آج جب ہر طرف ہر کوئی کرونا کے متعلق ہی بات کرتا نظر آتا ہے تو مجھے اپنے بچپن میں سنی ہوئی ایک کہانی یاد آئی ۔ایک بادشاہ اپنے وزیر کی اس عادت سے بہت تنگ تھا کہ اسکا وزیر ہر کام میں یہ بات بولتا تھا کہ اس کام میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہوگی ۔ایک دن اس بادشاہ نے اپنے وزیر کو بلوایا اور اس سے کہا کہ تم ہر کام میں یہ بات بولتے ہو کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہوگی لیکن اب جو کام میں کرنے جارہا ہوں اس کے بعد تم یہ بات بولنا بھول جاؤگے او اور اس کے بعد بادشاہ نے جلاد کو حکم دیا کہ اس وزیر کی کی کی ایک انگلی اوپر سے تھوڑی سی کاٹ دی جائے۔لیکن اس وزیر نے یہی کہا کے بادشاہ سلامت اس کام میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ضرور ہوگی۔
ایک دن بادشاہ شکار پر نکلا اور شکار کھیلتے کھیلتے جنگل میں بہت دور نکل گیا اور اس بادشاہ اور وزیر کو جنگلیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا ان کا یہ قانون تھا کہ وہ ایک انسان کی بلی اپنے دیوتاؤں کے آگے چڑھاتے تھے پہلے تو انہوں نے وزیر کو پکڑا لیکن وزیر کے اندر ایک نقص تھا کہ اس کے ایک ہاتھ کی انگلی تھوڑی سی کٹی ہوئی تھی پھر انہوں نے بادشاہ کو دیکھا کہ بادشا کے اندر کوئی نقص نہ پا کر انہوں نے اس کو کو بلی چڑھانے کے لئے لیے اپنا قیدی بنا لیا۔ کرونا کے متعلق کتنی تحقیقات سامنے آگئی کوئی اس کو کیمیائی ہتھیار کے طور پر سمجھ رہا ہے،تو کوئی اس کو اللہ کے عذاب سے تشبیہ دیتا نظر آتا ہے ۔جس کا جیسا عقیدہ ہے جس کا جیسا نظریہ ہے وہ اس کے مطابق ہی بات کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ حدیث حدیث ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا سارے کا سارا معاملہ خیر ہے۔اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو وہ اس میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ اس کے لئے خیر کا باعث بنتی ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس میں صبر کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے خیر کا باعث بنتا ہے۔کرونا سے جہاں ساری دنیا کا نظام معطل ہوا نظر آتا ہے ہے وہی اگر ہم اس بات کا دوسرا پہلو دیکھیں تو ہمیں کچھ مثبت چیزیں بھی نظر آتی ہیں۔
زمین کے اوپر اللہ تعالی نے جو 1-حفاظتی لیئر رکھی ہے جو زمین کو مختلف صرف ضررساں شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے جسے ہم سب اوزون کے نام سے جانتے ہیں، دنیا سے حد سے زیادہ آلودگی کے اخراج سے بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی اور اب جبکہ ساری دنیا میں فیکٹریاں اور صنعتیں بند ہیں اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے مختلف ممالک کے ہوائی اڈے بند ہیں تو امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اوزون کی لیئر سوفیصد دوبارہ ریپئر ہوجائے جس سے اربوں انسانوں کی زندگیاں محفوظ ہو جائیں گی۔
ساری دنیا میں کہیں غیر مسلم لوگ اذانیں سنتے نظر آتے تو وہیں ٹرمپ کا وہ بیان بھی نظر آتا ہے جس میں اس نے لوگوں سے کہا کہ اگر آپکو ماسک نہیں مل رہا تو آپ اسکارف اوڑھ سکتے ہیں۔ فرانس میں جہاںحجاب لینے پر پابندی تھی آج وہاں ماسک نہ پہننے پر جرمانہ کیا جا رہا ہے۔ ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو اجتماعی طور پر ہمیں رجوع الی اللہ نظر آتا ہے،گھروں میں لوگ استغفار کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں اور درست بھی یہی ہے، کیوں کہ یونس علیہ السلام کی قوم نے بھی اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے استغفار کا اہتمام کیا تھا۔
مسجدوں میں جانے پر پابندی ہے تو لوگوں نے اپنے گھروں کو مساجد بنا لیا ہے جہاں نماز پڑھنے میں تاخیر ہو جاتی تھی تو اب گھر میں باجماعت نماز کا نظام قائم ہونے سے تمام کام وقت پر ادا ہونے لگے ہیں اور چھوٹے بچوں میں بھی نماز کی اہمیت نظر آنے لگی۔ انہیں پڑھنا نہیں آتا لیکن پھر بھی اپنے بڑوں کے ساتھ کھڑے ہو کر کھیل چھوڑ کر نماز ادا کرتے نظر آتے ہیں جو شاید ہم چاہ کر بھی نہیں کر پاتے۔اللہ کی طرف لوٹ آنا،قرآن کا اجتماعی طور پر مطالعہ کرنا ،اپنی بھوک کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کا بھی خیال، غریب اور نادار طبقے کی مدد سفید پوش لوگوں کے عزت کا بھرم رکھتے ہوئے ترغیب دلانے کی نیت سے سوشل میڈیا کے اوپر تصاویر اپلوڈ کرتے وقت ان چہروں کو چھپا کر اپلوڈ کیا جانا،ایک مذہبی تنظیم کی فلاحی اورگنائزیشن الخدمت کی تصاویر کو دیکھا جن میں دینے والے کے چہرے پر ماسک اور لینے والے کا چہرہ دھندلا نظر آتا ہے،تو دل کو ایک تسلی سی ہوئی کہ ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں ہیں جو دوسروں کی عزت نفس کا بھرم رکھتے ہیں ۔
کرو نا کے اندر شاید یہ ایسی حکمتیں ہیں جن کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ خضر علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے واقعے میں بھی ہمیں یہی بات نظر آتی ہے کہ بظاہر ایسی بات جو انسانی عقل کے سامنے بہت بری نظر آتی ہے لیکن پس پردہ منشائے الہی کچھ اور ہی ہوتا ہے خضر علیہ السلام نے بھی موسی علیہ السلام کو یہی بات کہی تھی ،آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں۔
اللہ تعالی آپ کے فیصلوں میں چھپی حکمتیں سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔ ہم تو وہ بندے بننا چاہتے ہیں جو صبر کرنے والے ہوں، آپ کی طرف رجوع کرنے والے ہوں، اپنے گناہوں کی ایسی معافی مانگیں کہ جس معافی سے آپ خوش ہو کر ہم سب کو رضائے الہی کا پروانہ تھما دیں۔