تکریم نسواں ہمارا شعار

عالمی یوم خواتین آیا اور گزر گیا ۔میڈیا پر خواتین کے مسائل ان کے حل ،اسلام کے دئیے گئے حقوق پر عملدرآمد پر ڈسکشن کے بجائے تو تو میں میں ،مرد و عورت میں جھگڑے،عجیب و غریب مطالبات کے ساتھ فیمینزم کے حامیوں نے عورت کے مسائل کے بجائے اپنا سیکولر ایجنڈا بے نقاب کردیا ۔ویمن رائٹ ایکٹیوسٹ فرزانہ باری صاحبہ نے عورت مارچ میں بی بی سی کی نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کو سیکولر پاکستان بنانا چاہتے ہیں ۔ایک چینل پر انکی نمائندہ نے کہا کہ ہم عورت مارچ میں اٹھائے گئے تمام نعروں کو اون کرتے ہیں۔

ایک چینل نے عورت مارچ میں شریک ایک غریب خاتون سے پوچھا آپ یہاں کس مقصد سے آئی ہیں کیا مطالبہ ہے تواس بے چاری نے کہا مجبوری لے آئی ہے باجی نے کہا تھا ساتھ چلو پیسے دیں گے اب دیکھتے ہیں کہ وہ کیا دیتی ہیں!۔ایک چینل میں عورت مارچ میں موجود سوکالڈ فیمینزم کےحامی لڑکے نے انٹرویو دیتے ہوئے جب ہر طرح کی خودمختاری کی بات کی تو اس سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ اپنی بہن کو مختصر لباس پہننے دیں گے تو اسکا جواب تھا کہ وہ جو چاہے پہنے جو چاہے کرے وہ نکاح کو بھی غیر ضروری قرار دے رہا تھا کہ میری بہن کی مرضی ہے کہ نکاح کرے یا نہ کرے ،یعنی حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔

چند بچوں سے گفتگو رہی تو اندازہ ہوا کہ ان بچوں کو سو کالڈ لبرلز اساتذہ کےذریعے پرائیویٹ یونیورسٹیز میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اپروچ کیا جارہا ہے اور انکی ذہن سازی کی جارہی ہے۔ یہ ابھی ناپختہ اور سادہ ذہن ہیں انکے معاشرتی مسائل پر ہمدردیاں دکھا کر می ٹو جیسا پلیٹ فارم دے کر انہیں اپنے قریب کیاجاتا ہے ان کے دل میں جگہ بنائی جاتی ہے اور پھر انکے ذہنوں میں وہ کچھ انڈیلا جاتا ہے جو یہ سوکالڈ لبرلز کا ایجنڈا ہے ۔

وہ نوجوان نسل جو پرائیویٹ یونیورسٹیز اور اعلی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہے اسکے کے ذہنوں میں مذہب بیزاری پیدا کرنا، پاکستان کے بارے میں منفی خیالات پیدا کرنا ،افواج پاکستان کے حوالے سے منفی رجحانات پیدا کرنا ان کا کام یے۔ اور یہ سب انسانی حقوق کی آڑ لے کر کبھی عورت اور کبھی اقلیت کے نام پر کیا جاتا ہے۔۔ایسے ہوشربا اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں کہ یہ بچے ان جھوٹے سچے اعداد و شمار پر ان دیکھے مظالم پر آواز نہ اٹھانے پر اپنے آپ کو guilty محسوس کرتے ہیں اور پھر اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئیے خود آواز بن جاتے ہیں ۔

براہ راست مذہب کو نشانہ بنانے کے بجائے مذہب کو انسان کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر اسکے بنیادی احکامات کی نفی کی جاتی ہے بچیوں سے زیادتی کے واقعات پر یہ سو کالڈ لبرلز مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے بینر اٹھائے تو نظر آجاتے ہیں کیونکہ اس طرح پاکستان میں عورتوں پر زیادتی کا عنصر نمایاں کرکے اور پاکستان کو رسوا کرکے فنڈنگ آسان ہوجاتی ہے۔مگر جب اسی زیادتی کے مجرم کو پھانسی کی سزا دینے کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ مخالفت اسی طبقے کی طرف سے ہوتی ہے ۔

ارباب اقتدار و اختیار اگر واقعی ملک و قوم کے ہمدرد ہیں تو ان کو توجہ دینا چاہئیے اور دیکھنا چاہئیے کہ انکی ناک کے نیچے ہماری یونیورسٹیز میں کیا ہورہا ہے ۔ان تمام بیبیوں نے عورت کے حقوق کی آڑ لے کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے ۔ہمارے معاشرے میں عورت تو آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں پہلے کھڑی تھی۔ اسے دینی حقوق سے محروم کیا گیا اور اسلام کے نام پر قرآن سے شادی ونی کارو کاری،جہیز جیسی فرسودہ روایات اور رسوم کی بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا۔مہر کی ادائیگی ہو یا وراثت میں حصہ اسے معاشرے میں اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔

وڈیرہ شاہی کلچر میں ان خواتین کاکیا مقام ہے کیا یہ بیبیاں اور ہمارا میڈیا نہیں جانتا؟ دیہی علاقوں میں تعلیم اور صحت کی کیا صورتحال ہے کیا یہ بے خبر ہیں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔یہ لوگ اسلام کے واضح احکامات پر عملدرآمد کے مطالبے کےبجائے ان احکامات پر بحث وتکرار کرتے ہیں جن میں کسی کام کے کرنے سے منع کیا گیا یا روکا گیا ہو یعنی فساد و انتشار پھیلا کر شور مچا کر معاشرے کو کنفیوز کرکے اپنے مقاصد کا حصول انکی منصوبہ بندی ہے ۔

جسکی واضح تصویر اس عالمی یوم خواتین پر نظر آئی ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب صورتحال اس موقع پر بنا دی گئی اور کوئئ ٹھوس پالیسی کسی چینل پر ڈسکس نہیں کی گئی ۔۔پہلے فیمنزم کے نام پر عورت اور مرد سے مقابلہ بازی تھی اس بار فکری و نظریاتی بنیادوں پر عورت اور عورت کو مقابل دکھانے کی بھر پور کوشش کی گئی الحمد للہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی قیادت پہلے دن سے شرح صدر کے ساتھ کسی منفی چیز میں الجھ کر اصل اور حقیقی مسائل کو اوجھل نہیں کرنا چاہتی تھی اور ہمیشہ کی طرح یوم خواتین پر موثر فورمز ،کانفرنسز اور واک اسکی منصوبہ بندی میں شامل تھی ۔

جماعت اسلامی ہر شہر،قصبے دیہات میں موجود ہے اور وہاں کی عورت کے مسائل سے آشنا اسی لئیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جماعت اسلامی نے ہمیشہ عورت کے حقیقی مسائل اور حل کی بات کی اور 1998 میں خواتین چارٹر پیش کیا جسے بعد میں ضرورت کے مطابق دوبارہ ردو بدل کے ساتھ شائع کرایا گیا ۔جماعت اسلامی کا شعبہ ویمن اینڈ فیملی کمیشن پاکستان میں زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین اور استحکام خاندان پر کئی ریسرچ شائع کرچکا ہے ۔

امور خواتین سے متعلق جماعت اسلامی کے کئی شعبہ جات معاشرے میں موجود دیگر اہل خیر خواتین کو ساتھ ملا کر خواتین اور بچوں کے لئیے تعلیم،صحت اور سماجی شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں گو کہ یہ محدود دائرہ ہے مگر جماعت اسلامی اپنے حصے کا چراغ جلا رہی ہے اس چراغ کو تیل فراہم کرنا معاشرے کے اہل خیر کی زمہ داری ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے تو حکومت سے اپیل کی ہے کہ قانون بنایا جائے کہ جو شخص اپنی بیٹی یا بہن کو وراثت میں حصہ نہ دے اسے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

الحمد للہ جماعت اسلامی شروع دن سے عورت کی علیحدہ شناخت اور دین کے دائرے میں ہر طرح کی آزادی کے ساتھ معاشرے میں سرگرم عمل رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ میڈیا نے اپنی پالیسیز کے تحت اسے در خور اعتنا نہیں سمجھا اور آنکھیں بند کئیے رکھیں اور اس بار میڈیا نے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کوایسے پورٹریٹ کیا گیا جیسے وہ پہلی بار عورت مارچ کے مقابلے میں ریلیاں اور کانفرنسز کررہی ہوں۔

یہ بات طشت ازبام ہے کہ ملک کی 98% خواتین کسی نہ کسی شکل میں دینی و معاشرتی اقدار کی حامی ہیں اسے پسند کرتی ہیں اس پر مطمئن ہیں یہ بات بھی قابل اطمینان ہے کہ وہ ہر بیرونی ایجنڈے سے آگاہ ہیں اور اس کو مسترد کرتی ہیں جو انکے ایمان اور خاندان پر ضرب لگائے۔

اب ہمارا کام ہے کہ ہم پاکستان کی عورت کو پہلے سے زیادہ شدو مد کے ساتھ مسائل کے حل اور اسلام کے عطا کردہ حقوق دلوانے کے لئیے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ان تمام خیر پسند خواتین کو ساتھ ملا کر جو اسلام اور معاشرتی حدود کے ساتھ مسائل کا حل چاہتی ہیں سرگرم عمل ہوں اور اس ضمن میں حکومت سے قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کا مطالبہ کریں تاکہ عورت کے دن بھی بدلیں ۔

جواب چھوڑ دیں