فرعون کے گھر کی آسیہ

پیاری بہن محترمہ سارہ جوزف (Sarah Joseph) انگلینڈ کی ایک نامور صحافی ہیں اور مسلم یوتھ میگزینTRENDSاور eme کی ایڈیٹر ہیں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نور ہدایت سے منور فرمایا ہے تب سے تو وہ برطانیہ سمیت پورے یورپ میں اس ہدایت کا نور پھیلانےمیں مگن ہیں اور خود کو ’’جدید فرعون‘‘ کے گھرکی آسیہ کہتی ہیں۔ قبول اسلام کے بعد ان کے فکرانگیز تاثرات لندن کے مشہور جریدے ”امپیکٹ“ میں شائع ہوئے تھے۔ میں نے جب ان کے تاثرات پڑھے تو میں نہ صرف سوچنے پہ مجبور ہوا بلکہ بہت متاثر بھی ہوا۔ محترمہ کی ان قیمتی باتوں کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

’’یوں تو میں اسلام سے بحیثیت مجموعی بہت متاثر ہوں اور یہی تاثر مجھے اس کے زیر سایہ لے آیا ہے، لیکن ایک عورت کی حیثیت سے میں حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہؓ جیسی خواتین کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں، جو ایک خدا ترس معاشرہ تشکیل دینے اور عدل و انصاف پر مبنی ایک انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کے دوش بدوش باطل کی قوتوں سے برسر پیکار رہیں۔ اس طرح مدینہ کے مرد اور خواتین نے خدا کے دین کے فروغ اور استحکام کے لیے باہم مل کر جدوجہد کی۔ اور آج اس دور میں ہمیں بھی ایک بہتر، امن پسند معاشرے کے قیام کے لیے مل جل کر تگ ودو کرنی ہوگی، مردوں کو بھی اور خواتین کو بھی۔

میں ایسی برطانوی مسلمان خاتون کی حیثیت سے اپنے تاثرات قلم بند کر رہی ہوں جو اپنے خاندان، والدین کے حوالے سے اسلام سے متعارف نہیں ہوئی، بلکہ جس کا تعلق بالکل دوسری دنیا سے ہے۔ بلکہ موزوں تر الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرا تعلق ”فرعون کے گھر“ سے ہے۔ جس طرح فرعون کے گھر میں ایک خدا شناس خاتون بھی تھی اور ایک بچہ بھی جو بعد میں موسیٰؑ کے نام سے خدا کے پیغام کا علم بردار بنا اور جادوگر بھی جنہوں نے فرعون کے عتاب اور عذاب کا مقابلہ کیا، لیکن حق کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح آج یورپ کے ایوانوں میں میری طرح بے شمار لوگ ہیں، جو عہد حاضر میں ”جدید فرعونیت“ کا انکار کر رہے ہیں، سختیاں جھیل رہے ہیں، لیکن راہ حق پر مستقل مزاجی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔

یہاں ان گنت افراد ایسے بھی ہیں، جن تک اگر حکمت اور سلیقے کے ساتھ اسلام کی دعوت پہنچائی جائے، تو وہ اسے قبول کرنے سے گریز نہیں کریں گے، لیکن افسوس کہ حق ان سے چھپایا گیا ہے اور یہ افسوس ناک حرکت یورپ کے ”میڈیا“ نے نہیں، بلکہ خود مسلمانوں نے انجام دی ہے۔ کاش وہ اس کا احساس کریں۔میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت یوں کروں گی کہ نسلی مسلمانوں نے اپنے طرز عمل، رہن سہن اور اپنے ”غصہ ور“ مزاج کی وجہ سے اپنے اور غیر مسلم دنیا کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کردی ہے، جو دعوت و تبلیغ کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔

میں یہ نہیں کہتی کہ غصہ نہ کیا جائے۔ غصہ ایک فطری امر ہے اور جب ماوٴں بنہوں، بیٹیوں، بزرگوں، بچوں اور نوجوانوں سے سنگدلانہ سلوک کیا جا رہا ہو، ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہو اور تعصب و تنگ نظری کا رویہ جاری و ساری ہو تو غصہ ضرور آئے گا۔ لیکن میں کہنا چاہوں گی کہ غصہ دعوت و تبلیغ دین کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے اور چونکہ تبلیغ دین ہر مسلمان پر فرض عین ہے اور قرآن میں جگہ جگہ اس کا ذکر ہے اور پیغمبراسلام نے اس کی غیر معمولی تاکید فرمائی ہے۔ ”لوگوں کو خدا کے راستے کی طرف بلاوٴ حکمت اور اچھے طریقے کے ساتھ۔“ (سورة النمل آیت 125) اور حضور اقدسؐ نے فرمایا ”ہر مسلمان کے لیے ایک سرحد ہے جس کی اسےلازماً حفاظت کرنی ہے۔“ اور میرے نزدیک دعوت اورتبلیغ یورپ میں رہنے والے ہر مسلمان کے لیےگویا ایک سرحد ہے، جس کی حفاظت کرنا اس کے لیے لازم ہے۔ یہ ہمارا بنیادی فریضہ ہے، جس سے ہرگز غفلت نہیں ہونی چاہئے۔

چنانچہ میرے نزدیک جو لوگ اٹھتے بیٹھتے یورپ کو برا بھلا کہتے ہیں اور ”اسلام بمقابلہ مغرب“ کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ یورپ میں اسلام کی منزل کھوٹی کرتے ہیں۔ وہ بلا امتیاز سارے یورپ کو اسلام کا دشمن ثابت کرتے ہیں اور یہ نعرے اہل یورپ کے دلوں میں نفرت اور بے زاری پیدا کرتے ہیں۔ وہ بجا طور پر جواب دیتے ہیں کہ جب ہم سے برملا نفرت کی جاتی ہے تو ہم اسلام قبول کیوں کریں؟ ان لوگوں کا مذہب کیوں اختیار کریں، جو ہم سے بے زار اور متنفر ہیں؟

چنانچہ یقین کیجئے کہ اگر اسلام قبول کرنے سے پہلے میں نے متذکرہ نوعیت کے نعرے سنے ہوتے، اس طرح کی تحریروں سے متعارف ہوتی تو کبھی مسلمان نہ ہوتی، لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں نے نسلی مسلمانوں کے کردار کو نہیں دیکھا، بلکہ براہ راست قرآن وسنت کا مطالعہ کیا اوراسلام کےاعجاز نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا اور یہ محض میرا ہی احساس نہیں، مجھے بہت سے نومسلموں سے ملنے کا موقع ملا ہے اور ان سب کی یہی رائے ہے کہ ہم مسلمانوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ اسلام کو دیکھ کر مسلمان ہوئے ہیں۔ یہ دردناک منظر پیغمبر اسلام کے کردار اور عمل سے کتنا مختلف ہے کہ ان گنت لوگ آپ کے پاکیزہ اور مثالی کردار سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے۔ آپ کے صبر، دیانت داری اور شدید ترین مخالفت میں بھی آپ کی انصاف پسندی اور متوازن رویہ مخالفین کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا تھا۔

اندازہ کیجئے کہ ایک مخالف بڑھیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے راستے میں کانٹے بچھا دیا کرتی اور جب حضور اقدس(ص) گزرتے تو ان پر کوڑا پھینک دیتی۔ لیکن آنحضرت اس سے الجھے بغیر خاموشی اور صبر سے آگے بڑھ جاتے۔ یہ بڑھیا کا روزانہ کا معمول تھا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ ایک دو دن کے لئے اس معمول میں فرق آگیا۔ بڑھیا گھر سے باہر نہ نکلی، تو حضور اقدس(ص) نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے، تو حضور اس کے گھر تشریف لے گئے، اس کی عیادت فرمائی اور غالباً کچھ مدد بھی کی۔ اس پر بڑھیا کا رویہ یکسر تبدیل ہو گیا۔ اس کی نفرت محبت میں بدل گئی اور وہ مسلمان ہوگئی۔ (واضح رہے کہ یہ واقعہ مشہور تو ہے، لیکن سیرت و احادیث کی کتب میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے)۔

لیکن آہ آج مسلمانوں کا اپنے پڑوسیوں اور عام ملنے والوں سے کیسا سلوک ہے؟ کوئی معمولی سے اختلاف کا اظہار کرتے تو ہم برگشتہ ہوکر اس سے تعلق توڑ لیتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہوئے کہ ”اپنا دفاع کرنا جارحیت نہیں ہے۔“ دوسروں کی مخالفت کے جواب میں تیز تر مخالفت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کا اسوہ گرامی ایسے حالات میں کیا تھا؟ یہ درست ہے کہ مدافعت جارحیت نہیں ہوتی، لیکن پھر صبر، تحمل اور حکمت و انتظار کس چیز کا نام ہے اور آخر مخالفین کو ہم کیسے اور کیونکر اسلام کے قریب لائیں گے؟ حضور اقدس کی سیرت میں تو صبر، گہرا صبر، مسلسل صبر نمایاں ترین خوبی کی حیثیت سے نظر آتا ہے۔ عفو و درگزر آپ کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ لیکن ہم یہ خصوصیات کیوں ترک کربیٹھے ہیں؟ ہم نے یہ ہتھیار کیوں کند کردیا ہے؟

یاد رہے کہ ہم نے مغرب کو بحیثیت مجموعی اپنا دشمن قرار دے دیا ہے۔ یہ سراسر منفی رویہ ہے۔ ہماری نظر صرف خرابیوں پر ہے اور خوبیوں کو نظر انداز کرکے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اسلام کل بنی نوع انسان کا اثاثہ ہے۔ اس پر کسی خاص قوم کا اجارہ نہیں اور ہمیں یہ اثاثہ دوسروں تک منتقل کرنے کی اپنی سی کوشش کرنی ہے اور یہ کوشش محبت، صبر،حکمت،محنت اورانتظار ہی سے انجام پذیر ہوگی۔ نعرے بازی، نفرت کی مہم اور مخالفانہ پروپیگنڈہ اس کے راستے میں خطرناک رکاوٹ بن جائے گی اور ہم اس نقصان کے لئے جواب دہ ہوں گے۔“

جواب چھوڑ دیں