آخر کس قصور کی بنا پر تو قتل کی گئی؟

برطانیہ سے لاء کی ڈگری حاصل کرنے بعد ‘ماریہ’ نے جیسے ہی ائیرپورٹ پر قدم رکھا اس کے ذہن کے دریچے آہستہ آہستہ کھلنے لگے اسے اپنے بچپن کا وعدہ جو اس نے اپنے آپ سے کیا تھا یاد آنے لگا،اس کی پیاری سہلی ‘زینب’ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کیسے بھول سکتی تھی نہ کوئی قصوراور نہ کوئی غلطی تھی اس کی مگر پھر بھی وہ اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں بے وقعت ہوگئی تھی اور جرگے کے فیصلے کے مطابق ناکردہ گناہ کی وجہ سے اسے کاری کرکے مار دیا تھا۔

بس وہ دن تھا جب میں نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ بڑے ہوکر ہزاروں زینب کو ان خود ساختہ روایتوں کی بھینٹ چڑھنے نہیں دونگی تمام گھر والے مجھے لینے کے لئے بڑے پرجوش انداز میں استقبال کیلئے ایئر پورٹ پرکھڑے تھے کیوں نہ ہوتے آخر میں نے وکالت کی بہت بڑی ڈگری جو حاصل کی تھی اور خاندان بھر کا فخر تھی۔

بہت دیر تک گھر والوں کے ساتھ باتیں کر کے کھانا کھانے سے فارغ ہوکر جیسے ہی میں اپنی کمرے میں داخل ہوئی میری نظر فوٹو فریم پر پڑی جس پر میں اور زینب دونوں گلے میں ہاتھ ڈالے مسکراتے ہوئےکھڑے تھے پرکشش چہرہ چمکتی آنکھیں گلابی رنگت کتنی حسین لگ رہی تھی لگتا ہی نہی کہ کہ وہ زندہ نہیں ہے ابھی کہیں سے آکر میرے گلے لگ جائے۔زینب میری بہن میری بچپن کی دوست تھی ہم ایک ہی گاؤں میں ایک ساتھ رہتے تھےمیری پیاری دوست کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ لمحات میری زندگی کے اذیت بھرے تھے جرگے کے فیصلے کے مطابق اسے کاری کرنے کا فیصلہ دے دیا گیا۔

آہ ! میں کیسے بھول سکتی ہوں وہ وقت! وہ دن ! وہ گھڑی!اور وہ لمحہ جب اسے سفید کپڑے پہنا کر آدھا زمین میں دھنسا دیا گیا اور منہ پر کالا کپڑا چڑھا دیا گیا وہ تو بالکل زرد پڑ چکی تھی خوف کے مارے اس کی آواز بھی باہر نہیں آرہی تھی اس پر تو کپکپاہٹ طاری تھی جب اس کو لے جایا جارہا تھا تو اس کی آنکھیں میری نظروں سے باتیں کررہی تھیں کہ زینب تم مجھ سے وعدہ کرو تم میرا بدلہ ضرور لو گی ابو مجھے گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لیجانے کی کوشش کررہے تھے لیکن میرے قدم تو جیسے پتھر کے ہو گئے تھے۔

پھر تھوڑی ہی دیر میں اس پر پتھر برسائے جانے لگے اس کی ماں ایک ایک سے پتھر چھین رہی تھیں گڑگڑا رہی تھی رو رہی تھی چھوڑ دو میری معصوم بچی کو وہ تو خود بھی پتھر کھا کھا کر لہولہان ہو چکی تھی۔ چند ہی گھنٹوں میں خون میں لت پت دونوں ماں بیٹی کی لاشیں پڑیں تھیں۔۔ یہ سب میری نظروں کے سامنے ہو رہا تھا جسے دیکھ کر میں نظروں کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئی اور پھر کئی ہفتوں تک میری طبیعت سنبھل نہ سکی تو ابو نے فیصلہ کیا کہ اب ہم اس گاؤں میں نہیں رہیں گے پھر ہم اپنے چچا کے گھر شہر منتقل ہوگئے وہی سے پھر میری تعلیم کا آغاز ہوا اور پھر میں اپنے عہد کو دل میں دفن کر کے برطانیہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے چلی گئی۔

ماریہ بیٹی تم نے آگے کے بارے میں کیا سوچا، امی نے ایک دم مجھے پکارا تو میں ان یادوں کے دریچے سے نکل کر امی کے گلے لگ گئی اور بولی یہاں تو میں صرف اپنی دوست زینب کا بدلہ لینے آئی تھی لیکن یہاں پر تو ہر دوسری بچی مجھے زینب دکھائی دے رہی ہیں ۔ماریہ تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں اب تو معاشرے میں بڑھتے ہوئے ہوس اور درندگی کے پے در پے واقعات دیکھ کر انسانیت بھی منہ چھپاتی پھر رہی ہے میں کل ہی *سورت تکویر* کی تلاوت کر رہی تھی تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور جب اس آیت پر میری نظر پڑھی کہ

                              ‘اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پرماری گئی تھی’

کل جب ہم اللہ کے دربار میں حاضر ہونگے تو کیا جواب دیں گے کہ ہم نے کیا کیا اس بچی کے لیے امی نے ڈوبتی ہوئی آواز میں آنسو صاف کرتے ہوئے کہاامی میں نے فیصلہ کرلیا ہےکہ انشاءاللہ میں ان سب ہزاروں بچوں کی حقوق کی آواز بنوں گی اور ان پر ہونے والے تمام زیادتیوں کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان میں ان وحشی درندوں کے خلاف اس قانون کا بل نافذ کروانے کیلئے اپنی جان کی بازی تک لگا دوں گی۔

جواب چھوڑ دیں