میں پھر “گوانتانا موبے” جانے سے بچ گیا

میرے گھر پر پولیس نے بھر پور چھاپہ مارا، سارے اہل محلہ کے سامنے پہلے تو خوب ذلیل کیا اور پھر سر کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ سارے محلے میں میگا فون پر چیخ چیخ کر یہ اعلان کیا کہ ہم نے دنیا کا دہشتگرد ترین فرد جو پاکستانی ہونے کے باوجود غیر ملکی ایجنسیوں کو پاکستان کے حساس اداروں کے اہم رازوں سے آگاہ کرتا تھا، گردفتار کر لیا ہے۔ پھر بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہو گئی بلکہ مجھے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے پیش کرنے کے بعد ایسے ثبوت اور حقائق پیش کیے گئے کہ عدالت میری بے گناہی کے متعلق اچھی طرح جاننے کے باوجود مجھے دہشتگرد قرار دینے پر مجبور ہو گئی اور اس طرح مجھے ملک کی خطرناک ترین جیل “اڈیالہ” بھیج دیا گیا۔

عدالت کے فیصلے کے بعد اب میرے لیے اس بات کی کوئی بھی گنجائش نہیں رہ گئی تھی کہ میں اہل محلہ کے سامنے اپنے آپ کو عزت دار کہلانے کیلیے پیش کروں، بلکہ محلے والوں کو مجھ سے ہی نہیں میرے اہل خانہ سے بھی نفرت ہو گئی کہ بظاہر اجلے نظر آنے والے اندر سے کتنے کالے ہوتے ہیں۔قید و بند کی ذلت آمیز زندگی اس وقت اور بھی اذیت ناک بن کر رہ گئی جب یہ معلوم ہوا کہ مجھے بین الاقوامی سطح پر ایک بڑا دہشتگرد قرار دے کر “اڈیالہ” جیل سے “گوانتانا موبے” بھیجنے کے بھی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

مجھے تو بیشک اس بات کا یقین تھا کہ میں نہ صرف بے گناہ ہوں بلکہ جن جرائم کو بنیاد بنا کر مجھے سزا سنائی گئی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اس لیے میں ذہنی طور پر ہر اذیت سہنے کیلیے تیار ہوگیا لیکن میں اپنے لواحقین کا کیا کروں کہ وہ تو پہلے ہی دنیا کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے کہ مجھے “گونتانا موبے” بھیجے جانے کی خبر نے ان کے دل مزید چھید کر رکھ دیئے۔دنیا میں سیکڑوں ہمدرد ہوتے ہیں اور سیکڑوں جان کے دشمن، دشمنوں کیلئے میرے “گوانتانا موبے” بھیجے جانے کے امکانات نہایت خوش آنگیں تھے ،لیکن میرے گھر والے اور میرے ہمدرد جو اس جہد و جہد میں مصروف تھے کہ وہ مجھے”اڈیالہ” سے نکال کر کسی اور جیل میں منتقل کروانے میں یا رہائی دلوانے میں کامیاب ہو جائیں، اس بری خبر کے بعد وہ سب کچھ بھول بھال مجھے “گوانتانا موبے” جانے سے روکنے کیلیے دوڑیں لگانے لگے۔

جب بھی میرے “گونتانہ موبے” بھیجے جانے کے امکانات پر نظر ثانی ہوتی، ہر جانب سے مجھے مبارک باد کے پیغامات آنے شروع ہوجاتے اور “غیروں” کی یہ مہربانی بھی (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی جانب سے خاص مہربانی تصور کی جاتی۔ کئی مہینوں سے میرے سر پر لٹکی ہوئی یہ تلوار میری رگِ گلو کے نہایت قریب آکر پلٹی رہی اور اس مرتبہ بھی جب تیز دھار تلوار بالکل ہی گردن پر رکھ دی گئی تھی کہ ایک مرتبہ پھر فضا “زندہ باد” کے نعروں سے گونج اٹھی۔ایک ایسا ملک جس کو ایف اے ٹی ایف نے ذہنی بیمار بنا کر رکھ دیا ہے وہ ہر مرتبہ “اڈیالہ” سے “گوانتانا موبے” جانے سے بچ جانے پر اتنے زور شور سے جشن مناتا ہے جیسے اسے ذلت کی زندگی سے عزت کے ساتھ رہائی مل گئی ہو۔

بات سیدھی سی یہ ہے کہ پاکستان اگر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے تو وہ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ “ظالم” سماج اس کی “محبت” کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ محبت میں “دوئی” کسی کو بھی برداشت نہیں۔ یہاں تک کہ محبت کسی دوسرے کا سایہ بھی برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوا کرتی۔ دنیا میں جینے کے دو ہی طریقے ہیں یا تو انسان کسی کا ہو جائے یا کسی کو اپنا بنا لے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں ہے جس نے زندگی کے ان دونوں اصولوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنانا پسند نہیں کیا۔ جب پاکستان دنیا کو یہ اعتماد ہی دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے کہ وہ اس کا ہے یا اس نے اپنی خودی کو کبھی اتنا بلند ہی نہیں کیا کہ دنیا اس کی ہوجائے تو پھر جو کچھ بھی پاکستان کے ساتھ ہو رہاہے وہ بہت غلط بھی نہیں ہو رہا۔

دنیا کو سب سے زیادہ اعتراض اس بات پر ہے کہ وہ اپنے اندر سے دہشتگردوں کو ختم کرنے میں سخت ناکام ہے۔ بے شک پاکستان اپنے اندر سے دہشتگردوں کو ختم کردینے کی جد و جہد میں شریک ہے اور دہشتگردی کے خلاف جد و جہد میں ہزاروں شہریوں اور عسکری اہل کاروں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے لیکن دنیا ایسا محسوس کرتی ہے کہ بے شمار مواقع ایسے ہیں جہاں پاکستان “مصلحت” سے کام لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ پاکستان میں اب بھی بے شمار تنظیمیں ایسی ہیں جو نہ صرف سرگرمِ عمل ہیں بلکہ ان کے خلاف جس انداز کی کارروائی دنیا کو مطلوب ہے، اس قسم کی کارروائیاں دیکھنے میں نہیں آتیں۔

دنیا کے فورم پر جب بھی پاکستان اس بات کو رکھتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کے اندر دہشتگردوں کے خلاف ہر قسم کی سخت سے سخت کارروائی کر رہا ہے تو پھر دنیا یہ بھی سوال اٹھاتی ہے کہ اب تک کتنے بڑے بڑے کمانڈرز جن کے نام دنیا کی فہرست میں موجود ہیں، ان کو گرفتار کرنے کے بعد ان میں سے کس کس کو ان کے انجام تک پہنچایا گیا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو پاکستان کی ہر اس کوشش اور قربانی پر پانی پھیر دیتا ہے جو پاکستان دہشتگردوں کے خلاف کر چکا ہوتا ہے۔

کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو ہر عام و خاص کی عقل و سمجھ سے باہر کی ہیں۔ پاکستان اگر بڑے بڑے مطلوب ناموں کے افراد کو دنیا کے کہنے پر یا عالمی دباؤ کے نتیجے میں پابندِ سلاسل کر بھی لیتا ہے تو وہ پھر پاکستان کے سخت حصار سے نکل بھاگنے میں کیسے کامیاب ہو جاتے ہیں؟۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سے کہیں زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی دنیا کے دیگر ممالک میں ہو رہی ہے۔ پاکستان اقلیتوں کے کیلیے جتنا بڑا دل رکھتا ہے، دنیا کے ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، اس دریادلی کا کم ہی مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

فلسطینی مسلمانوں اور میانمار کی صورت حال سے اگر صرفِ نظر کر بھی لیا جائے تو پاکستان کا پڑوسی اپنے اندر مسلمانوں کے ساتھ جو دہشتگردانہ کارروائیاں کر رہا ہے وہ سب دنیا ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہی ہے لیکن دہشتگردوں کے خلاف پاکستان کی کوششوں کے اعتراف کے باوجود دنیا “اور اور” کا شورمچاتی نظر آتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہم پوری دنیا کی مرضی کو اپنے اوپر مسلط کرتے چلے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا اپنے شکنجے کو مزید کستی چلی جارہی ہے۔

بات سیدھی سی یہ ہے کہ مجھے یہ خبر سنا سنا کر خوش نہ کیا جائے کہ شکر کریں کہ آپ “اڈیالہ” سے منتقل کرکے “گوانتانا موبے” جانے سے بچ گئے بلکہ مجھے جیل سے باعزت طور پر باہر نکالنے کی جد و جہد کریں۔ میری عزت میں چار چاند “گوانتانا موبے” جانے سے بچ جانے میں نہیں لگیں گے، واپس اپنے محلے میں جاکر حقیقت حال بتانے اور سنانے میں لگیں گے۔عزت اسی میں ہے کہ اپنے نہ بن کر اگر دنیا کے ہی بن بیٹھے ہیں تو پھر دنیا کا اعتماد حاصل کرنے میں ہی آپ کی بچت ہے۔

دنیا کا اعتماد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب آپ ہر کارروائی دنیا کی مرضی و منشا کے مطابق کریں یا آپ جن جن کارروائیوں کا دعویٰ کریں ان میں پوری سچائی ہو۔ سیکڑوں افراد کے قاتلوں کو پکڑ لینا اور پھر طویل خاموشی چھاجانا، طالبان پر کبھی بمباریاں کرنا اور کبھی ان سے شیر و شکر ہوجانا، لال مسجد میں انسانوں کو دھواں بنا کر اڑا دینا اور پھر اسی مسجد کو برقعہ پوش عالم کے حوالے کر دینا، احسان اللہ احسان کو پکڑ لینا اور پھر اس کا فرار ہوجانا، حافظ سعید اور مولانا اظہر کو کبھی ان کے دفاتر تک کھولے رکھنے کی اجازت دینا اور پھر کسی دباؤ کے تحت ان کو جھوٹ سچ گرفتا کر لینا۔

ہزاروں خونی قاتوں کو اچانک عام معافی دیدینا اور پھر ان کو دوبارہ دبوچ لینے کی جد و جہد کرنا، عزیر بلوچ کا گینگ وار کا سرغنہ ٹھہرانہ اور پھر کسی بھی قسم کی کارروائی کا آگے نہ بڑھنا، ایک جانب یہ دعویٰ کہ سارے تخریب کار دھر لئے گئے ہیں تو دوسری جانب کراچی کے چھوٹے چھوٹے گھروں سے ٹرکوں کے حساب سے اسلحے کے ڈھیر برآمد کرکے دنیا کو اپنا ہی ملک غیر محفوظ دکھانا اور پھر جن گھروں سے اسلحوں کے پہاڑ بر آمد ہونا ان کے کسی بھی مکین کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہ ہونا جیسے اعمال دنیا کو آپ کی جانب سے مشکوک بنانے کیلئے کافی ہیں۔

اول تو یہ بات ہی سمجھ سے باہر ہے کہ جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کی ہی کیوں گئیں۔ کیا یہ پاکستان کے خلاف کرروائیاں کرتے تھے؟۔ یہ سب تو خالص پاکستان کے ہمدرد تھے جو روس کے خلاف بہادری کے ساتھ لڑتے رہے تھے۔ دنیا کے کہنے پر جب کوئی ملک اپنے ہی ہمدردوں کو اپنا دشمنِ جان بنا بیٹھے تو اس سے بڑھ کر کسی بھی ملک کی کیا بد قسمتی ہو سکتی ہے۔ کیا بھارت اپنے اندر مذہبی جنونیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کرتا نظر آتا ہے؟۔ وہ تمام گروپ جن کو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کیا، اگر یہ آج میدان عمل میں متحرک ہوتے تو بھارت کی کبھی یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ کشمیر اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو جاتا۔

مجھے اس بات کی کوئی خوشی نہیں کہ میں “گوانتانا موبے” جانے سے بچ گیا، میری حقیقی خوشی اس میں ہے کہ میں “اڈیالہ” سے باعزت طور پر اپنوں میں واپس آجاؤں! کاش میرے اپنے میرا یہ غم جان سکیں!!

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں