فرہاد احمد فگار :تعارفی مطالعہ 

آزادکشمیر کا ابھرتا ہوا نوجوان ”فرہاد احمد فگار” جو کالم نگاری،شاعری، افسانہ نگاری، تحقیق، تنقید، سفر نامہ نگاری اور تدریس کا کام احسن طریقے سے جاری رکھے ہوئے  ہیں. یہ باصلاحیت نوجوان ١٦/ مارچ/١٩٨٢ء کو لوئر چھتر، مظفرآباد میں پیدا ہوا۔آپ کا تعلق” قطب شاہی اعوان ”قبیلے سے ہے جو حضرت علی کی غیر فاطمی اولاد میں سے ہیں۔آپ کے دادا کا اسم مبارک نمبردار فرمان علی اعوان اور والد محترم کا عبد الغنی اعوان ہے۔ پیدائش کے وقت ان کا نام فرہاد احمد رکھا گیا.آپ نے قلمی نام فرہاد احمد فگار رکھا  ،نیز فگار کا لاحقہ اپنے مرحوم دوست سید فگار حسین شاہ گردیزی کے نام سے اخذ کیا.
    بنیادی تعلیم او پی ایف مشعل اسکول ،مظفرآباد سے حاصل کی.تیسری جماعت کے بعد علی اکبر اعوان ہائی اسکول میں چلے گئے ۔میٹرک علی اکبر اعوان ماڈل ہائی اسکول چھتر سے،انٹر میڈیٹ بہ طور پرائی ویٹ امیدوار میرپور بورڈ سے اور گریجوایشن فسٹ ڈویژن میں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے پاس کی.اس کے بعد نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز(نمل)،اسلام آباد میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور یہاں سے آپ کی زندگی کے ادبی دور کو عروج ملنا شروع ہوا۔
اس جامعہ میں جناب افتخار عارف ،ڈاکٹر نعیم مظہر،ڈاکٹر عابد سیال اور ڈاکٹر شفیق انجم جیسے اَساتذہ اورحسن ظہیر راجا جیسے قابل دوستوں کی رفاقت ملی اور پھر تحقیقی کالمز لکھنے شروع کیے.ایم اے کی سطح پر ”احمد عطا اللہ کی غزل گوئی ”کے عنوان سے ڈاکٹر نعیم مظہر کے زیر ِ نگرانی تحقیقی مقالہ بھی لکھا جو اب کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے ۔ایم اے فسٹ ڈویژن میں پاس کیا اس کے بعد اِسی ادارے سے ٢٠١٧ء میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ایم فل کی سطح پر ”آزادکشمیر میں منتخب غزل گو شعرا ” کے عنوان سے تحقیقی مقالہ زیرِ نگرانی ڈاکٹر نعیم مظہر مکمل کیا۔
اب اسی ادارے سے اردو ادبیات میں ڈاکٹریٹ کے خریطے کے لیے ”اردو املا اور تلفظ کے بنیادی مباحَث ” کے عنوان سے تحقیقی مقالہ زیرِ نگرانی ڈاکٹر شفیق انجم لکھ رہے ہیں۔پسندیدہ مضمون ازل سے ہی اردو رہا.گھر میں لائبریری بھی قائم کر رکھی ہے جس میں بہت سی نایاب کتب ہیں۔زلزلے میں لوگ اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے نظر آئے اور یہ ادبی شخصیت ملبوں کے ڈھیر سے کتابیں نکالنے میں مصروف رہی۔آمدنی کا بیشتر حصہ کتابیں خریدنے میں ہی صرف کر ریتے تھے۔جب کہ اکثر دوست تحفے کے طور پر بھی کتب ارسال کرتے رہتے ہیں۔
٢٣/ اپریل٢٠١٦ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور اس موقعے پر مشاعرے کا انعقاد بھی کیا جس کی نظامت شوکت اقبال صاحب اور صدارت جناب سید معراج جامی نے کی۔
مشاعرے میں آزادکشمیر اور پاکستان کے نام وَر شعرائے کرام نے شرکت کر کے مشاعرے کو چار چاند لگائے جن میں پروفیسر حبیب گوہر، حسن ظہیر راجا، احمد وقار میر، واحد اعجاز میر، عبدالمنان وانی جیسی قابل و باصلاحیت ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ کالم نگاری کا آغاز آپ نے تقریبا دس سال قبل زمانہ طالب علمی میں کیا۔شروع میں آزادکشمیر کے اخبارات میں لکھتے رہے اس کے بعد ملکی و بین الاقوامی اخبارات میں بھی آپ کے مضامین شائع ہونے اور پسند کیے جانے لگے.فرہاد احمد فگار سے جب ان کی ادبی زندگی  کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا: ” کالم نگاری کا آغاز آج سے دس سال قبل کیاجب میں جب اپر چھتر میں ”فرینڈ فوٹو اسٹیٹ ” کے نام سے ایک دکان چلاتا تھا تب وہاں شاہین کالج چھتر برانچ کے پرنسپل اور معروف صحافی اور افسانہ نگار شوکت اقبال مصور آئے.شوکت صاحب نے  میرے ذوق کو دیکھا تو مجھے دکان سے نکلنے کا مشورہ دیا.تب پہلی مرتبہ کشمیر لٹریری سرکل کی نشست میں جانا ہوا۔”
(راقم کا فرہاد احمدفگار سے انٹرویو، بذریعہ فون،بہ وقت ٥٤:٠٨ شام،بہ تاریخ ١٦/ اپریل٢٠٢٠ئ)
ابتدا میں ماہ نامہ ”خاص بات” اسلام آباد اور روزنامہ” صبحِ نو” مظفرآباد کے لیے لکھتے رہے اور رپورٹنگ کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے.آپ تین سال تک جامعہ مظفرآباد میں جزوقتی لیکچرر کے فرائض بھی سر انجام دے چکے ہیں۔ بارہا جمات میں اور سوشل میڈیا پر میری اصلاح کی۔ میں جب بھی کسی لفظ کا غلط املا لکھتا فوراً اصلاح کرتے.صرف میں ہی نہیں جہاں بھی غلط اردو لکھی ہوئی دیکھتے تلملا اٹھتے.جدید اردو غزل کے بہت بڑے نام ظفراقبال کی بھی کئی بار آپ نے اصلاح کی اور ظفرصاحب اگلے روز اپنے کالم میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے فگار صاحب کے شکر گزار ہوتے ایک کالم میں تحریر کرتے ہیں:
    ” ہمارے دوست فرہاد احمد فگار نے جگر مراد آباد ی والی غزل کے حوالے سے درستی کی ہے کہ وہ غزل واقعٰی، بہزاد لکھنوی کی ہے جس کی تصدیق شاعری کی مختلف کتابوں سے ہوتی ہے ۔ اوریہ جوہم سال ہا سال  سے اسیجگر مراد آبادی کی غزل کے طور پر سنتے آئے ہیں، تواس  کے پیچھے ضرور کوئی سازش ہو گیجب کہ ملکِ عزیز میں ہر واقعے کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش ضرور ہوتی ہے۔سو، اس سلسلے میں ہماری معذرت اور فرہاد احمد فگار کا دِلی شکریہ۔”(ظفراقبال،(دال دلیہ)سرخیاں ،متن ،درستی کی درستی اور شہزاد راؤ،روزنامہ ،دنیا،٨،اکتوبر،٢٠١٧ئ)
 اردو زبان کی درستی و اصلاح کے لیے آپ کے لکھے گے مضامین کو بہت پسند کیا جاتاہے۔فرہاد احمد فگار صاحب نے اس حوالے سے گوشوارے بھی ترتیب دیے جن میں مختلف الفاظ کی درستی کی ہے۔ جیساکہ” الحمداللہ ”جو ہم غلط لکھتے تھے اس کا صحیح املا” الحمد للہ” ہے اسی طرح لفظ ”انشاء اللہ” نہیں ”ان شاء اللہ ”ہوتا ہے لفظ ”کہہ” نہیں ”کِہ” ہوتا ہے لفظ” قمیض” نہیں ”قمیص ”ہوتا ہے،اور بھی بہت سے ایسے الفاظ کی آپ نے اصلاح کی جو ہم غلط لکھتے اور بولتے ہیں.پروفیسراحمد وقار اپنے ایک مضمون میں فرہاد احمد فگار کے متعلق لکھتے ہیں:
          ” فرہاد اردو کا ایسا سچا عاشق ہے جو ہمہ وقت ہر خاص و عام کے لیے مائل بہ اصلاح رہتا ہے۔طبیعت میں فروتنی کوٹ کوٹ کر بھری ہے،تحقیق اس کا خاص میدان ہے وہ اردو کے عشق میں اس درجے پر فائز ہے کہ کسی کا خراب چلن تو برداشت کر سکتا ہے مگر خراب تلفظ نہیں۔”    (احمد وقار میر،کارِ فرہاد اور کوہِ تحقیق،(مشمولہ) فرہاد احمد فگار، احمد عطااللہ کی غزل گوئی، روہی بکس، فیصل آباد، ٢٠٢٠ئ، ص١٧)
 فرہاد احمد فگار کی شخصیت و فن نمایاں ہے ،اردو سے ان کا عشق بلند ہے.معروف شاعر اور ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر ندیم حیدر بخاری سے جب میں نے فرہاد احمد فگار کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا:
”فرہاد سے میرا رابطہ دس سال قبل ہوا.وہ سخت محنتی اور سچا اسکالر ہے.ایک لٹریری پرسن کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھا انسان بھی ہے۔جو چیز مجھے ان کی شخصیت میں اچھی نہیں لگتی وہ اس کا حساس ہونا ہے.اردو ادب میں کالم نگاری کی صنف میں فرہاد مہارتِ تامہ رکھتا ہے۔”
(راقم کا ڈاکٹر ندیم حیدربخاری سے انٹرویو، بہ ذریعہ ٹیلی فون، بہ وقت ١٣:٣شام، بہ تاریخ ١٧/ اپریل٢٠٢٠ئ)
فرہاد احمد فگار، کالم نگاری کے ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں،مگر کبھی انھوں نے شاعر ہونے کا دعوی نہیں کیا نہ ہی مستقل شعر کہتے ہیں۔حال میں ہم دیکھتے ہیں کسی کا شعر کسی دوسرے شاعر کے ساتھ منسوب کر دیاجاتاہے اکثرشعر بھی غلط لکھا جاتاہے،فرہاد احمد فگار نے اپنے مضامین میں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اصل شاعر اور شاعری کی اصل حالت کو ہمارے سامنے پیش کیا۔ان کے بہت سے انتخاب شدہ اشعار ہیں جن میں سے ایک ملاحظہ کریں:  ؎
       فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو     اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اس ضرب المثل شعر کو اکثر لوگ علامہ اقبال کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔فگار صاحب نے سوشل میڈیا اور کالمز کے ذریعے یہ شعر مکمل حوالے کے ساتھ لکھا اور بتایا کہ اس کے خالق مولانا ظفر علی خان ہیں نہ کہ علامہ اقبال۔آپ  کے انتخاب شدہ اشعار آپ کے بہترین محقق ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں.آپ ایک محقق کے ساتھ شاعر بھی ہیں ان کے چندشعار ملاحظہ کریں  ؎
                     غارِحرا کا پہلا اجالا حضورۖ ہیں     بزم ِو مکان و کون کے دولہا حضور ۖہیں
                      شمع اسلام جس سے  فروزاں  ہوئی    وہ  لہو مصطفےٰۖ کے گھرانے کا ہے
             پہلے آنکھوں میں ترا عکس اتارا  میں نے     اور پھر ان آنکھوں کو شیشے میں سجا رکھا ہے                                 جا چکا چھوڑ کر مجھے وہ فگار      سب سے جس کے لیے پرایا ہوا                                     وہ جو مزدور بناتے ہیں مَحل اوروں کے     ن کا اپنا کوئی گھربار نہیں دیکھا ہے
               واللیل تیری زلف ہے، والعصر تیرا عصر       سب آیتوں کے محور و مرجع حضورۖ ہیں
               تجھ سے مل کے سب دَر،دِل کے وا ہوتے ہیں      تو ہی توہوتا ہے،ہم جس جا ہوتے ہیں
     آپ تحقیقی  ذہن رکھنے والی ادب پرور شخصیت ہیں،کوئی اچھی اصلاحی بات جہاں سے ملی اس کی تصدیق کی پھر سب کو بھیج دی۔آپ کے بارے میں آزادکشمیر کی نام وِر ادبی شخصیت سید شہباز گردیزی اپنے مضمون ”فرہاد احمد فگار کا تیشئہ فن ” میں ر قم طراز ہیں:
    ”تخلیقِ فن اور تحقیق ِفن کے لمحوں میں فرہاد احمد فگار نے جس سادگی، سلاست اور بے تکلفی کو ملحوظ رکھا ہوا ہے وہ اس کا امتیازی وصف ہے۔کبھی کبھی مجھے اس شخص پر حیرت ہوتی ہے کہ اس کے اندر ادب پروری کا وفور اتنی زیادہ مقدار میں کیسے در آیا؟ وہ ہر صبح فروغ ادب کی تڑپ سے بھرپور ایک برقی پیغام سیکڑوں موبائل نمبروں پر بھیج رہا ہوتا ہے جس میں فن شعر کی کوئی سلجھائی جاتی ہے۔”
(سید شہباز گردیزی،فرہاداحمدفگارکاتیشۂ فن،(مشمولہ) فرہاد احمد فگار، احمد عطااللہ کی غزل گوئی، روہی بکس، فیصل آباد، ٢٠٢٠ئ، ص١٣٩)
فرہاد احمد فگار کو ان کے ادبی مضامین کی وجہ سے پیغامات موصول ہو رہے ہیں جن میں نیک خواہشات کا اظہار کیا جاتاہے۔فرہاد احمد فگار کی شخصیت و فن پر ایم ۔اے اور ایم۔ فل کی سطح کا تحقیقی مقالہ لکھا جا سکتا ہے جیساکہ ان کو ایک پیغام شور کوٹ شہریاسر اقبال نے آپ کو اردو لیکچرر تعینات ہونے پر بھیجا، یاسر اقبال لکھتے ہیں:
  ” آپ میرے شدید دوست ہیں اور اتنی ہی شدید خواہش بھی ہے کہ آپ پہ پی ایچ ڈی کروں۔مگر یونی ورسٹی والوں کی شرائط کہ بندہ گزر گیا ہو یہ الگ بات کہ اکثر با ادب لوگ گئے گزرے ہوتے ہیں۔”(مکتوب،یاسر اقبال بہ نام، فرہاد احمد فگار ، یکم/ اکتوبر/٢٠١٩ء )
فرہاد احمد فگار اور دیگر ادبی شخصیات ہمارے کشمیر کا قیمتی اثاثہ ہیں۔فرہاد احمد فگار کے ذہن میں ترویج ِاردو کا جنون ہے۔آپ کے دوست اور نام وَرنوجوان شاعر حسن ظہیر راجا سے جب میری فرہاد احمد فگار کے متعلق گفت گو ہوئی تو ان کا کہنا تھا:
 ”٢٠١٣ء میں نمل، اسلام آباد میں پہلی ملاقات ہوئی۔وہ اچھائیوں کا مرقع ہیں۔سب سے اچھی بات  یہ کہ وہ قواعد ِزبان اور زبان میں تلفظ کی غلطی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے اور سب کے سامنے آپ کو ٹوک دیں گے۔فرہاد اپنے لیے نہیں سوچتا جو مجھے پسند نہیں۔فرہاد کے مضامین ادب کے قارئین کے لیے کسی توشئہ خاص سے کم ہیں۔وہ نہایت ذمہ دار محقق ہے۔مضامین خالص علمی نوعیت کے ہوتے ہیں جن میں آپ کو اپنی اصلاح کے مواقع میسر آتے ہیں۔فرہاد کا اصل میدان تحقیق ہے تاہم تنقید پر بھی وہ عبور رکھتاہے.اس نے اِکادُ کا شعر کِہ رکھے،آپ ان کو اچھا شعر فہم کِہ سکتے ہیں.شاعر ہونے کا دعویٰ انھیں خود بھی نہیں ہے۔”(راقم کا حسن ظہیر راجا سے انٹرویو،بہ ذریعہ ٹیلی فون، بہ وقت ٥٩:٤شام، بہ تاریخ ١٧/ اپریل /٢٠٢٠ئ)
فرہاد احمد فگار خوش مزاج شخصیت کے مالک ہیں۔غلط اردوبولنے والے کو وہی ٹوک دیتے ہیں اس کی اصلاح کر دیتے.پروفیسر تسکین اقبال سے جب میں نے فرہاد احمد فگار کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا :
٢٠١٦ء میں میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی انتہائی ملن سار اور خوش مزاج انسان ہیں۔اردو کی ترویج اور درست اردو کا جنون ہے،غلط اردو بولتے ہوئے سن کر تلملا جاتے ہیں۔فرہاد کی ایک عادت مجھے اچھی نہیں لگتی جو عزت افزائی میں فضول خرچی پر اتر آتے ہیں۔ ”(کالم نگار کا پروفیسر تسکین اقبال سے انٹرویو، بہ ذریعہ ٹیلی فون،بہ وقت٣٨:٦  شام،بہ تاریخ١٧/ اپریل /٢٠٢٠ئ)
فرہاد احمد فگار کا اردو ادب سے زمانہ طالب علمی سے ہی لگاو رہا ہے۔تحقیق سے ان کی دل چسپی غیرمعمولی ہے،ان کے مضامین میں بہت کچھ سکھنے کو ملتا۔آزادکشمیر کی نام وَر ادبی شخصیت اکرم سہیل سے جب میری فرہاد احمد فگار کے بارے میں گفت گو ہوئی تو ان کا کہنا تھا:
       ” فرہاد کی ادب کے ساتھ غیر معمولی دل چسپی کا اظہار ایسے بھی ہوتاہے کہ اصناف ِادب میں ان پہلوؤں پر بھی تحقیق کرتے ہیں جن کی طرف آج کے ادیبوں کی توجہ نہیں ہوتی۔عروض ان کا خاص شعبہ ہے جو ہمارے لیے بھی سیکھنے کے عمل میں بہت معاون ہے۔شاعری میں نئے خیالات کا اظہار ہوتا ہے ان کی جو خوبی مجھے زیادہ پسند ہے وہ ان کا تحقیقی ذہن ہے۔”(راقم کا اکرم سہیل سے انٹرویو،بذیعہ فون،بہ وقت ٢٦:٨ شام بہ تاریخ ١٧/ اپریل/٢٠٢٠ئ)
 اکرم سہیل صاحب کی رائے اپنی جگہ تاہم یہ بات اہم ہے کہ فرہاد احمد فگار کا علم عروض سے نابلَد ہونا ان کی تحریروں سے ظاہر ہے ۔یہ الگ بات کہ وہ شعر کی شد بد رکھتے ہیں۔فرہاد احمد فگار کے متعلق جن ادبی شخصیات سے میرا رابطہ ہوا سب کا یہی کہنا تھا کہ فرہاد اردو زبان و ادب کا ایک روشن ستارہ ہے.ان کے ادبی مضامین کی وجہ سے ان کے ادبی شخصیات سے روابط مضبوط ہوئے.تنقید،تحقیق یا شاعری ہر صنف میں مہارت رکھتے ہیں۔اردو کے نام وَر شاعر اور ادیب سید معراج جامی ایک مضمون میں فرہاد احمد فگار کے متعلق لکھتے ہیں:
            ” فرہاد ادب کا ایک بہت فعال اور متحرک دیوانہ ہے اسے مطالعے کا بہت شوق ہے۔تحقیق سے بہت رغبت ہے.اپنی ایک لائبریری ہے فکشن، تنقید،تحقیق اور شاعری کا بہ یک وقت شوق رکھتا ہے۔”
( سید معراج جامی،برف باری کی تلاش میں،١٧/اپریل/٢٠١٧ء )
فرہاد احمد فگار لسانیات پر بھی گہری دسترس رکھتے ہیں ان کی لسانیات سے گہری دل چسپی ہے۔ماہرِ لسانیات پروفیسر غازی علم الدین سے جب میں نے فرہاد احمد فگار کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرہاد احمد فگار کے بارے میںمجھے خط میں لکھا ہے:
” فرہاد احمد فگار لسانی مباحث میں بہت زیادہ دل چسپی رکھتا ہے اور اس بارے اخبارات، رسائل میں بھی مضمون لکھتا رہتا ہے۔لسانیات ایک بھاری پتھر ہے جسے بڑے بڑے لوگ بھی اٹھانے سے کتراتے ہیں۔فرہاد اس میدان میں کود پڑتا ہے اور مجھے اس کی یہ ادا بہت پسند ہے۔”(پروفیسر غازی علم الدین کا کالم نگار کو خط،بہ تاریخ١٨/ اپریل/٢٠٢٠ئ)
 سرفرہاد احمد فگار کی صحبت میں جو کچھ سیکھنے کوملا وہ مجھے کسی کتاب میں نہیں مل سکتا۔جب بھی ان سے بات کرتا تھوڑا کتراتا ضرور ہوں کیوں کہ تلفظ کی غلطی بہت نکالتے ہیں مگر خوشی ہوتی کہ اصلاح ہو رہی ہے۔ یقینا اردو ادب کوان جیسی مزیداہل ِعلم اور اہل ِ ہنر شخصیات کی ضرورت ہے جو اپنی ادبی صلاحیتوں کے جواہر دِکھا سکیں۔ امید ہے کہ سر فرہاد احمد فگار اپنی ادبی صلاحیتوں کو مستقبل قریب میں مزید نکھاریں گے۔

جواب چھوڑ دیں