قرنطائن مراکز سے بہتر گھر کی قید ہے

ویسے تو جب جب بھی الیکٹرونک میڈیا کے سامنے بیٹھ کر ملک کے موجودہ حالات سنو تو اوسان خطا ہو کر رہ جاتے ہیں لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جو باتیں ہمیں بتائی اور سمجھائی جا رہی ہوں تو وہ محض خوف زدہ کرنے کیلئے ہی بتائی اور سمجھائی جا رہی ہوں۔ ممکن ہے کہ وہ ہمیں اس لئے بتائی جا رہی ہوں کہ ہم اپنی جانب سے احتیاط سے کام لیکر کسی ایسی مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائیں جو خود ہمارے لئے اور ہماری وجہ سے پورے خاندان اور پھر اہل محلہ کیلئے آزمائش بن جائیں اور ہماری بد احتیاطی دوسروں کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دے۔

کل ٹی وی چینل پر شاہد مسعود کے ساتھ کے عنوان سے ایک پروگرام سننے کا اتفاق ہوا تو اس بات کا اندازہ ہوا کہ پوری دنیا اس کورونا سے اتنی پریشان یا خوف زدہ کیوں ہے۔ عام تجزیہ یہی ہے کہ یہ وہ واحد “وبا” ہے جس کا پھیلاؤ تو بہت زیادہ ہے لیکن اگر اس بیماری یا وبا سے مرنے والوں کا جائزہ لیا جائے تو اس کا تناسب دنیا کی تمام بیماریوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس بیماری کا شکار ہونے کے بعد افراد کا شفایاب ہونا 97 فیصد ہو جبکہ اموات 3 فیصد سے بھی کم تو پھر آخر دنیا اس وبا سے اتنی ہراساں کیوں ہے۔

میں بھی اب تک یہی خیال کرتا رہا تھا کہ شاید جس انداز میں دنیا اس سے گھبرائی ہوئی ہے اور جس طرح پوری دنیا اپنے آپ کو محصور کر دینے پر تلی ہوئی ہے وہ انداز شاید اِس وبا کی شدت کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن شاہد مسعود کے کل کے پروگرام نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا اور اب مجھے لگتا ہے کہ دنیا جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ نہ صرف اس سے بھی کہیں زیادہ احتیاط مانگتا ہے بلکہ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ اس وبا کی تباہ کاریوں سے اللہ کے علاوہ اور کوئی اس سے بچا نہیں سکتا۔

کل شاہد مسعود نے امریکا کے “نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ” کی ایک رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں یہ ڈرا دینے والی بات بتائی گئی تھی کہ “کورونا” سے ہمیں کیوں خوف زدہ ہونا چاہیے۔ امریکا کے “نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ” کی رپورٹ کے مطابق کسی بھی جسم سے باہر نکل کر کورونا کے زندہ رہنے کی صلاحیت ہوا، مختلف دھاتوں، پلاسٹک، دودھ کے ڈبوں، ہارڈ بورڈ اور گتوں میں کتنے کتنے گھنٹوں تک کی ہے۔

3 گھنٹوں سے لیکر 24 گھنٹوں سے بھی کہیں زیادہ زندہ رہنے والا یہ وائرس نہ صرف انسانی جسم کے بغیر اپنا وجود بر قرار رکھ سکتا ہے بلکہ اپنی افزائش کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ کسی بھی انسانی جسم یا اشیا کے ساتھ چمٹ کر کسی قریب سے گزرنے والے انسانی بدن میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر انتقال در انتقال کے ذریعے یہ نہایت خاموشی کے ساتھ تندرست انسانوں کو بیمار کرتا چلا جاتا ہے۔

جو وائرس ہوا میں بھی 3 گھنٹوں تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس سے بچ رہنا شاید ممکنات سے بھی باہر کی چیز ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک کورونا زدہ فرد اگر کسی راستے سے چھینکتا کھانستا گزر جائے تو وہاں کی ہوا تین گھنٹوں تک کورونا زدہ رہے گی۔ گویا ان 3 گھنٹوں کے دوران جو جو افراد وہاں سے گزریں گے وہ سب کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اس بات کا امکان بھی ہے کہ ان 3 گھنٹوں کے دوران یہ ہواؤں کی دوش پر سفر کرتے ہوئے قریبی گھروں میں بھی داخل ہو سکتا ہے اور گھروں میں مقید افراد کیلئے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ جو وائرس دھاتوں، گتوں، اسٹین لیس اسٹیل کے برتنوں اور پلاسٹک کے بیگوں میں چوبیس چوبیس گھنٹے بھی زندہ رہ سکتا ہو تو پھر یہ تشویش کی بات نہیں ہے کہ گتوں کے ڈبوں اور پلاسٹک کے بیگوں کا استعمال تو اتنا عام ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اور ملکوں کا کوئی شہر اور گاؤں بھی ایسا نہیں جہاں ان کا استعمال عام نہ ہو۔

شائع ہونے والی اس رپورٹ میں اس لئے بھی زیادہ صداقت نظر آتی ہے کہ دنیا میں اس وبا کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب ہوائی سروس ہی بنی ہے جس کو اب دنیا بھر میں معطل کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کی پرواز بصد مشکل تین چار یا بہت ہوا تو 12 یا 13 گھنٹوں کی ہوتی ہے۔ اس میں جانے والا 90 فیصد سے زیادہ سامان پلاسٹک یا گتے کے ڈبوں میں ہی پیک کیا جاتا ہے جبکہ پلاسٹک یا گتے کے ڈبوں پر یہ وائرس 15 سے 24 گھنٹوں تک اپنے آپ کو زندہ رکھ سکتا ہے۔ یہی وجہ سے کہ کورونا دنیا کے تقریباً ہر ملک میں پھیل چکا ہے اور اب یہ کہنا نہایت مشکل ہے کہ اس وائرس کے سوتوں کا اصل منبع کونسا ملک بنا ہوگا۔

یہی وہ خوفناکیت ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا زبر دست ہیجان میں مبتلا نظر آ رہی ہے اور اپنے اپنے ملک کے ہر قصبے، دیہات، گاؤں اور شہر کو “قرنطینہ” میں بدل دینے کا سوچ بھی رہی ہے اور کئی ملکوں کے بڑے بڑے شہر عملی طور پر سر بمہر کر بھی دیئے گئے ہیں جن میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب کراچی بھی شامل ہے۔

اب جبکہ اس وائرس کی خوفناکیت اظہر من الشمس ہو چکی ہے تو پھر ہر فرد پر یہ بات فرض سے بھی بڑھ کر ہو جانی چاہیے کہ وہ جتنی بھی احتیاطیں بتائی جا رہی ہیں، ان کو سختی کے ساتھ اختیار کرے تاکہ اس وبا کا پھیلاؤ کم سے کم ہوجائے۔ یہ احتیاطیں نہ صرف خود فرد کے اپنے مفاد میں ہیں بلکہ ان کو اختیار کرکے وہ اپنے بیوی بچوں اور اہلِ محلہ کو بھی محفوظ رکھ سکتا ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک اور پاکستان کی طرزِ معاشرت اور رہن سہن میں بہت نمایاں فرق ہے۔ یورپ اور امریکا کے معاشرے میں ایک تو جوائیٹ فیمیلی سسٹم شاذ شاذ ہی رہ گیا ہے جس کی وجہ سے شاید ہی کچھ افراد ایسے ہوں جو اپنے بیوی بچوں کو ساتھ رکھ کر اپنے شب و روز گزارتے ہوں لیکن پاکستان میں ایسا ناممکنات میں سے ہے۔

وسائل کی کمی اور کئی کئی خاندانوں کا ایک ساتھ رہنا نہ صرف ایک مجبوری ہے بلکہ عملاً کوئی بھی اپنے بھائی بہنوں اور والدین سے دور رہنا پسند نہیں کرتا۔ اگر کسی معاشرتی مجبوری یا وسائل کی مناسب فراوانی کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے فاصلے پر بھی رہ رہے ہوں تب بھی ہفتے، دو ہفتے یا مہینے دو مہینے میں ایک ساتھ مل بیٹھے بغیر ان کا گزارا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین، امریکا یا یورپ کے دیگر ممالک اگر لوگوں کو گھروں میں قید رہنے کے احکامات جاری بھی کر دیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔

پھر یہ کہ ان ممالک کے پاس اتنے بے پناہ وسائل ہیں کہ وہ اپنے عوام کا خیال رکھنے میں کسی بھی مالی مشکلات کا شکار نہیں ہو سکتے لیکن پاکستان ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ایک تو ان کا خاندانی نظام ان کو ایک دوسرے سے دور رکھ ہی نہیں سکتا اور اگر وہ اپنے اپنے گھروں میں محصور بھی کر دیئے جائیں تو کسی بھی بیمار جسم کے ساتھ سب کے سب کیونکر تندرست رہ پائیں گے۔ یہ بات بھی بہت غور طلب ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ وہ کسی بے روزگار ہوجانے والے فرد کی کفالت کر سکے اور اسے اور اس کے اہل خانہ کو خوراک مہیا کر سکے۔

ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بہت ہی ضروری ہے کہ ہر فرد اپنے اپنے طور پر جتنی بھی احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتا ہے کرے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اڑوس پڑوس پر بھی نظر رکھے کہ کوئی ایسا فرد تو اس کے آس پاس نہیں جو بے روز گاری کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو گیا ہو یا ضروری احتیاط اختیار کرنے کی بجائے “شیر” بننے کی کوشش کر رہا ہو۔

مشکلات کا مقابلہ کرنے کا عزم اپنی جگہ لیکن کچھ مشکلات صرف مشکلات ہی نہیں ہوا کرتیں اور کچھ آزمائشیں صرف امتحان ہی نہیں بن جایا کرتیں بلکہ کچھ وبائیں اللہ کا عذاب بھی ہوا کرتی ہیں۔ آزمائشیں، مشکلات یا امتحانات مقابلہ کرنے سے ختم ہوجایا کرتے ہیں لیکن اللہ کا عذاب صرف مقابلہ کرنے سے نہیں بلکہ اللہ کے حضور مغفرت طلب کرنے اور گناہوں کی معافیاں مانگے بغیر نہیں ٹلا کرتے۔

اس لئے جہاں اس آزمائش کا مقابلہ کرتے رہنے کی ضرورت ہے وہیں اللہ سے رجوع کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اسی ایک اللہ کا بندہ بن جانا بھی نہایت ضروری ہے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو ہماری منزلِ نجات بن سکتا ہے۔ اگر ہم نے اس آزمائش کے موقع پر بھی اس بات کو نہ سمجھا تو یہ بات ہمارے لئے سخت نادانی کی بات ہوگی اور ہم تباہی و بربادی سے شاید اپنے آپ کو نہ بچا سکیں۔

جواب چھوڑ دیں