سی پتی، چینی اور قلیل مقدار کا تیل دیا وہ بھی سخت گرمی ڈھیروں لوگوں کو سست رفتاری سے خوار کرکے۔

ایک بچی نے اپنی ماں سے کہا کہ امی آپ کیونکہ نقاب کرکے یہ لینے چلی گئیں ہم تھوڑا اور صبر کر لیتے لیکن ماں تو ماں ہے کہا بیٹا فکر نہ کرو میری تو کوئی تصویر بھی نہ کھینچی لیکن دینے والے خود ہی بے نقاب ہو گئے بیٹا اللہ پر بھروسہ رکھو اللہ ضرور تنگی ٹال دے گا ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قدرت کی اس انوکھی مہربانی یا آزمائش کو بہتر جانیں ۔ نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے انسانیت کے دکھ سمجھیں ۔ رب چاہی کریں رب کو راضی کریں۔

ہر دم شکر ادا کریں اور اپنی پوری زندگی ایک ایک لمحہ محنت اور جدوجہد سے احکام الٰہی کے مطابق حلال کمائی کریں اور پھر اسی حلال کمائی سے انفاق فی سبیل اللہ کریں ہر صورت اپنی کمائی ہی نہیں اپنا قیمتی وقت، قابلیت، علم ، جوانی ، طاقت ، ہنر اور محنت کو اللہ کی راہ میں ایسے خرچ کریں کہ واقعی مخلوق اللہ کا کنبہ لگے ۔ شیطان تو ہمارا کھلا دشمن ہے وہ ہمیں کبھی سرخرو ہونے نہیں دے گا۔ مظلوموں کی مدد لاچارگی ، پشت پناہی ، بے کسوں کی امداد ہمارا اولین فرض ہے ۔

امت مسلمہ کیا صرف نام کی رہ گئی ہے جو تڑپتی ، سسکتی اپنی مسلم کشمیری ساتھیوں کی بروقت اور جان قربان دلیری سے مدد کرنے سے کیوں قاصر ہے ۔ جہاد تو ظلم کو روکنے کیلئے ضروری ہے ۔ برائی کے خلاف ڈٹنے میں ڈر کیسا؟ ڈرنا تو ہمیں اپنے رب سے ہے جس نے رسی دراز کی ہوئی ہے اور کروناکا نمونہ دیکر سب کو للکار رہا ہے پھر بھی پوری انسانیت کیا مسلم کیا غیر مسلم بے ضمیر اور بے حس خود غرض بنے صرف زبانی بیان بازی کرکے ٹرخا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو خبیر ہے کیا وہ آپکی چالوں کو نہ سمجھے گا ؟ رب تمہاری کیوں سنے گا ؟ کیا تم نے رب کی مانی ہے؟

اب تو وقت آگیا ہے رحمتوں کا برکتوں کا خدارا، اپنے روئیے درست کریں نیک فعال نیک اعمال اپنائیں ، صدق دل سے رب سے معافی مانگیں اور ظالموں کے پنجوں سے کشمیریوں کو آزاد کروائیں ۔ اپنی صلا حیتوں ، قوتوں مال و اسباب اور جانور کو انفاق فی سبیل اللہ میں خرچ کریںپھر کوئی وجہ نہ ہوگی کہ رب راضی ہوجائے اسے تمہارا تقویٰ چاہئے ۔ مال اسی کی ہے سودا بھی اسی نے تم سے کر لیا ہوا ہے ۔ بقول شاعر ؎

               دل میرا جاں بھی تیری سب کچھ تیرا میرا ہے کیا؟     کر لیا سودا جو تو نے سب تیرا میرا ہے کیا؟

واقعی اس مہربان رب کریم کب سمجھیں گیں؟ سانپ کی طرح اپنی دولت پر بیٹھ جائیں محلے دو محلے ، مکان دکا ن کوٹری سب یہاں رہ جانے والی ہیںاگر دین کا شعور لیتے ہوئے ان کی منصفانہ تقسیم نہ کی تو گویا پچھلی نسلوں کیلئے فساد چھوڑ گئے لہٰذا اپنی مہلت زندگی تو غنیمت جانئے بچوں کو اچھی سے اچھی تعلیم و تربیت بہترین صحت دیں اور دین کی راہ میں انفاق کا جذبہ اپنے عمل سے ان میں راسخ کردیں ۔

یہی عقل مندی ہے کہ قیامت میں ہمیں یہ نہ کہنا پڑے کہ کاش میں نے راہ خدا میں یہ وہ کیوں نہ دیا ۔ کاش میں نے ان لوگوں کا ساتھ نہ دیا ہوتا ! کاش میں نے اپنی اگلی زندگی کیلئے کچھ آگے بھیجا ہوتا ! یا یہ کہ کاش میں مٹی ہوتا! انفاق کیجئے اور دونوں جہاں کا منافع پائیے دوسروں کو خوشی دے کر آپ کبھی اداس نہیں رہ سکتے ۔

جواب چھوڑ دیں