میرا جسم میری مرضی اور خواتین کے حقوق

8 مارچ خواتین کا عالمی دن ہے۔اس دن خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبوں کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ خواتین کو پس ماندگی سے نکال کر ان کو بحیثیت انسان اور بحیثیت عورت ان کا حق دلایا جائے گا اور انہیں معاشرے میں وہ مقام اور حق دیا جائے گا جس کی وہ مستحق ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں خواتین مجموعی طور پر ایک پسی ہوئی مخلوق کے طور پر سامنے آتی ہیں۔میں یہاں شہروں میں رہنے والی خواتین کی بات نہیں کررہا کیوں کہ شہروں کی خواتین، شہر کی لڑکیاں اور عورتیں، ان کی تعلیم، ان کا رکھ رکھائو، ان کا اعتماد دراصل تصویر کا ایک رخ ہے۔شہروں میں لڑکیوں کو تعلیم کی سہولت حاصل ہے۔ وہ بازاروں میں، شاپنگ مالز میں آزادانہ طور پر جاتی ہیں اور ان کو کسی قسم کے عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اگر بازاروں وغیرہ میں کوئی مرد، کوئی بدمعاش ان کے ساتھ کوئی بد تمیزی کرتا ہے تو وہاں موجود دیگر مرد اس عورت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس بدمعاش کو اس کی بد تمیزی کی قرار واقعی سزا دیتے ہیں۔

لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ گائوں دیہات اور چھوٹے شہروں اور قبائلی نظام کے تحت زندگی گزارنے والی عورتوں کی زندگی قابل رحم ہے۔ ایک طرف وہ گھر کی معیشت چلانے کے لیے مرد کے شانہ بشانہ کھیتوں میں کام کرتی ہے، دوسری جانب گھر کی ذمے داریاں بھی ادا کرتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے باپ، بھائی یا خاوند کی جھڑکیاں بھی سنتی ہے، اس کے تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہے اور بسا اوقات اپنی جان سیبھی چلی جاتی ہے۔جائیدا د میں اس کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ عام طور سے شادی کے وقت جہیز کے نام پر اس کو کچھ سامان اور رقم دے کر اس کو جتا دیا جاتا ہے کہ اب اس کا جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے۔شادی کے وقت اس کی مرضی تک نہیں پوچھی جاتی، اس کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہیں۔ گائوں دیہات کے خالص مردانہ معاشرے میں اگر کوئی فرد کسی لڑکی یا عورت پر بدکاری کا جھوٹا الزام بھی لگا دے تو بے چاری عورت کے لیے صفائی کا کوئی موقع نہیں بلکہ ایسی صورت میں یکطرفہ طور پر اسے سزائے موت سنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ونی، کارو کاری اور غیرت کے نام پر قتل اس کی مثالیں ہیں۔ قبائلی نظام کے جرگوں میں تو باپ، بھائی یا شوہر کے جرم کی سزا بھی عورت کو سنائی جاتی ہے اور ان کے جرم کا ہرجانہ عورت سے وصول کیا جاتا ہے۔ مختار مائی کا معاملہ اس کی ایک مثال ہے۔اس لحاظ سے عورت واقعی مظلوم ہے۔

مذکورہ بالا مسائل در اصل آج ہمارے معاشرے کی عورت کے اہم ترین مسائل ہیں۔ ہمیں ان مسائل کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور عورت کو اس کا حق دلانا چاہیے۔ حقوق نسواں کی تنظیموں کو بھی ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے منشور اور اپنے لائحہ عمل کو طے کرنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔

حقوق نسواں کی تنظیمیں عورت کے حقوق کے نام پر مغربی معاشرے کی غیر اخلاقی اقدار اور بے حیائی کو ہمارے معاشرے میں رائج کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے نزدیک اس وقت عورت کا سب سے بڑا مسئلہ پردہ ہے۔ دوسرا مسئلہ گھر میں باپ، بھائی یا شوہر سے اس کو متنفر کرنا، تیسرا مسئلہ یہ ہے ایک عورت اپنے گھر اور خاندان تک کیوں محدود ہے۔ اسے چادر اور چاردیواری سے نکال کر، گھر کی ذمے داریوں سے ہٹا کر باہر کی دنیا میں اپنی مرضی کی زندگی گزارنی چاہیے۔اب گذشتہ دو برسوں سے اس میں ایک نیا نعرہ ’’میرا جسم۔ میری مرضی‘‘ شامل کرلیا گیاہے۔اگراس نعرے کا مطلب بحیثیت انسان عورت کو اس کا مقام دینا ہوتا تو بالکل درست ہوتا اور کسی کو بھی اس پر اعتراض نہ ہوتالیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے اور اس نعرے کے پسِ پردہ مقاصد بے حیائی، عریانی اور جنسی و شہوانی خواہشات کی ناجائز طریقے سے تکمیل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔یہ نعرہ مغرب کی جنس زدہ سوسائٹی سے آیا ہے جہاں مدر پدر آزاد عورتیں سرِ عام نیم برہنہ ہونے کو اپنا حق سمجھتی ہیں اورہوتی ہیں۔حقوق نسواں کی نام نہاد تنظیموں کے نزدیک عورت کا سب بڑا حق یہ ہے کہ اسے موٹر سائیکل چلانے دی جائے، اسے سگریٹ پینے کی آزادی ہو، اسے نیم برہنہ ہونے پر کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ (گذشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک خاتون نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔) یہ تنظیمیں اسی ایجنڈے کے تحت کام کرتی ہیں اور خواتین کے حقیقی مسائل سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔

ایک طرف گائوں دیہات میں بسنے والی، قبائلی نظام کے تحت زندگی گزارنے والی مسائل میں گھر ی ہوئی عورت ہے اور ایک طرف یہ حقوق نسواں کی تنظیمیں ہیں۔ درحقیقت ان دونوں کے مسائل اور مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام سے قبل عورتوں کا کیا حال تھا اور اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق دیے ہیں اور ہمارے معاشرے میں اگر عورت کو اس کے حقوق نہیں مل رہے تو اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

قدیم دور میں عورت کا حال:

اسلام سے قبل معاشرے میں عورت کا کوئی مقام نہ تھا۔اس کی کوئی حیثیت اور وقعت نہ تھی۔ وہ ایک چیز سمجھی جاتی تھی جس طرح دیگر چیزیں ہوتی ہیں۔ عورت کا اس کے سِوا کوئی مصرف نہ تھا کہ اس سے جنسی لذت حاصل کی جائے اور اولاد پیدا کی جائے۔ طاقتور قبائل، کمزور قبائل پر شب خون مارتے اور جاتے جاتے جوان عورتوں اور کم عمر لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے۔ جنگوں میں فاتح قوم مفتوح قوم پر دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ یہ ظلم بھی ڈھاتی کہ وہ ان کی عورتوں اور لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے اور یا تو ان کو اپنی باندی بنا کر ان سے جنسی زیادتی کی جاتی یاپھر انہیں بدکاری کے لیے بیچ دیا جاتا۔عورتوں کی معاشرے میں کوئی عزت نہ تھی۔آج مغرب زدہ لبرلز اور مذہب بے زار طبقہ جس فلسفے کی بنیاد پر اسلام کو ہدف تنقید بناتا ہے، اسی فلسفے کے گڑھ یونان میں بیویوں یا گھر کی عورتوں کے لیے نہ کوئی تعلیم تھی نہ تہذیب و ثقافت اور نہ ہی کوئی عورت کسی قسم کے شہری حقوق کی حق دار تھی۔باپ کے مرنے پر اس کی بیویاں، بیٹیاں اور دیگر رشتہ دار خواتین بیٹوں میں ترکہ کے طور پر تقسیم کردی جاتی تھیں۔ اس معاشرے میں محرمات کا کوئی تصور نہ تھا اور ماں، بہن، پھوپھی، خالہ چچی وغیرہ سے جنسی تعلق قائم کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا تھا۔

بدھ مت کی بات کریں تو اس میں اگر کوئی شخص کسی عورت سے کسی قسم کا تعلق رکھے تو اس کے لیے نجات (نروان) کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی اس لیے وہ تارک دنیا بن کر رہتے تھے۔ کئی مذاہب میں عورت کو گناہوں کا منبع، گناہوں کی بانی اور ذمے دار مانی جاتی تھی۔ عرب میں عورتوں کی کوئی عزت نہیں تھی۔ ایک مرد درجنوں شادیاں کرسکتا تھا۔لڑکیوں کی پیدائش باعثِ ننگ سمجھی جاتی تھی اور لڑکیو ں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔سورہ نحل میں ان کی اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا گیاہے۔

’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر سیاہی اور کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے. لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے‘ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے.‘‘(النحل 58۔57)

ہندو مت میں عورتوں کے لیے ویدوں کی تعلیم سختی سے منع تھی۔ہندو مت میں اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے تو اس کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ بھی شوہر کی چتا کے ساتھ جل مرے۔ اگر کوئی عورت ایسا نہ کرے تو بیوہ کی زندگی قابلِ رحم ہوتی تھی۔ وہ دوسری شادی نہیں کرسکتی تھی۔(البتہ پورا معاشرہ شادی کے بغیر اس سے تعلق قائم کرنے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔)کوئی کسی خوشی کی تقریب میں نہیں جاسکتی تھی۔بیوہ کے لیے چوڑیاں پہننا، رنگین کپڑے پہننا اور خوشی کی تقریبات میں جانا ممنوع تھا۔ کسی تقریب میں اس کی شمولیت برا شگون سمجھا جاتا اور اس کو منحوس سمجھا جاتا۔ اس چیزو کے باعث ہندو عورت شوہر کی چتا کے ساتھ جل مرنے کو ہی ترجیح دیتی تھی۔

اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ:

یہ تو تھی زمانہ اسلام سے قبل عورت کی حالتِ زار۔اس کے برعکس اسلام نے عورت کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچایا۔ اس کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا۔ اس کے حقوق کا تحفظ کیا۔

اسلام نے سب سے پہلے لڑکیوں کے قتل ِ ناحق کو روکا اور بچیوں کی پیدائش کو خوش بختی کی علامت قرار دیا تاکہ لوگ بچیوں کو بوجھ یا باعثِ ننگ نہ سمجھیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بچیوں کو قتل کرنے والوں کو انتہائی سخت اور غضب ناک انداز میں تنبیہ کی ہے۔ سورۃ التکویر میں اللہ تعالیٰ نے غضب ناک انداز میں فرمایا کہ ’’جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی۔‘‘ یہ ایک دل دہلا دینے والا انداز ہے کہ قاتل سے نہیں پوچھا جائے کہ اس نے قتل کیوں کیا بلکہ مقتولہ سے پوچھا جائے کہ بتاتیری کیا خطا تھی کہ اس ظالم نے تیری جان لی۔اس طرح بچیوں کے قتل کو روکنے کی بنیاد ڈالی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم ؐ نے لوگوں کو بچیوں کی پیدائش، ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے حوالے سے خوش خبریاں سنائیں۔

حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغ کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح آئیں گے۔‘‘ اور آپ ؐ نے اپنی انگشتِ شہادت کو ساتھ والی انگلی سے ملا کر دکھایا۔ (صحیح مسلم) ایک اور موقع پر آپ ؐ نے فرمایا کہ جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے تو قیامت کے دن یہی لڑکیاں اس کے لیے دوزخ میں آڑ بن جائیں گی۔(مسلم) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’جس کی لڑکی پیدا ہو وہ اس کو زندہ رکھے، اس کی بے توقیری نہ کرے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے تو اس کو خدا جنت میں داخل فرمائے گا۔ ‘‘ تعلیم و تربیت میں بچیاں پیچھے نہ رہ جائیں یا والدین اس کی تعلیم سے پہلو تہی نہ کریں اس لیے آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے۔(ابنِ ماجہ)

اسلام نے عورت کو ماں کی حیثیت سے مثالی عزت دی ہے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اور حقیقت یہ ہے کہ خود ہم نے انسان کو اپنے والدین کے حق کو پہچاننے کی تاکید کی ہے. اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھاتے ہوئے اور کمزوری پر کمزوری جھیل کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھوٹنے میں لگے. (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی) کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا.‘‘(سورہ لقمٰن: آیت 14) اس طرح اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتا دیا کہ اگرچہ ماں اور باپ دونوں کی ہی عزت اولاد پر لازم ہے لیکن اس میں ماں کا حق زیادہ ہے۔یہی بات پیارے نبی ؐ کی ایک حدیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ایک شخص نبی اکرم ؐ کی خدمت میں حاضرہوا اور دریافت کیا کہ ’’ رسول اللہ ؐ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا: ’’تمہاری ماں!‘‘ اُس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: ’’پھر تمہاری ماں!‘‘! اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: ’’پھر تمہاری ماں!‘‘ اُس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: ’’پھر تمہارا باپ!‘‘ اس طرح یہ واضح کردیا کہ ماں کا حق باپ سے تین درجے زیادہ ہے۔

بحیثیت ماں پیارے نبی ؐ نے اپنے قول و عمل سے عورت کو مثالی عزت دی۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’’’بلا شبہ اللہ نے تم پر اپنی ماؤں کی نا فرمانی اور حق تلفی حرام کرد ی ہے.‘‘ (بخاری، مسلم) گویا کہ اگر کسی انسان کو جنت میں جانا ہے تو اس کو اپنے والدین بالخصوص ماں کی خدمت گزاری کرنی ہوگی،ماں کو خوش رکھنا ہوگا۔ایک موقع پر پیارے نبی ؐ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ پیارے نبی ؐ سے ملنے آئیں تو آپؐ ’میری ماں میری ماں پکارتے ہوئے اٹھے اور ان کو عزت و احترام کے ساتھ لیکر آئے اور ایک چادر بچھا کر ان کو بٹھایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں کتنا بڑا رتبہ دیا ہے۔

اسلام سے قبل عورت کو نکاح کے معاملے میں مرضی یا اختیار کا حق نہیں تھا۔نہ صرف یہ کہ حق نہیں تھا بلکہ بیوی کو انسان نہیں بلکہ جنس سمجھا جاتا تھا۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔اسلام نے اس حوالے سے بھی عورتوں کو ان کا حق دیا ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ؐ سے آکر شکایت کی کہ اُس کے والد نے اُس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے۔ آپ ؐ نے اسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو قائم رکھے اور چاہے تو ختم کردے۔اس پر ان خاتون نے عرض کیا کہ میرے والد نے جو کچھ کیا وہ میں نے منظور کیا۔ میرا مقصد عورتوںکو یہ بتانا تھا کہ ان کے والد اس معاملے میں کلی مختار نہیں۔اسی طرح بیوہ عورتوںکے معاملے ضمن میں حضرت ابو ہریرہؐ روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ بیوہ عورت کو نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی رائے دریافت نہ کرلی جائے۔ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا کہ اور کنواری کی مرضی کیسے معلوم ہو؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ اس کی اجازت یہ ہے کہ (طلبِ اذن کے وقت) وہ خاموش رہے۔‘‘ البتہ اسلام نے عورتوں کے تحفظ اور ان کی بھلائی کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ عورتیں خوداپنا نکاح نہ کرتی پھریں کیوں کہ ایک عورت کے لیے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ جس شخص سے نکاح کرنا چاہتی ہے اس شخص کے خاندان، اس کے لواحقین، اس کی عادات اور اس شخص کے کردار کے بارے میں مکمل تحقیق کرسکے۔ اس لیے شرعی طور پر لڑکی اور ولی دونوں کی رضامندی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

اسلام نے معاشی طور پر بھی عورت کے حقوق کا خیال رکھا ہے۔عورت کو جائیداد میں اس کا حصہ دلایا۔ اس کے علاوہ عورت کو اس بات کا مکمل اختیار دیا گیا ہے کہ اپنی ملکیت کو اگر کسی کاروبار میں لگائے تو اس کے منافع میں وہ بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ اس میں ان کا کو ئی شریک نہیں۔ اگر عورت محنت مزدوری کرتی ہے تو اس کی آمدنی پر بھی مکمل طور پر اس کا حق ہے کہ وہ جہاں اور جیسے چاہے (جائز کاموں میں) اسے خرچ کرے۔ ساتھ ہی بھی بتادیا کہ اگر عورت کمانے لگ جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا شوہر اس کا حق مارنے لگ جائے، نہیں بلکہ عورت کتنی ہی مالدار اور غنی کیوں نہ ہوجائے اس کے نان نفقے کا ذمے دار شوہر کو ہی ٹھہرایا ہے۔البتہ یہ نان و نفقہ مرد کی مالی حیثیت کے اعتبار سے طے کیا جائے گا۔

اسلام نے عورت کو مہر کا حق عطا کیا ہے یعنی اگر اس سے زوجیت کا تعلق قائم کیا جائے تو اسے اس تعلق کے عوض رقم، زیور یا جائیداد جو بھی چیز طے کی جائے وہ ادا کی جائے اور شوہر کے لیے طے شدہ مہر کی رقم ادا کرنا فرض کردی گئی ہے۔ مہر دوقسم کا ہوتا ہے مہرِ معجل اور مہرِ موجل۔ معجل یعنی عجلت میں ادا کیا گیا جو کہ زوجیت کا تعلق قائم ہونے سے قبل ادا کیا جاتا ہے اور موجل جو کہ بعد میں ادا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دونوں صورتوں میں مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص مہر ادا نہیںکرتا وہ گناہ گار ہوگا اور اسے بیوی کا حق لازمی ادا کرنا ہوگا۔ کسی بھی دنیاوی قانون کے تحت عورت کے اس حق کو ساقط نہیں کیا جاسکتا۔احادیث ِ مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مالِ فرض (مہر) کے عوض کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کی نیت اس مہر کی ادائیگی کی نہ ہو تو وہ شخص زانی ہوگا۔اب یہ دیکھیے کہ اسلام نے عورت کو زوجیت کا کتنا بڑا حق عطا کیا ہے۔ہاں البتہ اگر کوئی عورت اپنی خوشی سے مہر کا کچھ حصہ یا سارا مہر معاف کردے تو ٹھیک ہے لیکن اس ضمن میں بھی حضرت عمرؓ اور قاضی شریح نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اگر کوئی عورت مہر معاف کرے اور بعد میں اس کا ادائیگی کا مطالبہ کرے تو شوہر وہ مطالبہ ماننے کا پابند ہے اور اسے مہر ادا کرنا ہوگا کیوںکہ بعد میں مہر کے تقاضے کا مطلب یہ ہوا کہ عورت نے وہ مہر خوشی سے معاف نہیں کیا اور اسلام ایسی صورت میں عورت کو اس کا حق دلاتا ہے۔

قدیم زمانے میں عورتو ں کو اپنے خراب، برے اور بدکردار شوہر سے علیحدگی کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ اسلام نے سب سے پہلے عورتوں کو خلع کا حق عطا کیا۔ اگر شوہر بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے، اس کے ساتھ مارپیٹ کرے، اس کے حقوق کا خیال نہ رکھے تو اسلام نے ایسے مرد سے علیحدگی کے لیے عورت کو خلع کا حق عطا کیا ہے۔البتہ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ اگر خلع کی شرط میں مہر کی واپسی شامل ہے تو پھر بیوی کو مہر واپس کرنا پڑے گا۔ پیارے نبی ؐ کی خدمت میں ایک خاتون نے آکر اپنے شوہر سے خلع لینے کی درخواست کی۔ آپؐ نے پورا معاملہ سن کر ان سے پوچھا کہ جو باغ تم نے شوہر سے حق مہر میں لیا تھا وہ واپس کردو گی؟ خاتون نے رضا مندی ظاہر کی تو آپ ؐ نے ان کا نکاح ختم کرادیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب شوہر نے حق مہر ادا کیا ہے تو اب بیوی کے جسم پر اس کے شوہر کا حق ہے، اب بیوی یہ نہیں کہ سکتی کہ یہ میرا جسم ہے میری مرضی چلے گی۔ ہاں اگر اسے اپنی مرضی چلانی ہے تو پھروہ مہر واپس کرے، شوہر سے علیحدگی اختیار کرے۔ کسی مرد کی زوجیت میں رہنا، حق مہر لینا اور میرا جسم میری مرضی کہنا بالکل بھی درست نہیں ہے۔

بات یہ ہے کہ ہم نے یہاں اسلام میں عورتوں کو دیے گئے حقوق کے بارے میں مختصراً بات کی ہے، ورنہ ان حقوق پر تو پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اسلام نے عورتوں کو یہ سارے حقوق عطا کیے ہیں۔ اس کے بدلے میں اسلام عورتوں سے کیا چاہتا ہے؟ صرف اور صرف اللہ کی بندگی اور اللہ کے احکامات کی پابندی۔اسلام نے عورت پر کہیں آنے جانے کی پابندی نہیں لگائی لیکن اس کو پردے کا پابند کیا۔ اس کو نکاح کے لیے مرضی کا اختیار تو دیا لیکن ساتھ میں ولی کی اجازت لازم کردی۔ اس کو حق مہر دیا لیکن ساتھ میں شوہر کی اطاعت اور وفاداری اس سے مشروط کردی۔شوہر کو بیوی کے نان نفقے کا پابند کیا لیکن عورت کو بھی اس بات کا پابند کیا کہ وہ چراغِ خانہ بنے شمعٔ محفل نہ بنے۔اس کواپنے مال کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا حق عطا کیا لیکن بے را ہ روی سے بھی روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح طور پر فرمایا دیا ہے کہ

’’کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمن عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جب اللہ اور اُس کا رسول ؐ کسی معاملے میں کوئی فیصلہ دے دیں تو پھر اسے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے. اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسولؐ کی نا فرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا.‘‘(سورہ الاحزاب)

آخری بات حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بارپیارے نبی ؐ کے ساتھ سفر میں خواتین اور ازواجِ مطہرات بھی تھیں۔شتر بانوں نے حدی خوانی شروع کی تو اونٹ تیز تیز چلنے لگے یہ دیکھ کر نبی اکرم ؐ نے شتربان سے فرمایا کہ ’’آہستہ یہ آبگینے (شیشے کے برتن) ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! اللہ کے نبی ﷺ عورتوں کو شیشے کے برتن قرار دے رہے ہیں اور شیشے کے برتنوں کو بہت احتیاط سے، بہت نرمی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کو بے احتیاطی سے کہیں رکھا بھی نہیں جاتا کہ کہیں ان کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ دوسری جانب میرا جسم میری مرضی والے ہیں جو ان آبگینوں کوشاہراہوں پررکھ کر وحشی درندوں کے قدموں تلے روندنا چاہتے ہیں۔اس لیے احتیاط کیجیے۔جسم آپ کا ہے لیکن مرضی اللہ کی ہے۔عورتوں کو بے راہ روی کا درس دینے کی بجائے ان کے اصل مسائل کو اجاگر کیا جائے، ان کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کی جائے۔ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ پارلیمنٹ میں اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔

8 تبصرے

جواب چھوڑ دیں