آپس کی تلخیاں قرآن سے دوری

زینب غصے سے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے:

حد ہوتی ہے کسی بات کی، علی کیا ہوا؟آپ کا غصّہ تواب ہر وقت ناک پر ہی رہنے لگا ہے۔

کیا کہوں روز کی کہانی ہے، لگتا ہے گھر میں صرف ایک میں ہی نوکرانی ہوں۔ صبح سے شام تک لگے رہو ۔کام ختم ہی نہیں ہوتا۔

اور آپ کی دیورانی کہاں ہیں بھئی؟ علی نے کہا۔

ابھی شادی کو صرف چار پانچ دن ہی تو ہوئے ہیں، چپ چاپ سب کو دیکھتی رہتی ہے، آج صبح میرے ساتھ کچن میں کام میں ہاتھ بٹانے لگی لاکھ منع کرنے کے باوجود کہ ابھی کھیر میں ہاتھ نہیں ڈالنا تم کام نہیں کر سکتی، کہنے لگی یہ رسم ہمارے دین میں شامل نہیں ہے۔ آپ کو بچوں کو اسکول بھیجنا ہے، لنچ بنانے میں دیر ہو جائے گی، پھر جلدی جلدی بچوں کا لنچ بناکر بوکس میں بند کر دیئے۔

بہت خوش اخلاق اور پھرتیلی لگ رہی ہے لیکن میں نے تو باتوں باتوں میں سب گھر والوں کی عادتیں اور مزاج کے بارے میں سمجھا دیا ہے۔

علی کیا مطلب؟ تم نے میرے گھر والوں کی ابھی سے غیبتیں کرنا شروع کردیں؟

زینب ،ارے نہیں بھئی سب کی عادتیں بتا رہی تھی۔

زینب بیٹی کہاں ہو؟امی نے آواز دی اور کہنے لگی بھئی یہ نئی دلہن تو بیٹھنے والی نہیں ہیں، میرے کمرے میں آکر کہنے لگی آپ کی بیڈ کی چادر تبدیل کر دیتی ہوں، میں لاکھ منع کرتی رہی لیکن نہیں مانی پھر جھاڑو بھی لگا نے لگی۔

کیوں نہ آج ہی کھیر میں ہاتھ ڈلوا دوں ویسے بھی تم سارا دن اکیلے ہی کام کرتی رہتی ہو ساری ذمہ داری تمھارے کندھوں پر ہیں۔

امی کے منہ سے اپنی تعریف سن کر حیران ہی رہ گئی تھی، دل میں گمان ہوا کہ شاید عائشہ (دیورانی) نے سمجھایا ہو ۔خیر میں عائشہ کوامی کاحکم بتانے اوپر جا ہی رہی تھی کہ مجھے سیڑھیوں پر اپنی نند جویریہ کی آواز آنے لگی کہہ رہی تھی۔

عائشہ بھابھی آپ کو نہیں معلوم زینب بھابھی مجھے اپنا دشمن سمجھتی ہیں”

پھر عائشہ کی آواز آئی کہنے لگی ارے نہیں جویریہ زینب بھابھی تو آج صبح ہی تمہاری بڑی تعریفیں کر رہی تھی ۔اور کہہ رہی تھی کہ”جویریہ تو میری چھوٹی بہنوں کی طرح ہے، دن بھر پڑھ پڑھ کے تھک جاتی ہے، پھر میرے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بھی بٹاتی ہے، میں تھوڑی بہت سختی اس لیئے کرتی ہوں تاکہ کچھ سمجھدار ہو جائے” جویریہ حیرت سے!!!! کیا زینب بھابھی ایسا کہہ رہی تھی میرے بارے میں؟

پھر میں دروازہ کھٹکھٹا کر اندر چلی گئ اور عائشہ کو بتایا کہ آج آپ کی کھیر میں ہا تھ ڈالنے کی رسم ہیں، عائشہ نے کہا ہمارے گھر میں کوئی بھی دعوت ہوتی ہے تو امی ابّو یا بھابھی وغیرہ قرآن کی تلاوت ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے ہیں، میں چاہتی ہوں میں بھی یہ رسم یہاں قائم کرو میں نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔

ڈرائنگ روم میں پورا گھر جمع تھآ، عائشہ نے “سورۃ الحجرات” کی تلاوت ترجمہ اور تفسیر بیان کی۔ انداز انتہائی سادہ اور پر اثر تھا بار بار الفاظ کو دہراتی مجھے تو بہت سارے الفاظ کے معنی بھی یاد ہوگئے تھے۔

جیسےمسلمانوں کے درمیان صلح کراؤ، انصاف سے کام لیا کرو ، ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایا

کرو۔ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اورایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو وغیرہ وغیرہ۔

پھر ہم سب نے مل کر کھانا کھایا آج کا ڈنر بالکل مختلف تھا، دل بہت پر سکون اور مطمئن تھا عائشہ نے سب کے درمیان محبت الفت اور ایک دوسرے کے لیے ہمدردی کا جذبہ اجاگر کر دیا تھا، جس سورت کو بچپن سے لے کر اب تک نہ جانے کتنی بار پڑھ چکی تھی لیکن مطلب اور معنی آج ہی معلوم ہوئے تھے، گھر کا ماحول ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کو سنوارنے والی سورت تھی۔

پھر عائشہ نے *”اصلاح نفس* ” کے چار اصول بھی بتائے۔

مشار طہ:اپنے نفس کے ساتھ شرط لگا نا کہ گناہ نہیں کروں گی۔

مراقبہ:کہیں گناہ تو نہیں ہوگیا۔

محاسبہ:اپنا حساب کتنی نیکیاں اور کتنے گناہ کئے۔

 مواخذہ:نفس نے دن میں کتنی نافرمانیاں کیں ان کو سزا دینا ۔سزا یہ کی عبادت کا بوجھ ڈالنا

اب میں لیٹے لیٹے ان اصولوں کو اپنے اوپر اپلائی کر رہی تھی تاکہ میں بھی عائشہ جیسی بن جاؤ اور اپنے گھر اور معاشرے کو اپنے دین کے مطابق ڈھال سکوں اور اس کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کر سکوں۔

جواب چھوڑ دیں