دل ہی جل گیا

تین دن پہلے ناظم آباد کے نامکمل نئے پل پر سے جانے کا اتفاق ہوا اور پھر دو دن بعد دن کے وقت اس پل پر سے جانے کا اتفاق   ہوا ۔ رکشہ والے بھائی نے بھی نشاندہی کی اور میں نے خود بھی نوٹ کیا کہ کہ ہماری عوام کو اللہ راہ ہدایت دے جو اپنے وسائل کی ذرا بھی قدر نہیں کرتے ۔ اتنے بڑے پل کے دونوں طرف کے باڈرز پر سفیدی بڑی پیاری لگ رہی تھی، لیکن یہ کیا! تھوڑی دیر بعدد اتنی لمبی گندی سی پان کی پیک نے اسے بدنما بنا دیا تھا ۔ ایک نہیں دو نہیں ہر تین چار گزپر ایک لمبی پیک تو بہ توبہ تھوکنے والے کو ذرا حیا نہیں آئی دیکھنے والوں کو گھن آتی ہے ۔

چند دنوں میں یہ حال ہے تو مہینوں اور برسوں میں وہ تو کچھ اور ہی بدنما فلم نظر آئے گی ۔ ضروری نہیں کہ ہر کام ڈنڈے کے زور پر ہی کروایا جا ئے ۔ پھر پل جیسی رواں جگہوں پر غلط کام ہونے ہی نہیں چاہییں وہاں تو میں نے بھٹے والے ۔ چپل والے ٹھیلوں کو زبردستی ٹھیلے دھکیلتے دیکھا جن کو بعض دفعہ کسی رکشہ والے بھائی نے پائوں کا سہارا دے کر آگے بڑھانے میں مدد دی جو کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتا ہے ۔

اسی طرح ایک صاحب کو تو الٹی سمت میں آتا دیکھ کر “دل ہی جل گیا ” ۔ سوائے دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ ہمارے لوگوں کو دین کی سمجھ، طہارت کا شعوری احساس اور اپنی ذمہ داریوں اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا جذبہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔ دوسری چیز جو مجھے بہت ہی بری لگی جس کا میں پہلے بھی تذکرہ کرچکی ہو ں وہ ہے اوور ہیڈ بریجز پر لگے پر دے والے اشتہارات ! وہ بھی دونوں جانب بے مقصد بے تکے جو اس کلیئرشفاف بریج کو ایک بند گلی بنادیتے ہیں۔

باہر کے لوگ انہیں اور اندر والے لوگ باہر والے نظارے نہیں دیکھ سکتے ۔ اس بند گلی میں ہزارہا واقعات چوری چکاری اور چھیڑ چھاڑ کے ہوجاتے ہیں ۔ کسی کو خبر نہیں ہوتی ! ادھیڑ عمر عورتیں یا مرد حضرات جب اپنے تھوڑے بہت مال اسباب کے ساتھ پل پر چڑھتے ہیں ہانپتے ہیں۔ ایسے میں کوئی ذرا سی دیر بھی تنہا پا کر لوٹ جاتا ہے وہ بھاگنا تو کیا چلا بھی نہیں سکتا لہٰذا برائے مہربانی ان بریجز کو شفاف رکھ کر ہوا دار اور خبردار بنایا جائے ۔

مزید بگاڑ پل پر بیٹھے جگہ جگہ فقیر، بھکارن عورتیں غلیظ بچے برا جماں ہوتے ہیں یا پھر وزن کرنے والے ، کنگا ، انار، بند ، ٹیپ ، لنچ بیچنے والے ، راہ گیروں کی جگہ گھیر کر نہ صرف انکی حق تلفی کرتے ہیں بلکہ جگہ جگہ گندگی ہوتی ہے۔ وہاں بھی تھوکنے تھاکنے اور کچرا پھینکنے پر کڑی پابندی ہونی چاہئے اور مستقل بنیادوں پر مرمت کا کام بھی ہوتے رہنا چاہئے جو حادثات کا سبب بنتا ہے ۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ پاک نے ہمیں بھی یہ سہولیات دیں ہیں۔ ان کا جائز استعمال اور مشترکہ حفاظت ہمارا فرض ہے

ان بند گلیوں سے ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں اور جالیوں سے گندگی اور غلاظت سے نہ صرف نظارے بگڑتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے دشواریاں بڑھتی ہیں۔ فاروق اعظم مسجد کے پاس والا اوورہیڈ بریج تواتنا خطرناک ہو گیا ہے۔ اسی طرح حیدری کا پل اور اسکا اوورہیڈ بریج مرمت کامتقاضی ہے ۔ انفرااسٹرکچر کی تو مستقل بنیادوں پر مرمت ہوتی رہنی چاہئے۔

دوسری اہم بات راستوں کا تضاد مثلاً بعض جگہ کی سڑکیں اور پل انتہائی ہموار اور اردگرد کے بعض علاقوں کی سڑکیں اور پل انتہائی ہموار اور اردگرد کے بعض علاقوں کی سڑکیں کھدڑی پھدڑی یعنی پتھرروڑے ، کھڈے، بجری کے ڈھیر یا تعمیری مواد اور جگہ جگہ کچرا یا انتہائی کچا اتنا اونچا نیچا کہ توازن گاڑیوں کا تو کیا اچھے بھلے بندوں کا بگڑ جائے ۔ پھر اوپر سے اردگرد کے نظارے جو اب پھر بے حیائی اور فحاشی کےمستقل بنیاد پر لگے اشتہارات اور دیو قامت بل بورڈز، شیطانی کیفیت ، لالچ ، بھوک ، ہوس بڑھا کر بھی حادثات کا سبب بنتے ہیں ۔

کہیں دل ٹوٹتا ہے تو کہیں ضبط کا بندھن ،کیا ہی اچھا ہو کہ صرف مخصوص اشتہارات ، مستورات کے بنا صرف بلڈینگز پر لگائے  جا ئیں ۔ راستوں میں صرف رہنمائی کے نشان اور مئوثر سفر کی دعائیں اور سفری دعائیں ، اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام تاکہ اپنے اندر بھی صفات ربانی پیدا ہوں اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پورا اترتے ہوئے سفر کو خوشگوار اور مئوثر بنائیں ۔

گانے باجے ڈھول ڈبکے بھی نہ ہو ں ۔ شور تو ویسے ہی بلڈ پریشر میں تیس فیصد اضافہ کرکے تھکے ماندے بندے کو بھی ادھ موا کردیتا ہے ۔ ایک اور اہم چیز جو سڑکوں پر نظر آتی ہے وہ اوور لوڈڈ گاڑیاں ( ہر طرح کی) موٹرسائیکلوں پر چار پانچ کبھی چھ چھوٹی بڑی جانیں دیکھ کر مجھ جیسی کمزور دل کی جان نکل جاتی ہے ۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہر جان قیمتی ہے اس کی حفاظت فرض ہے ۔ چنچیوں اور رکشائوں سے نکلی باہر ٹانگیں ، گھٹنے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے جبکہ معلوم ہے کہ یہ بائیک والے حضرات کہیں سے بھی وارد ہو جاتے ہیں۔

ان کا بس نہیں چلتاکہ وہ دیکر گاڑیوں کے اوپر سے کیا نیچے سے بھی گزر جائیں !! کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ “احتیاط علاج سے بہتر ہے ” تو یہ صرف بیماری کے لئے ہی نہیں بلکہ سواری ، سفر اور ہر معاملے کے لئے ہے مثلاً شارٹ کٹ از آل ویز رانگ کٹ” مطلب جلد بازی ہمیشہ غلط ہے کیونکہ اس کے نتائج بڑے ہیں نہ جانے کیوں صبرو تحمل سے کام نہیں لیتے کہ سفر کو وسیلئہ ظفر بنا یا جائے ۔

ہر وقت اپنی عمر کام اور سفر کو یاد رکھیں ۔ اپنے مقصد حیات کو یاد رکھیں کہ یہ مہلت زندگی کسی کو نہیں معلوم کب ختم ہو جائے آدمی کو بچپن سے پچپن کا ہونے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ مگر احتیاط! کہ ہماری ذرا سی جلدی سے کسی کا حرج نہ ہو ، اللہ نہ کرے جان نہ جائے کہ تلافی نا ممکن ہے لہٰذا زندگی کو آسان پر سکون بنائیں اپنی بے تکی حرکتوں ، پان گٹکا ، نسوار ، بیڑی کھا کر جگہ جگہ غلاظت پھیلا کر دوسروں کو تکلیف نہ دیں ۔ خود بھی بچیں دوسروں کو بچائیںکہ یہی انسانیت ہے ۔

اس دن عباسی شہید جانا ہوا ۔ ہر بندہ پان کھانے والا پورا عملہ تقریباً 70% لوئر طبقہ ، کلریکل اسٹاف پان کھا رہا تھا ۔ خون چیک کرانے والے جگہ جگہ روئی پھینک رہے تھے۔ ڈسٹ بن کا انتظام ہوتے ہوئے بھی اہلکار کام نہیں کرواتے لوگوں کو پرائیوٹ اداروں کی طرح گندگی کرنے پر روکتے ٹوکتے نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہ سب باتیں ابھی اور آج سے سمجھ کر عمل کرنے کے لئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم طہارت کے مفہوم کو سمجھیں ، نصف ایمان پائیں اور نصف ایمان کے لئے احکام الٰہی اور سنت رسول ؐ کے پابند رہ کر اپنی زندگی کو دونوں جہاں میں کامیاب بنائیں ۔ (آمین)

جواب چھوڑ دیں