آٹھ مارچ بےحیائی کی علامت بن گیا

آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا 110 واں اور پا کستان میں تیسرا عالمی دن منا یا گیا، دنیا بھر میں ریلیاں ہوئیں، جلسے ، جلوس ، سیمنار ہوئے ، جن میں  بڑی تعداد میں خواتین نے شمولیت کی، خواتین کے حق میں قرارداد یں پاس ہوئیں، اور وطن عزیز میں تو بعض جگہ جلسے جلوسوں میں ناچ گانا بھی ہوا، اور پھر وہی صبح  وہی شام ۔

پاکستان میں ان جلوسوں ، مظاہروں میں خواتین کے ساتھ مردوں کی بھی بڑی تعداد نے شمولیت کی ، جی ہاں وہی مرد جن سے پاکستان میں ہونے والے مظاہروں میں شریک خواتین آزادی کی بات کر رہی تھیں۔وہی مرد جنہیں پاکستانی لبرل خواتین بتارہی تھیں کہ میرا جسم میری مر ضی، وغیرہ وغیرہ۔

اقوم عالم کی تاریخ  بتاتی ہے کہ خواتین کے  حقوق کےتحفظ کےلیے یہ دن منانے کا سلسلہ 110 سال سے جاری ہے ،امریکہ میں سوشلسٹ پارٹی کی جانب سے 1909 میں 28 فروری کو خواتین کا دن منایا گیا جس کے بعد 1910 میں خواتین کے حوالے سے ایک عالمی کانفرنس میں تجویز کیا گیا کہ یہ دن سالانہ طور پر منایا جانا چاہیے۔

اس کانفرنس میں 17 ممالک کی 100 خواتین نے اس خیال کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ یہ پہلی مرتبہ 1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں منایا گیا۔ اس حساب سے رواں برس 110  واں یوم خواتین منایا گیا۔ سویت روس میں خواتین کو ووٹ کا حق ملنے کے وجہ سے وہاں 8 مارچ کو قومی تعطیل ہونے لگی۔

اسے 1975 میں اقوامِ متحدہ نے بھی اپنا لیا۔ اقوام متحدہ نے پہلی بار 1975 میں بین الاقوامی طور پر  عورتوں کا دن منانے کا اعلان کیا تاکہ عورتوں کو سماجی، سیاسی اور معاشی شعبوں میں ترقی کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال عورتوں کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے اور روایت یہ ہے کہ ہر سال ایک موضوع اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ تمام ممالک اپنے اپنے طور پر اس خاص مقصد کو حاصل کرنے کیلئے قانون سازی کریں، عوام میں آگہی پیدا کریں اور عورت کو مساوی درجہ دینے کی کوشش کریں

110 سال سے یہ دن منایا جانے کے باوجود آج  بھی  دنیا بھر میں خواتین کی حالت دگرگوں ہے، زیادہ دور نہ جائیں اگر ہم اپنے پڑوس  میں واقع دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کی بات کریں ، تو  بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے  مطابق 2018 میں بھارت میں ہر 15 منٹ میں ایک خاتون کا ’ریپ‘ کیا جاتا ہے۔2017 میں بھارت میں خواتین کے جرائم اور تشدد کے 3 لاکھ ساٹھ ہزار کیس رجسٹرڈ ہوئے ۔صرف 2017 میں بھارت بھر میں 3 لاکھ 30 ہزار سے زائد خواتین کا ’ریپ‘ اور ’گینگ ریپ‘ ہوا۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت بھر میں 6 منٹ کے اندر کوئی نہ کوئی خاتون بدسلوکی، ہراسانی اور تشدد کا شکار بنتی ہے جب کہ ہر پانچ منٹ کسی نہ کسی خاتون کو اپنا شوہر، سسر یا دیگر اہل خانہ نشانہ بناتےہیں۔اگر ہم سپر پاور امریکہ کی بات کریں جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار ہے امریکہ میں ایک منٹ کے دوران پچیس لوگ جنسی زیادتی، تشدد یا تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں۔دنیا بھر میں عورت تشدد کا شکار ہے- چاہے وہ مغرب کی عورت ہو جسے دنیا بھر کی آزادیاں حاصل ہیں یا پھر مشرق کی عورت جسے شرم و حیا کے نام پر چادر اور چاردیواری میں محصورکردیاگیا ہے۔

مندرجہ بالا صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ جیسے دنیاتعصب سے بالاتر ہوکر ہادی برحق ، شافع محشر ، وجہہ وجود کائنات ، تاجدار مدینہ ، راحت و قلب سینہ حضرت محمد ؐ کو انسانیت کا سب سے بڑا محسن مانتی ہے  ایسے ہی تعصب سے بالا تر عورتوں  کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے  حضرت محمد ؐ کی تعلیمات پر عمل کرے، اسلام نے عورت کو جو آزادی، عزت، احترام اور رتبہ دیا ہے  اس پر عمل پیرا ہوا جائے۔

بصورت دیگر جیسے گزشتہ 110سال سے خواتین کا عالمی دن منانے کے باوجو د آج بھی عورت عدم تحفظ کا شکار ہے آنے   والے 110 سالوں میں بھی حالت زار ایسی ہی رہےگی  اور ہر سال 8 مارچ  کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا رہے گا، سوشل ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس سے قبل ہنگامہ خیزی ہوگی ، مگر خواتین کی حالت زار بد سے بدتر ہوتی رہے گی ۔

جواب چھوڑ دیں