نبی کریم ؐ کی تعلیمات سے دوری انسانیت کی پریشانی

آج کا دور، موجودہ وقت حالیہ زمانہ کچھ ایسا ہے کہ ہر انسان پریشان ہے، بہت پریشان، انتہائ مضطرب،چاہے وہ دنیا کے کسی خوش حال خطے کا باشندہ ہو، یا پسماندہ معاشرے کا فرد، کوئی بھی مطمئن اور مکمل آسودہ نہیں ہے۔

ذہنی سکون کی دولت شاید ہی کسی ذی شعور کو آج کے دور میں میسر ہو،حقیقتاََ سب سے زیادہ پریشان وہ لوگ ہیں جو فکروشعور رکھتے ہیں،انسانیت کو حیوانیت میں بدلتے اور احسن تقویم کو اسفل السافلین میں بدلتے دیکھ کر چونک جاتے ہیں،سسکنے لگتے ہیں،رشتوں کے تقدس پر شیطانیت کو حاوی ہوتا دیکھ کر انکے دل لرزجاتے ہیں،جو انسانی معاشروں کو عروج پر لےجانےکیلیئے تیز جدوجہد کرنا چاہتےہیں، مگر درندگی کے بڑھتے واقعات دیکھ کر ٹھٹھک کر ایک جگہ ہی کھڑے رہ جاتے ہیں،اندھیروں میں دیئے جلانا چاہتے ہیں مگر آس پاس موجود دکھی دلوں کا کرب ارادوں پر برف جمادیتا ہے۔

انسانیت منہ چھپاتی پھررہی ہے، ہوس اور درندگی کے پےدرپے واقعات دیکھ کر،کسی جنگلی درندے نے بھی کبھی اپنی ہی نسل کے معصوم اور کمزور وجود کو اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا ہوگا۔

کیا کوئی حیوان حیوانیت کے اس پست ترین درجے کو پہنچا ہوگا؟

کیا اخلاقی گراوٹ اور غلاظت میں لتھڑےان کرداروں سے بچاؤ اور روک تھام کسی صاحبِ اختیار شخص کا مسئلہ ہے بھی یا نہیں؟

ہر آنیوالا دن ہوس کے پجاریوں کے کسی نئے معصوم، مظلوم شکار کی دلدوز داستان سنارہا ہے،ہوس کی کوئی آخری حد ہی نہیں۔

دولت کی ہوس، منصب کی ہوس، اقتدار کی ہوس، شہرت کی ہوس، خودنمائی کی ہوس پر حاوی ہوگئ ہے، یہ بےلگام نفسانی وجنسی خواہشات کی ہوس،معاشرہ بنتا ہے۔ خاندانوں سے،خاندان بنانیوالی سب سے مضبوط اینٹ عورت ہے۔ مگر وہی سب سے زیادہ غیرمحفوظ،عمر کے کسی حصے میں بھی ہو،چاہے تین سال کی بچی ہو یا ساٹھ سال کی پختہ عمر، خاندانی نظام کو تخلیق کرنیوالی ہستی مسخ شدہ لاشوں کی صورت ہر روز زیادتیوں کا شکاراور یہ شکار کرنیوالے انسانی شکل میں کونسی مخلوق ہیں ؟انہیں اللہ سمجھے۔

مگرایساکیوں ہے؟ کہ جن کے پاس چودہ سو سال پہلے سے اس ساری درندگی وانسانیت سوزی کا مؤثر حل موجود ہے، وہی حل پوچھتے پھررہے ہیں،کیابدبختی ہے کہ ہمارےلیئےتقلید و تجویز کا معیار اہلِ مغرب طے کریں،انسانیت ایسے ہی سسکتی رہےگی، جب تک خالق کے نازل کردہ حکم نامہ کو رد کیا جاتا رہےگا۔ جب تربیت، ذہنیت، معاشرت اور قوانینِ جزاوسزا ہادی انسانیت ؐ کے بتائے گئے رخ پر نہیں چلینگے، بھٹکنا اور سسکنا ہی مقدر رہےگا،پھر کیوں ہم دینِ فطرت کی طرف پلٹنے سے گریزاں ہیں؟

ظلم اور جاہلیت سے پُر عرب معاشرے کو چند برسوں میں ہی ایک بہترین فلاحی ریاست میں بدل دینے والا دین اور اسکی تعلیمات آج بھی مؤثر اور قابل تقلید ہیں۔

یہ حقیقت ہم سمجھ کر بھی نہیں سمجھیں گے تو پریشان اور مضطرب ہی رہینگے،جیسا کہ آج کے دور، موجودہ وقت میں انسان پریشان ہے،بہت پریشان،بہت مضطرب ،انتہائی مایوس۔

جواب چھوڑ دیں