آپریشن رد الفساد سے امن ہوا ممکن

ملکی سلامتی کو لپیٹ میں لینے والی بدترین دہشت گردی کو کچلنے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کمان میں آپریشن رد الفساد کا آغاز فروری 2017ء سے ہوا۔ گزشتہ دنوں آپریشن رد الفساد کے تین سال مکمل ہونے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’’ ملکی سلامتی کے خلاف کسی بھی خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے اور سرحدوں کے دفاع کے لیے آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا تھا، قوم کی بھرپور حمایت سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور کامیابیاں حاصل ہوئیں، تاہم ان کامیابیوں کی قیمت بھاری جانی و مالی نقصان کی صورت ادا کی گئی ، ہمارے شہداء ہمارا فخر ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے نتائج یقینا خطے میں امن کی صورت میں ظاہر ہوں گے‘‘۔ بلاشبہ ان تین سالوں میں ملک بھر میں ایک لاکھ 49 ہزار سے زائد انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کیے گئے ۔ ان آپریشنز کے ذریعے تقریباً400 سے زائد مذموم منصوبے ناکام بنائے گئے جبکہ فوجی عدالتوں نے 344 دہشتگردوں کو سزائے موت، 301 کو مختلف دورانیے کی سزائیں دیں۔ آپریشن ردالفساد کے تحت پاک، افغان سرحد پر2611 کلومیٹر میں سے 1450 کلومیٹر پر باڑ کی تنصیب مکمل کی گئی۔

ان اقدامات کے نتیجے میں ملک سے دہشت گردی کا قلع قمع ہوا ، اور پاکستان پھر سے امن کا گہوارہ بنا ۔ یہ آپریشن ردالفساد کا ہی ثمر ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان سپر لیگ کا انعقاد پاکستان میں ہو ا، اور دنیا کی نظر میں دہشت گردی کا مرکز تصور کیے جانے والے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات آج افواج پاکستان کے عزم اور قربانیوں سے امن و محبت کا گہوارہ بن چکے ہیں۔

قیامِ پاکستان سے لے کر 1980ء کی دہائی کے آغاز تک پاکستان کی مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقہ جات کو برطانوی سامراج کے چھوڑے ہوئے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت چلایا جارہا تھا۔ انتظامی اور ترقیاتی اعتبار سے یہ اہم ترین خطہ کسی بھی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں رہا، اور یوں بالآخر افغانستان میں روسی مداخلت نے اسے مزاحمتی تحریک کا مرکز بنا دیا۔ یہ علاقہ افغان جنگجوؤں کی تربیت اور مسلح کرنے کا مقام قرار پایا ، جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے مضافات میں دوران فوجی آپریشن ملنے والے وسیع و عریض تربیتی مراکز اس کا واضح ثبوت ہیں۔

2003 ء کے فوجی آپریشن کے بعد بھی جنوبی وزیرستان کسی حد تک ایک پرسکون علاقہ تھا، تاہم تواتر سے ہونے والے ڈرون حملوں کے باعث یہاں امن و امان کی صورتحال مخدوش تر ہوتی چلی گئی، پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان،جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی سمیت سات ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جانے لگا اور یہاں دہشت گردوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپ کے واقعات معمول بنتے چلے گئے ۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اسی علاقے میں جنم لیا جبکہ پاکستان کی اکثر کالعدم تنظیموں کا مرکز بھی یہ علاقہ رہا ۔ پاک فوج نے 2009 ء میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس کے سربراہ بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن ’’راہ نجات ‘‘کا آغاز کیا۔اس آپریشن کے دوران 72ہزار خاندان بے گھر ہوئے، لیکن اس کے باوجود آگ و خون کا کھیل امن وامان کی صورتحال کو تار تار کرنے میں ریاست کا پیچھا کر تارہا۔

پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے نے حکومت پاکستان اور سکیورٹی اداروں کو احساس دلایا کہ پانی سر سے گزر چکا ہے ۔ جس پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس علاقے کو مرکزی قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا، حکومتی کمیٹی بنی اور قبائلی اصلاحات کا پیکج تیار ہوا۔

12 فروری 2017 ء کو جنوبی وزیرستان کے دورے کے دوران پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے قبائلی علاقوں کو قومی مرکزی دھارے میں لانے کی حمایت کرتے ہیں، اور قبائلی عوام کی امنگوں کے مطابق یہاں امن و امان کے قیام کی صورتحال کو یقینی بنایاجائے گا ۔

اس کے بعد یہاں مقامی آبادی کے تعاون سے مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں نے بھرپور عزم کیساتھ دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیا گیا، اور ملک دشمن عناصر کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا گیا۔ اس موقع پر لاکھوں قبائلی عوام نے پاکستانی سیکورٹی فورسز کا ساتھ دیا ، اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع اس پہاڑی علاقے کو آخری دہشت گردسے بھی خالی کروایا جاچکا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کا کردار اور قربانیاں پوری دنیا تسلیم کرتی ہے ۔

امریکہ، یورپی یونین اور دوسرے ملکوں نے بھی ان قربانیوں کو متعدد مرتبہ تسلیم کیا ہے ، جبکہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے ہزاروں شہری اور سیکورٹی فورسز کے جوان شہید ہوئے اور ہمیں100ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا  قومی اسمبلی میں 31 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کی تمام 7شورش زدہ ایجنسیوں کا صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام ہوچکاہے۔

خیبرپختونخوا سے انضمام کے بعد پولیس نے لیویز فورسز کی جگہ لے کر فاٹا کی ذمہ داری سنبھال لی ہے اور یہاں سول و فوجداری عدالتوں نے کام شروع کردیا ہے۔ یہاں پولیس اسٹیشن تعمیر کیے جارہے اور مقامی لوگوں کو پولیس میں نوکریاں دی جارہی ہیں ۔ حکومت کا فاٹا پر آئندہ 10 برسوں میں 10کھرب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ ہے ، جبکہ صحت، تعلیم، انفرااسٹرکچر، مواصلات، امن و امان، سکیورٹی اور سیاحتی شعبوں میں پہلے ہی ترقیاتی کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ا سکولوں کے لیے عمارتیں زیر تعمیر ہیں ہسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں۔جنوبی وزیرستان میں موبائل فون سروسز کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔

درہ آدم خیل کی دکانوں پر جہاں چھوٹے ریوالوروں سے لے کر کلاشنکوفوں تک ہر قسم کی بندوقیں بکتی تھیں، اور جو کہ پشاور اور دیگر شہروں میں پرتشدد حملوں میں استعمال ہوتیں، یہاں آج اسلحہ خانوں کی جگہ لائبریریاں قائم ہورہی ہیں۔ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں قائم ہونے والے دو کیڈ ٹ کالج فاٹا کے طلباء کو اچھی اور معیار ی تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آج فاٹا کے نوجوان پاک فوج سمیت ملک کے دیگر اداروں میں جا کر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ بلاشبہ پاک فوج کے جوانوں کی بہادری اور مسلح قیادت کے راست اقدام سے پاکستان اب دہشت گردی کے مشکل حالات سے نکل آیا ہے اور دن بہ دن امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہمارے محفوظ کل کے لیے اپنا آج قربان کرنے والے شہدائے وطن اور ان کے ورثاء کو مت بھولیں، کیونکہ جو قومیں اپنے محسنین کو بھلا دیتی ہیں وہ مٹ جاتی ہیں۔ ہمیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے سکیورٹی فورسز کے ان جوانوں کو جنھوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھائیںاور اپنی جان مادر وطن پر نچھاور کر دی۔ان کی عظیم قربانیوں کی بدولت آج پرامن فضا میں پرندے چہچہا رہے ہیں، پھول لہلہا رہے ہیںاور زندگیاں مسکرا رہی ہے۔

جواب چھوڑ دیں