کرونا وائرس، سازش تو نہیں؟

میں نے بہت عرصہ پہلے کسی ڈائجسٹ میں پڑھا تھا کہ روس نے کسی پڑوسی ملک پرایسے جراثیم بم گرائے کہ اس ملک کی آبادی دیکھتے دیکھتے ختم ہونے لگی۔ یہ جراثیم اتنے خطرناک تھے کہ اس کا شکار کوئی فرد اگر کسی آبادی کے قریب سے بھی گزرجاتا تھا تو چند منٹوں کے بعد وہ آبادی موت کی نیند سوجایا کرتی تھی۔ آبادی تو آبادی، اس علاقے کا کوئی پرندہ، درندہ، چوپایا یہاں تک کہ سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیاں یا سامان سے لدے ٹرک بھی کسی آبادی کے نزدیک سے گزرجاتے تب بھی پوری کی پوری آبادی ہلاک ہو جاتی۔

کہتے ہیں کہ ہر انسان کی کیمسٹری ہر دوسرے انسان سے کافی حد تک مختلف ہوتی ہے۔ ہوا یوں کہ جن جن شہروں کو نشانہ بنایا گیا تھا، وہاں نہ جانے کس طرح ایک فرد بالکل زندہ سلامت رہ گیا۔ اسے اس بات پر نہایت دکھ بھی تھا کہ اس کے شہر کا کوئی ایک فرد بھی اسے زندہ سلامت دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ انسانوں اور قدرت کی بنائی ہوئی باقی ساری اشیا صحیح سلامت تھیں، لیکن کوئی ذی روح ایسا نہیں تھا جو اب سانس بھی لے سکتا ہو۔ وہ خود بھی چاروں جانب سے لاشوں میں گھرا اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا لیکن کئی دن گزرجانے کے بعد بھی جب اسے یہ احساس ہوا کہ وہ نہ صرف زندہ و سلامت ہے، بلکہ اسے موت کے جراثیموں نے عام انسان سے بھی زیادہ مضبوط اور توانا بنا دیا ہے۔ اسے اس بات کا بھر پور علم تھا کہ یہ جراثیموں کی بمباری اس کے ملک پر روس ہی نے کی تھی۔ اس کے ملک اور روس کے حالات کئی دنوں سے نہایت کشیدہ چل رہے تھے اور روس نہ صرف اعلانِ جنگ کرچکا تھا، بلکہ اس نے فضائی حملے کی کھلی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عن قریب اس کے ملک کے خلاف نہایت شدید اور تباہ کن کارروائی کریگا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ روس ان پر کوئی ایٹمی حملہ کرنے والا ہے، جس کے تدارک کیلئے جو اقدامات ممکن ہو سکتے تھے وہ اختیار کر لئے گئے تھے، لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ ایسے جراثیمی ہتھیار بھی رکھتا ہے جو ایٹم بم سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔

ایک دن اس نے دیکھا کہ فضا میں جنگی جہازوں کا شدید شور بلند ہوا اور اس سے پہلے کہ توپوں اور اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اپنے گولے اگلنا شروع کرتیں، فضا سے بڑے بڑے غباروں کی صورت میں سیکڑوں غبارے زمین کی جانب آنا شروع ہو گئے۔ پہلے تو پورا شہر حیران ہوا کہ یہ بیشمار رنگوں کے غبارے کیا بلا ہیں؟ لیکن جیسے ہی وہ غبارے زمین سے ٹکرا کر پھٹے وہ اتنا ہی دیکھ پایا کہ اس کے ساتھ ہی اردگرد جتنے بھی انسان، پرندے اور چرندے تھے، بنا آواز بلند کئے زمین پر ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ یہ سب نظارہ وہ اپنے گھر کی کھڑکی میں کھڑا دیکھ رہا تھا۔ وہ دوڑ کر گھر کے کمروں میں داخل ہوا تو وہ یہ جان کر سہم گیا کہ گھر کا ایک ایک فرد مرا پڑا ہے۔ وہ دیوانہ وار اپنے محلے پڑوس میں دوڑتا بھاگتا رہا لیکن اسے کہیں بھی کوئی سانس لیتا نہیں ملا جبکہ باقی ہر شے اپنی اصل حالت میں تھی۔ اس نے اپنے گھر سے اپنی گاڑی نکالی، پاگلوں کی طرح اسے اسٹارٹ کیا اور شہر بھر کا چکر لگا کر دیکھا تب اسے یہ معلوم ہوا کہ وہ اس پورے شہر میں واحد انسان ہے، جسے اب تک موت نہیں آئی۔ لاشوں بھرے اس شہر سے وہ نکل کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے پاس اب نہ تو گاڑیوں کی کمی تھی اور نہ ہی فیول کی اس لئے کہ ہر فیول پمپ تیل سے بھرا ہوا تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے؟ اور جائے تو کہاں جائے۔ شہر سے کئی سو کلو میٹر دور اسے ایک گاؤں میں زندگی کے آثار دکھائی دیئے تو اس نے وہاں کا رخ اختیار کیا لیکن اسے یہ دیکھ کر شدید صدمہ پہنچا کہ جونہی وہ گاؤں کی جانب مڑا، سارے افراد زمین پر ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ وہ اور اس کی گاڑی خود ایک خوفناک موت بن چکی ہے۔ اس کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا اور اس کے دل میں روس کی جانب سے نفرت کی ایک آگ سی بھڑک اٹھی۔ اس نے ایک خوفناک فیصلہ کیا اور روس کی سرحدوں کے اندر تک گھس جانے کا ارادہ کر لیا۔ روس کی سرحد اس کے شہر سے ہزاروں میل دور تھی لیکن اس نے اب ہر صورت میں روس کو تباہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ اس کے پاس اب وسائل کی کوئی کمی نہ تھی۔ ایک سے ایک گاڑی اس کے ارادوں کو دوام دینے کیلئے کمر کسی اس کے راستوں میں موجود تھی۔ اس کہانی کا اختتام یہی تھا کہ وہ ہر رکاوٹ عبور کرتا ہوا کسی نہ کسی طرح روس کی سرحدوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو ہی گیا۔

کرونا وائرس کی ہوا بھی کچھ ایسی ہی کہانی سناتی نظر آ رہی ہے اور چین جو دنیا کیلئے ایک بڑی بلا بنتا جارہا تھا، اب لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ کیلئے خود ایک بڑی بلا بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے وائرس نے پوری دنیا کو ایک ایسے خوف میں مبتلا کر دیا ہے کہ دنیا اس سے ہر قسم کے روابط توڑنے کے متعلق نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کر رہی ہے۔ تازہ ترین خبر خود پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا دھماکہ ہے۔ خبر یہ ہے کہ “کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان نے چین کے ساتھ تجارت اور ہر قسم کی پروازیں عارضی طورپر معطل کردی ہیں۔ چین سے آئے ہوئے سامان پر اسپرے بھی کرانے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ تاجروں کے لیے نئی ہدایت میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے چین سے تجارت ایک ماہ کے لیے معطل کرکے تمام کنٹینرزکی درآمد روک دی گئی ہے۔ مقامی صنعتکاروں اور تاجروں کو ویزوں کا اجرا بھی روک دیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق چین سے مجموعی تجارت کا حجم 15 ارب ڈالر ہے اوراب چین کے سوا دیگر ممالک سے تجارتی اشیا منگوانے پر غور کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان تمام فضائی رابطے فوری طور پر بند کیے جا رہے ہیں”۔

بے شک یہ سارے اقدامات حفظِ ما تقدم کے طور پر ہی کئے گئے ہیں لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ چین واحد ملک ہے جو قیام پاکستان سے پاکستان کا ہمدرد اور دوست رہا ہے۔ پاکستان چین سے اپنی ضرورت کی بیشمار اشیا منگوایا کرتا تھا، جو دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بہت ارزاں قیمت پر مل جایا کرتی تھیں۔ چین میں معیار تعلیم اچھا ہونے کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی طالب علم بھی چین سے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے چین آتے جاتے تھے اور تجارتی غرض سے آنے جانے والوں کا تو ایک نہ ٹوٹنے والا سلسلہ تھا۔ ایک جانب تو وہ تمام طالب علم اور تاجر جو اب تک چین میں موجود ہیں، ان کی واپسی بہت خطرے میں پڑ کر رہ گئی ہے تو دوسری جانب ضرورت کی وہ اشیا جو اب چین سے نہیں لائی جاسکیں گی، ان کو کہیں زیادہ قیمت ادا کرکے جب دوسرے ممالک سے درآمد کیا جائے گا تو پاکستان کی معیشت پر اس کے اثرات اور بھی منفی پڑیں گے، جو ایک نہایت تشویشناک بات ہے۔ علاوہ از ایں، سی پیک کو بھی شدید دھچکا پہنچنے کا امکان ہے۔ یہ ساری صورت حال پاکستان کیلئے ہی تشویشناک نہیں بلکہ ہمارے ایک اچھے دوست چین کیلئے بھی نہایت تشویشناک ہے، اس لئے کہ عالمی منڈی میں اس کیلئے جن مشکلات کے بڑھ جانے کا امکان ہے ، وہ چینی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ سکتی ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر طاقت کا توازن بہت بری طرح بگڑ جانے کا خدشہ بھی ہے۔ پاکستان، بھارت، افغانستان بھی چین کے پڑوسی ممالک ہیں اور کیونکہ ان ممالک کا چین میں اور چین کا ان ممالک میں بہت آنا جانا ہے تو بعید نہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک پاکستان، بھارت اور چین کیلئے بھی مشکلات کھڑی کر دیں، جس کی وجہ سے خطے کے یہ سارے اہم ممالک بہت پیچھے دھکیل دیئے جائیں۔

دنیا پاک چین دوستی کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہی تھی۔ امریکا اور بھارت تو بہر صورت یہ گوارہ کرنے کیلئے تیار ہی نہیں تھے کہ پاکستان چین کی مدد سے کسی خوشحالی کی جانب بڑھ سکے۔ ایسے عالم میں جب امریکا اور بھارت پاک چین تعلقات کو بہت ٹیڑھی نظر سے دیکھ رہے تھے، کرونا وائرس کی افواہیں پاکستان کیلئے مزید مشکلات بڑھا نے کا سبب بن سکتی ہیں، جس کی تازہ ترین مثال پاک چین ہر قسم کی پروازیں، لین دین اور آنے جانے کا بند ہو جانا ہے۔

ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر ایک جانب تو پاکستان کو نہایت سنجید گی کے ساتھ اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا “کرونا” اتنا خطر ناک وائرس ہے کہ اس کے آجانے سے آبادیاں کی آبادیاں تلپٹ ہو کر رہ جائیں گی؟ یا یہ ایک ایسا وائرس ہے جس پر بآسانی قابو پایا جاسکتا ہے؟ نیز اس بات کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ کیا یہ امریکہ یا مغربی طاقتوں کا خوفزدگی پھیلانے کا ایک اعلیٰ پروپیگنڈہ تو نہیں ، جس کا سہارا لیکر وہ چین کو بنا کسی جنگ ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ کہ طالبان، افغانستان اور عراق کے ساتھ جنگ کے دوران بھی کیمیکل بموں کا شور مچایا گیا تھا اور ایک خطرناک کیمیکل “اینتھراس” کا شوشہ چھوڑا گیا تھا جس کی ذرا سی بو بھی (بقول امریکا) انسانی جسم میں چلی جانے سے موت واقع ہو سکتی تھی۔

بیماریاں اور جراثیم کوئی ایسی شے نہیں جس کی دوا پیدا نہ کی گئی ہو۔ اللہ کا قانون احتیاط کرنے کیلئے ضرور کہتا ہے لیکن نفرت اور دوری کی تعلیم نہیں دیا کرتا۔ اپنے رب پر مکمل یقین کے ساتھ عزم باندھیں اور خوفزدگی کا شکار ہونے کی بجائے تمام تر احتیاط کے باوجود بھی دوستی کا ہاتھ نہ چھوڑیں ورنہ دنیا میں ہم بالکل ہی تنہا ہوکر رہ جائیں گے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں