چار دیواری کے اندر بھی عورت اچھی زندگی جی سکتی ہے

اوہو کیا پروگرام ہے بھئی کتنی مشکل سے تو میم کو راضی کیا تھا پکنک کیلئے اور اب تم بلاوجہ بہانے بنا رہی ہو”۔

ارم نے منہ بسورتے ہوئے سعدیہ سے کہا پر اس کا وہی پہلے والا جواب تھا کہ” وہ بیمار والدہ کو چھوڑ کر پورے دن کے لیے پکنک پر نہیں جا سکتی”۔

ارم کی لاکھ کوششوں کے باوجود سعدیہ نے حامی نہ بھری۔ سعدیہ ایک خودارا لڑکی تھی، وہ اپنی پیاری سہیلی کو یہ حقیقت بتانا نہیں چاہتی تھی کہ اس کے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی مالی حالت ٹھیک نہیں اور پکنک کے لئے پندرہ سو کی اکھٹی رقم نکالنا تقریبا” نا ممکن تھا۔والدہ کی بیماری کا بہانہ بنا کر اس نے اپنی عزت نفس کو قائم رکھنے کی پوری کوشش کی ۔

سعدیہ کے والد احمد صاحب ایک پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ چار ماہ قبل ٹریفک کے حادثے کا شکار ہوکر اس دارفانی سے کوچ کر گئے تھے۔ سعدیہ کی والدہ آمنہ نہایت سادہ خاتون تھی اور ایک چھوٹے سے قصبے سے شادی کے بعد شہر آئیں تھی ۔ سعدیہ کا ایک چھوٹا بھائی اسد ساتویں اور بہن چھٹی جماعت میں تھے ۔احمد صاحب کے انتقال کے بعد ان کےبھائی قیوم نے دوکان کا چارج سنبھال لیا۔

قیوم چچا نے اپنے بیٹے انور سے سعدیہ کی بات طے کردی۔ایک دو مہینے تک تو قیوم چچانے ٹھیک سے دکان کی آمدنی بھجوائی ،پر اب نہ جانے کیا ہوا کہ روز بروز دکان کے خرچے بڑھتے گئے اور آمدنی گھٹنے لگی سعدیہ نے چچا سے بات کرنی چاہی تو اس کی والدہ نے روک دیا اور کہا کہ “”وہ تمہارے ہونے والے سسر بھی ہیں، کہیں کوئی بات بری نہ لگ جائے ان لوگوں کے علاوہ ہمارا کوئی سہارا نہیں، تم تو لڑکی ہو، دکان سنبھال نہیں سکتی، تمہارا بھائی بھی ابھی چھوٹا ہے وہ بھی دکان کا انتظام نہیں دیکھ سکتا”۔

اور یوں وہ بھی خاموش ہوگئیں اور آہستہ آہستہ آمدنی گھٹتے گھٹتےنہایت مختصر ہو گئی۔ پھر ایک دن قیوم چچا گھر آئے اور دوکان کے سینکڑوں مسائل بتائے اور دکان کو بیچنے کی بات کی ۔ان کا خیال تھا کہ وہ علاقہ ٹھیک نہیں اس لئے دکان کامیابی سے نہیں چلائی جا سکتی ،کسی دوسرے بہتر کاروباری علاقے میں پیسے ملا کر وہ دکان خریدنا چاہتے تھے ۔

نہ چاہتے ہوئے بھی آمنہ کو ان کی بات ماننی پڑی ،کیونکہ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں؟ بلا آخر انہوں نے اپنی مرضی پوری کی اور بھائی کی دوکان بیچ کر اپنے نام سے بڑا جرنل اسٹور لے لیا۔ مگر آمدنی کا وہی حال تھا اس میں کوئی بہتری نہ ہوئی ۔

سعدیہ نے ماں کو پریشان دیکھا تو شام کو کالج کے بعد ٹیوشنز پڑھا نی شروع کر دیں، اس طرح کچھ بہتری کی صورت پیدا ہوئی۔ وہ ایمانداری سے بچوں کو بڑھاتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیوشن کے بچوں کے رزلٹ بہترین آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ٹیوشن سینٹر آنے والے بچوں سے کمرہ بھر گیا اور حالات میں قدرے بہتری آئی، مگر اب ایک اور مشکل آ پڑی

قیوم چچا اور زرینہ چچی نے سعدیہ اور انور کی شادی جلدی کرنے کا مطالبہ شروع کردیا ،مگر سعدیہ اپنی پڑھائی ابھی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی اور اس کے بہن اور بھائی بھی ٹیوشن کی آمدنی ہی کی وجہ سے تعلیم حاصل کر رہے تھے ،اگر وہ شادی کرکے چلی جاتی تو پھران کی پڑھائی کا کیا ہوتا؟اسی لیئے اس نے اتنی جلدی شادی کرنے سے انکار کر دیا ۔

زرینہ چچی تو جیسے بہانہ ہی ڈھونڈھ رہی تھیں، فورا “ہی منگنی توڑ دی اور ناراض ہو گئیں ۔ سعدیہ بہت رنجیدہ ہوئی ، پر غم کا پہاڑ تو اس پر تب ٹوٹا جب زرینہ چچی نے اگلے ہی مہینے انور کی شادی ایک امیر گھرانے کی لڑکی سے کروا دی۔ وہ اپنے ساتھ ڈھیروں جہیز لے کر آئی۔ ان تمام مشکل حالات نےسعدیہ کو صبر و ہمت کا پیکر بنا دیا۔ وہ اس ظلم کو بھی خاموشی سے برداشت کر گئی۔

اس حادثے کے بعد سعدیہ خاموش سی ہو گئی ،وہ اپنے بہن بھائی اور ٹیوشن کے بچوں کو اور بھی زیادہ لگن اور توجہ سے پڑھانے لگی، جس کے بعد سعدیہ کے ٹیوشن سینٹر کی شہرت دور دور تک ہوگئی، نئے سال کے آغاز ہی میں لاتعداد بچوں نے داخلہ لیا سعدیہ نے اپنے گھر کے برابر والا مکان بھی کرائے پرلے لیا اور دو ٹیچر بھی اپنے ساتھ مدد کے لئے رکھ لیں۔

دن پہ دن اور سال پہ سال گزرتے گئے،اور اسی طرح سخت محنت کرتے کرتے دس سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ اسد انجینئرنگ یونیورسٹی میں اور کرن میڈیکل کالج میں پہنچ گئی۔ دونوں بہترین کارکردگی کی وجہ سے ٹاپ اسٹوڈنٹ کی لسٹ میں تھے۔ اب سعدیہ کے بالوں میں سفیدی ہی دکھائی دینے لگی اور نظر کی عینک بھی لگ گئی۔

سعدیہ نے اپنی والدہ کا بھی بہترین طریقے سے خیال رکھا ان کے لئے گھر میں ایک آیا دن رات کی رکھ لیں جو والدہ کا خیال بھی رکھتی اور کھانا بھی بہترین پکاتی۔

دن رات کی محنت اور بے لوث لگن رنگ لائی اور سعدیہ کا بھائی انجینئر اور بہن ڈاکٹر بن گئی۔ ایک دن سعدیہ کلاس میں مصروف تھی کہ گھر کی ملازمہ نے آکر بتایا کوئی بڑی آنٹی آپ سے ملنے آئی ہے، وہ خود کو آپ کا رشتے دار بتا رہی ہیں سعدیہ بچوں کو کام دے کر اپنے گھر ، پہنچیں،وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ بوڑھی عورت اس کی چچی زرینہ تھی اور ان کے ساتھ ان کا بیٹا انور بھی تھا۔

ڈرائنگ روم میں سعدیہ کی والدہ بھی بیٹھی انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر چچی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور سعدیہ سے ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگنے لگی سعدیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر اتنے سال بعد زرینہ چچی کیوں آئی ہیں؟

اور وہ معافیاں کیوں مانگ رہی ہیں؟ سعدیہ نے انہیں عزت سے صوفے پر بٹھایا ،،اور پانی کا گلاس دیا ۔

زرینہ چچی بہت شرمندہ تھیں، سعدیہ کو کہا کہ “”میں تمہاری اور بھابھی کی مجرم ہوں ، میں نے لالچ میں آکر احمد بھائی کی دکان ہتھیانے کے لیے اپنے شوہر کا پورا ساتھ دیا اور بیٹے کی بھی شادی زیادہ جہیز کے لالچ میں امیر گھر کی لڑکی کیساتھ کردی۔ اللہ تعالی نے میرے اس گناہ کی سزا مجھے دنیا میں ہی دے دی، تمہارے چچا قیوم کو فالج ہوگیا، دکان میں آگ لگ گئی اور ہم کنگھال ہوگئے “جس کے بعد انور کی آرام طلب بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی” اور خلع کا نوٹس دے دیا کیونکہ وہ ہم جیسے غریبوں کے گھر کی بہو کہلوانا اپنی توہین سمجھتی تھی”۔

سعدیہ بیٹی مجھے تمہارے چچا نے خود تمہارے پاس بھیجا ہے وہ بھی بہت شرمسار ہیں اور انہیں یقین ہے کہ جب تک تم اور بھابھی ہمیں معاف نہیں کرو گے اللہ تعالی بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔”

سعدیہ نے چچی اور ان کے بیٹے انور کے جڑے ہاتھوں کو دیکھ کر کہا” زرینہ چچی میں نے تو آپ کو اسی دن معاف کردیا تھا، جس دن آپ نے ہمیں تنہا چھوڑ دیاتھا، آپ نے بیٹے کی سہرے کے پھول سجائے تھے، میں نے ہر لمحہ اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھےوہ علم اور ہنر دیا جس کی وجہ سے ہم عزت سے زندگی گزار پائےاور آج میرے بھائی بہن ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔

شاید یہ حالات نہ ہوتے اور آپ ہمارا ساتھ نہ چھوڑ کر جاتیں تو کبھی بھی اس قدر محنت نہ کرتے اور کامیابی کے اس مقام پر نہ پہنچتے، اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ، بس ہم اس کے لکھے تقدیر کے فیصلوں کو سمجھ نہیں پا تے وہ پاک پروردگار نہایت انصاف کرنے والا ہے یہ کہہ کر اس نے چچی کو گلے لگا لیا ۔آمنہ نے بھی کھلے دل سے انہیں معاف کر دیا ۔اور دونوں ماں بیٹا خوش ہو کر گھر چلے گئے ۔

کچھ ہی دنوں بعد زرینہ چچی نے جھولی پھیلا کر سعدیہ کا ہاتھ انور کےلئے مانگ لیا ،جسے کچھ پس وپیش کے بعد آمنہ نے قبول کر لیا ،کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ انور سے منگنی ٹوٹنے کے بعد سعدیہ نے شادی کبھی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ،اور یہ وہ ہر گز نہ چاہتی تھیں ۔

اوراس طرح بہادر سعدیہ نے مشکلات کا صبر و شکر سے سامنا کیا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کے لیئے بھی ڈھال بن گئی اگر وہ مصائب سے گھبرا کر ہمت ہار جاتی تو پھر سب کی زندگیاں تباہ ہو جاتی۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر

جواب چھوڑ دیں