سوچنے سے پہلے اور سوچنے کے بعد

آپ کو پتا ہے ؟ سوچنے سے پہلے نیت اور ذہن صاف رہتا ہے ۔ اور چاہے آپ اچھا سوچیں لیکن ساتھ میں آپ کے ذہن میں منفی سوچ ضرور جنم لے گی ۔ اور منفی سوچ آپ کو اچھی سوچ سے زیادہ عمل کے قابل لگے گی ۔

اک دفعہ میں گراؤنڈ میں کرسی پہ بیٹھے منظر سے لطف اندوز ہورہا تھا ۔ دو پٹھان بچوں کے بیچ ایک کھیل کھیلا جارہا تھا ۔ جسے پنجابی زبان میں چک ڈنڈا اور پتاسا بھی کہتے ہیں ۔

کھیل اس طرح ہے کہ دو اینٹوں کو اتنے فاصلے پر رکھا جاتا ہے کے ان میں کوئی ڈنڈا آسانی سے گزر جائے ۔ اینٹوں پر گیند کو رکھا جاتا ہے ۔ ڈنڈے کو اینٹوں کے بیچ سے اٹھا کے گیند کو بلند کر کے ڈنڈے سے گیند کو ہٹ شارٹ مارنی ہوتی اور اسے مقررہ حدود کے پار پھیکنا ہوتا ہے ۔ اور اگر گیند حدود سے پار نہ ہوئی تو جہاں جا کے رکی وہاں سے مخالف کھلاڑی گیند اٹھا کے اینٹوں پہ مارے گا اگر لگ گئی تو کھلاڑی آؤٹ ۔ نہ لگنے کی صورت میں ایک رن کا اضافہ ہو جائے گا۔

دو پٹھان بچے یہ کھیل رہے تھے میں بڑے لگاؤ سے انہیں دیکھ رہا تھا ۔ جو ایک فطرتی بات گزرے ہوئے بچپن کو دیکھنا ہے تو بچوں کو دیکھ لو ۔ ایک پٹھان بچے نے شارٹ ماری تو دوسرے نے اسے حد پار ہونے سے پہلے روک لیا ۔ اصولاً اس نے اس جگہ سے گیند ماری اینٹوں کو ۔ اینٹوں کو گیند چھو کر گزر گئی ۔ مگر مارنے والے کو پتا نہیں لگا اور وہ واپس اپنی جگہ پر جانے لگا ۔ لیکن دوسرا کہتا لگ گیا ہے اور باری اسے دے دیتا ہے ۔

اس واقعہ نے مجھے سوچنے پہ مجبور کر دیا ۔ اگر میں اسکی جگہ ہوتا تو کبھی بھی اسے باری نہ دیتا ۔ پھر ایک اور خیال آیا یہ بڑے ہو جائیں گے تو یہ بھی ایسا ہی کریں گے جیسا ہم کرتے ہیں ۔

مجھے پھر سمجھ آگئی کہ چھوٹا بچہ فوت ہوجائے تو جنت میں کیوں جائے گا؟ اس لئے کہ وہ سوچتا نہیں نہ اپنے فائدے کا نہ کسی کے نقصان کا ۔ اس کی نیت پر خلوص ہوتی ہے ۔ اس کے دل میں کھوٹ نہیں ہوتا ۔ اگر وہ چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے تو جنت میں اس لئے جاتا ہے کہ وہ تو بالکل پاک ہوتا ہے ۔ اس کے تو پیشاب پر چھینٹے مارنے سے پاک ہو جاتا ہے۔

چھوٹا بچہ کچھ سوچتا نہیں ، نہ اسے کوئی مفاد ہوتا ہے اور نہ کسی سے کوئی مطلب ۔ پر جیسے جیسے عمر میں اضافہ ہوتا ہے وہ دنیا کی رنگینیوں سے آنکھیں ملاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان ہی ہو کے رہ جاتا ہے ۔ سوچتا تو وہ اچھا ہے مگر اس کے ساتھ اک منفی سوچ بھی ابھرتی ہے ۔ جسے وہ پرکشش اور مزہ سے بھر پور جان کر اسے لائحہ عمل میں لاتا ہے ۔ اور اس کا دل آہستہ آہستہ سفید سے کالا ہو جاتا ہے ۔

جوانی میں بھر پور منفی سوچوں اور غلط رستوں پر چل کر جب وہ بڑھاپے کو پہنچتا ہے ۔ تواسے اپنا بچپن بہت یاد آتا ہے ۔ اور وہ جان جاتا ہے کہ وہ جوانی میں کیا گل کھلا کر بڑھاپے میں پہنچا ہے ۔ بڑھاپے کو بچپن کا دور ثانی کہا جاتا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ بچپن میں گناہ نہیں ہوتا اور بڑھاپے میں جوانی میں کئے گئے گناہوں کی معافی طلب ہوتی ۔

بچپن کا دور تھا اک سہانہ زمانہ

کاش کہ لوٹ جائے وہ پرانا زمانہ

جواب چھوڑ دیں