ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

یکم مئی کے دن یوم مزدور منایا جاتا ہے ، مگر اس دن بھی مزدور، کسان ا ور محنت کش دنیا مافیا سے بے خبر محنت مشقت میں مصروف نظر آتے ہیں ، کیونکہ اس دور میں غریب محنت کش کے لئے رزق حلال کے دو لقمے کمانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ جبکہ محنت کش کو محنت مزدوری کے دوران جس سفاکانہ روئیے کا سامنا کرنا پڑتاہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ محنت کشوں کا ایک طبقہ تعمیراتی کاموں، کھیتوںکھلیانوں، ورکشاپوں اور دیگر مقامات پر مشقت کرتاہے جہاں مالکان کی جانب سے ان کے حقوق و سلامتی سے متعلق خیال تو درکنار بلکہ ان کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔

جبکہ دوسرا طبقہ سرکاری یا پرائیویٹ اداروں، کاروباری مراکز،کارخانوں میں ملازمت کرتا ہے ، سرکاری ادروں کی صورتحال توکچھ بہتر ہے مگر پرائیوٹ کمپنیوں اور اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اکثر پریشان حال نظر آتے ہیں، جہاں ان سے آٹھ گھنٹے کی بجائے بارہ پندرہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے، جبکہ تنخواہ اس قدر کم دی جاتی ہے کہ ضروریات زندگی کیلئے ناکافی ر ہے، اور وہ بھی وقت پر نہیں دی جاتی۔ اورکچھ کمپنیاں تو دو چار ماہ کے بعد تنخواہ دینا بند کردیتی ہیں جس پر مجبوری میں ملازم بغیر تنخواہ لئے کمپنی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور وہ لیبر کورٹ میں بھی اپنا مقدمہ لیکر بھی نہیں جاسکتا ہے، کیوں کہ اس کے پاس وہاں کام کرنے کا کوئی پروف اور ثبوت نہیں ہوتا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عظیم ہے کہ’’ مزدور کی اجرت ا س کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردی جائے‘‘۔

معاوضےکا نہ ملنا بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں بلکہ دل دہلا دینے والی بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات غریب مزدور کی عزت نفس بھی اپنے مالکان کی غیر انسانی سلوک کی وجہ  سے اتنی مجروح  ہوتی ہے کہ وہ ایسی  ذلت  کی زندگی پر موت کو مقدم جانتے ہیں۔ یکم مئی کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مزدوروں کے معاشی حالات تبدیل کرنے کیلئے کوششیں تیز کی جائیں گی اور ان کا استحصال بند کیا جائے گا، جبکہ امریکہ اور کینڈا میں مزدوروں کادن ستمبر میں منایا جاتا ہے۔ یکم مئی 1886ء کو امریکا کے شہر شکاگو کے مزدور، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی جانب سے کئے جانے والے استحصال کے خلاف سڑکوں پر نکلے تو پولیس نے اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے والے پرامن جلوس پر فائرنگ کر کے سینکڑوں مزدوروں کو ہلاک اور زخمی کردیا جبکہ درجنوں کو حق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا تھا، لیکن یہ تحریک ختم ہونے کے بجائے دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی جو آج بھی جاری ہے۔

اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینار، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ  اظہار یکجہتی، ملک کے مزدوروں کے حقوق کی  جدوجہد کو تیز کرنے، مہنگائی وبے روزگاری کے خاتمے، قومی اداروں کی نجکاری کے خاتمے، مزدور دشمن قوانین کی منسوخی، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے، تنخواہوں و اجرت میں اضافے سمیت مزدوروں، محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں قومی سطح پر یوم مئی منانے کا آغاز 1973 ء میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا، ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں کے حقوق کیلئے انقلابی لیبر پالیسی نافذ کی جس کے مطابق مزدوروں کو روزگار کا تحفظ دیا گیا او ر انہیں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ ان کے دورحکومت سے یکم مئی کو سرکاری تعطیل قرار دیاگیا، اس دن تمام سرکاری و غیرسرکاری ادارے اور بنک بند رہتے ہیں۔ بے شک محنت کش اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کے حقوق پر بہت زور دیا۔

ایک بار ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اسکے ہاتھ کھردرے اور سخت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے اس کا سبب پوچھا تو اس شخص نے بتایا کہ محنت و مشقت سے پہاڑوں کی چٹانیں کاٹ کر روزی کماتا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محنت کش کے ہاتھ چوم لیے۔ یکم مئی کے دن دنیا بھر کا دانشور طبقہ مزدوروں کے مسائل حل کرنے کیلئے بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کرتا ہے، لیکن افسوس کہ ان مزدوروں کو اس کی خبر ہی نہیں ہو تی، اور تقریباً 99 فیصد مزدور اس بات سے بالکل ناواقف رہتے ہیں کہ سال میں ایک دن ایسا بھی آتاہے جو ان کیلئے خاص ہے، ان کیلئے خوشیاں منانے کا موقع ہے، چھٹی کرکے بال بچوں کے ساتھ گزارنے کا دن ہے۔ جسے دنیا بھر میں ’’ مزدوروں کے عالمی دن ‘‘ کے طور پر منایا جاتاہے، لیکن ایک عام مزدور جو صبح  چوک پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتا ہے، صبح  مزدوری کرتا ہے تو رات کو اس کا چولہا جلتا ہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مزدوروں کے کمر توڑ  احوال کو اپنے ان اشعار میں  کیا خوب سمویا ہے ؎

             ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت       احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

             تو قادر وعادل ہے مگر تیرے  جہاں میں        ہیں تلخ  بہت  بندہ  مزدور  کے  اوقات

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نےفرمایا تھا کہ پاکستان مزدوروں کی خوشحالی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا‘‘ ۔ حکومت کو چاہیے کہ مزدور وں کے حالات میں بہتری کے لئے اقدامات کرے اور ان کی اجرت و تنخواہوں میں مناسب اضافے کا اعلان کرے۔ آج مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روز گار کی ضمانت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں لیبرقوانین بھی صرف رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں حالانکہ کھیتوں میں دن بھر محنت کرنے والے ، اینٹوں کے بھٹوں پرخون پسینہ ایک کرنے والے ، ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے والے کروڑوں مزدور ایسے ہیں جن کو کبھی کسی ادارے نے رجسٹرڈ نہیں کررکھا۔

مزدوروں کو ان کا جائز حق نہ ملنے کی وجہ سے حالات  زندگی بہت ابتر ہیں، اور سب  کے گھر بنانے والے یہ محنت کش اپنی چھت تک سےمحروم ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مزدور تحریک ہمیشہ کمزور رہی ہے، مزدور رہنمائوں کی جانب سے مزدور تحریک کو منظم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدور رہنماؤں کو قومی سطح پر ایک مضبوط فیڈریشن قائم کرنی چاہیے تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں اور ان کا استحصال ختم ہوسکے۔

جواب چھوڑ دیں