یکم مئی مزدوروں کا دن

دنیا کی معیشت پر اس وقت یہودیوں کا کنٹرول ہے۔ وہ اپنی شیطانی حکومت قائم کرنے کےلیے اقوام متحدہ کے ذریعے مختلف دن منانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ دنیا میں کہیں ما ںکادن،باپ کا دن ،عورت کادن، مزدوروں کا دن ،نہ جانے کتنے دن ہیں جو یہ یہودی سازشی لوگ مناتے ہیں۔ نہیں مناتے تو اللہ کا دن نہیں مناتے۔ کیوں کہ اللہ کا دن منانے سے ان کو اللہ کا بندہ بنناپڑتا ہے۔ دوسروں کے حقوق ادا کرنے پڑتے ہیں جو ان کو منظور نہیں ۔وسائل پر سانپ بن کے بیٹھے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دن ان کے پیدا کرنے والے نے انصاف کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ جس میں ذرہ برابر بھی اچھے اوربرے عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ جس نے کسی پر ظلم کیا ہو گا کو اللہ کے سامنے اس کا حساب دینا پڑے گا۔ اس لیے اس دنیا میں ہی جہاں تک ممکن ہوسکے ایک دوسرے سے انصاف کریں۔

صاحبوں! یہودیوں نے دنیا میں اپنی ایک بین ا لاقوامی شیطانی حکومت قائم کرنے کے لیے دنیا میں جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ایک لٹری میں پررو کر اپنے مقصد کے استعمال کے لیے اپنی گرفت میں لے لیے ہیں ۔یہی حال یکم مئی کا بھی ہے۔ جہاں تک یکم مئی مزدوروں کے دن کا تعلق ہے جب تک دنیا میں مزدوروں میںاپنے حقوق کا شعور نہیں پیدا ہوا تھا مل مالکان اور زمینوں میں کام کرنے والے مزدوروں سے وہ رات دن کام لیتے تھے۔ مگر جب یورپ اور امریکا میں صنعتی ترقی کادور آیا تو مزدوروں میںبھی اپنے حقوق کا شعور بھی بیدار ہو اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مزدوروں نے کہا اس کے لیے کام کا کوئی وقت مقرر ہوناچاہیے۔

یکم مئی کا واقعہ جو امریکا کے شہر شکاگو میں محنت کشوں اور مل مالکان کے درمیان ۱۸۸۴ء میں پیش آیا تھا۔ اس وقت سے مزدوروں نے پہلے امریکا اور پھر بعد میں اس کو پورے دنیا میں منانا شروع کر دیا۔ پھر اسے یہودیوں نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا ۔جس ظلم ستم کی مثال ہم نے کیمونسٹ دنیا میں دیکھی تھی۔جب وقت کے تعین کا فیصلہ نہ ہو سکا تو مزدوروں نے مطالبات کرنے شروع کر دیے۔ پھر یہ مطالبات ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ مزدوروں نے ہڑتال کر دی۔ تین مئی کو ۱۸۸۶ء کو پولیس کی جانب سے نہتے محنت کشوں کے احتجاجی مظاہرے پر گولیاں برسا دی گئیں۔ کئی زخمی ہوئے اور ان میں سے چار جان بحق ہو گئے۔

محنت کشوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے موقف کہ کام کا وقت ۸ گھنٹے کیا جائے پر ڈٹے رہے۔ پولیس ان پر تشدد کرتی رہی پھر نہ جانے کیوں پولیس نے ان پر دستی بم پھینک دیا۔ اللہ کا کرنا اس سے پولیس کا ایک سپاہی مر گیا۔ سازش کرتے ہوئے پویس نے کہا کی مزدوروں نے پولیس پر بم سے حملہ کیا ہے۔ اس کے بعد پولیس والوں نے مزدوروں پر گولیاں برسا دیں گئی۔ کئی مزدور اس میں قتل ہو گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے۔ ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔ مزدوروں کا یہ تنازہ دنیا میںمشہور ہو گیا۔ ان میں بہت سے کو جیل میں ڈال دیا گیااور کچھ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ چار کو پھانسی دے بھی دی گئی۔ اور بعد میں ان میں سے چار کو ۱۸۹۳ء میں رہاکر دیا گیا۔

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شکاگو کے اس واقعے سے پہلے بھی یکم مئی کو ایک یادگار دن کے طور پر منایا جاتاتھا۔ اور اب بھی یورپ میں کچھ جگہوں پر منایا جاتا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ پرانی تہذیب میں ’’فلورا‘‘ نامی دیوی گزری ہے۔ یونانی دیوی کی یاد میں یہ دن منایا جاتاتھا۔ اس کو پھولوں کی دیوی بھی کہا جاتاتھا۔ اس شادی ہوا کے دیوتا کے ساتھ ہوئی تھی ۔قدیم یونان میں مئی میں بہار کے میلے کے مطابق مذہب عیسائی کی کتابوں میں پھولوں کی اس دیوی کو’’ ملکہ مئی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ قدیم کہانیوں میں اس کا ہر کولیس کا دوست بھی بتایا جاتا ہے۔ ایسی ہی دیو مالائی کہانیاں ہندووں کے مذہب کے اندر بھی مشہور ہیں ۔جومقتدر حلقوں نے اپنے مقاصد کے لیے گھڑی تھیں جس کو دنیا جانتی ہے۔

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے یہودیوں کا ذہن ہمیشہ تخریب کی طرف مائل ہوتا ہے۔ وہ شیطان کے چیلے ہیں وہ اس ہی کے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے بظاہرلوگوں کوبھلائی کے نام پر اور اندر سے برائی کی طرف لے جاتے ہیں۔ انسان بے سمجھی سے اس پر مائل ہو جاتا ہے۔ اس ہی سازشی ذہن پر عمل کرتے ہوئے یہودیوں اور اس کے چیلوں نے مزدوروں کو سبق پڑھاتے ہے کہ یہ ملیں اوریہ زمینیں سرمایادار لوگوں نے تمہارے خون پسینے کی کمائی کو ہڑپ کر کے بنائیں ہیں۔ اس سے ملیں اورزمینیں چھیں لو۔ اس طرح دو گرپوں میں بے چینی پیدا کر کے دنیا میں آجر اورآجیر کے درمیان لڑائیاں کھڑی کر کے اپنی شیطانی حکومت کی راہیں بنانے کا سامان کرتے ہیں۔ جس بے چینی اور تباہی کو ہم نے کیمونسٹ دنیا میں دیکھ چکے ہیں۔

یہاں تک اسلام کا تعلق ہے وہ آجر اور آجیر کے درمیان حقوق اور فرائض کا کہتا ہے۔ کہ اگر کسی نے حلال طریقے سے مل یا زمین بنائی ہے تو کسی کوحق نہیں پہنچتا کہ وہ اس سے چھینے یا اس پر ناجائز طریقے سے قبضہ کر لے۔ دوسری طرف مزدور کے لیے کہا گیا ہے کہ اسے مالک کی ملکیت کا محافظ بننا چاہیے۔ مالک کو کہا گیا ہے کہ مزدور کی جائز مزدروری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جائے۔ آجر اور آجیر دونوں کے لیے کہا گیا کام شروع کرنے سے پہلے مزدوری طے کر لینا زیادہ بہتر ہے نہ کہ مزدوری کے بعد مالک اپنی کی مرضی سے اُجرت دے۔ آجکل جدید حکومتوں میں آجر اورآجیر کے درمیان معاملات طے کرنا ان کا کام ہے مزدور کے لیے مستقل کمیشن کا کام ہے کہ مہنگاہی کے بڑھنے کے ساتھ مزدوروں کے معاوضے میں بھی اضافہ تجویز کرے۔ حکومت اس پر باقائدگی سے عمل کرے تاکہ آجر اور آجیر دونوںکے حقوق ادا ہو سکیں۔ دونوں مل کے ملک کی ترقی کے لیے کام کریں۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کے قیام سے چھ لیبر پالیسیاں تشکیل پا چکی ہیں مگر مزدور کی حالت نہ ٹھیک ہوئی۔ اس کی وجہ ملک میں اسلامی آئین پر عمل نہ کرنا ہے۔ جس ملک میں اسلامی ماحول ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خدا ترسی کا ماحول اسلامی تربیت سے پروان چڑھ سکتا ہے۔ دولت مندوں کو قرآن میں بیان کردہ قارون کی دولت کا بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اس کے کام نہ آسکی۔

سب کچھ اسی دنیا میں رہ جائے گا، اس لیے مزدورں کے جائز حقوق کا سرمایاداروں، صنعت کاروں اور زمین داروں کو خیال رکھنا چاہیے۔ ورنہ یوم حساب میں اللہ کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے اور سزا وار ہو ںگے اللہ آخرت کی سزا سے سب مسلمانوں کو بچائے ۔ اس سال تو دنیا کرونا وائرس کے عذاب میں مبتلا ہے۔ملوں، زمینوں اور دھاڑی پر کام کرنے والے مزدور کھانے پینے کی چیزیں کو ترس رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ کورونا کے عذاب کو ٹال دے تاکہ مزدور سکھ کا سانس لے سکیں،آمین۔

جواب چھوڑ دیں