ارطغرل اور ایمان

ہم آپنی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو واپس نہیں لوٹاتے… دوستی کا ہو تو ملا لیتے ہیں اور دشمنی کا ہو تو کاٹ دیتے ہیں.. دورحاضر میں جیسے ہم سوشل میڈیا پر نہایت شہرت پاتے دیکھ رہے ہیں وہ” ارتغل غازی”ہے یہ نہ صرف ایک نام ہے ..بلکہ آج کے لوگوں کے خون میں دوڑتے جذبے کے مانند ہے.. وہ کہتےہیں نا “جس کا کوئی خواب نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں”۔۔(ارتغل غازی) ، انہیں الفاظ کی وجہ سے….

میں نے جب یہ دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اصل میں ریاست مدینہ ہے کیا۔۔۔؟؟؟ جوش و جذبہ ہے کیا؟؟آج ہم اتنے نا امید اور پریشان کیوں ہیں۔۔ ؟؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج کے نوجوان میں نہ تو جنگ لڑنے کا جذبہ ہے اورنہ ہی دین سے لگن، وہ دنیاوی علوم میں مصروف ہیں…ہم اس قوم سے ہیں جس میں ناانصافی سود خوری حق تلفی اور بہت سے جرائم شمار ہیں…….

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے امید خدا کے بجائے اس کے بندوں سے لگا لی ہے۔۔۔ جس کی وجہ سے ہم جلد ہی نہ امید ہو جاتے ہیں.. حق کی راہ پر چلنے والوں کو میرا رب کبھی تنہا نہیں چھوڑتا”(ارتغل غازی) ، سمجھنے کی بات کچھ یوں ہے ایک بہادر جنگجو ارتغل غازی  کیسے بنا اس کو اتنی  فتوحات حاصل  کرنے کا جذبہ کیسے ممکن ہوا؟؟؟

تو سنیے یہ قائی قبیلے کا رہنے والا سردار سلیمان شاہ اور بہادر ماں حاءمہ کا بیٹا تھا اس نےاس گھر میں پرورش پائی جہاں اسلام کے خلاف لڑنا اور حق کے خاطر آواز اٹھانا بائیس فخر سمجھی جاتی تھی اس نے اسہی راستے پر چلتے اپنے والد سلیمان شاہ کو دیکھا  تھا جو حق کے خاطر اپنی جان  تک دینے کے لیے تیار رہتے…اور اس نے ایک بہادر جنگجو اور پراعتماد ماں کی گود میں پرورش پائی یہ وہ عورت ہے جس نے اپنے چاروں بیٹوں کو خدا کی راہ میں دشمنوں  کے خلاف جنگ  کرنے والا  بنایا اور وقت آنے پر اپنے شوہر سلیمان  شاہ کے انتقال کے بعد سردار ی بھی سنبھالی ۔۔یہ سب ایک بہادر ماں کے ہوتے ہی ممکن تھا …

یہ وہ عورت ہے جو جنگ پے روانہ کرتے وقت اپنے بیٹوں کو کہتی .. خدا تمہیں کامیاب کرے اور اگر تم شہید ہو گئے تو ہم ایک آنسو نہیں بہائیں گے …… تو کیسے عظیم والدین کا بیٹا ارتغل غازی نہیں ہوتا ۔۔؟؟ جو کہتا تھا۔۔” مجھے موت کا ڈر نہیں لیکن وہ آخری سانس میرے لیئے حرام ہوگی جس سے پہلے میں ہتھیار ڈال دوں”…..یہ تھا وہ جذبہ جس کی وجہ سے مسلمان آج یہودیوں  کے غلام نہیں…انتہائ  معزرت کے ساتھ جو آجکے نوجوانوں میں نہیں..”ایمان کے ساتھ جو دل اپنے رب کی ساتھ جوڑا ہو تو ایمان اسے حق پر ثابت قدم رکھتا ہے”، (ابنِ العربی)

جواب چھوڑ دیں