عورت

کہتے ہیں وجود ذن سے تصویر کائنات میں رنگ اچھا لگتا ہے، سن کر مگر پھر یہ بھی سننے کو ملتا ہے بد زبان، بد اخلاق معاشرے کا بگاڑ ، بے وفا اور بے حیا یہ بھی کسی حد تک درست مگر سب ایک جیسے نہیں ۔” آپؐ نے فرمایا دوزخ میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی ـ” ۔ اللہ معاف فرمائے اس کی وجہ بدزبانی اور شوہر کی نافرمانی ہے۔

سوچیں کتنی فکر کی بات ہے اور جائزہ لیکر غور کرنے کا مقام ہے ۔ بار بار یاد کرنے اور سدھرنے کا موقع ہے ہم الزام دیتے ہیں کہ تنگی ہے مجبوری ہے ۔ حالات خراب ہیں، بھائی بندے پرواہ نہیں کرتے اور شوہر قدر نہیں کرتے، ذمہ داری نہیں نبھاتے ، حق نہیں دیتے ، ایسے ہیں، ویسے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اپنے آپ کو معصوم اور بے قصور سمجھتے ہیں، کہتے ہیں ہم تھوڑے اتنے برے تھے؟ ہم تو بالکل ٹھیک تھے ۔ مردوں کے رویے ہی نے ہمیں بگاڑ دیا ہے ۔

“میرے مزاج کا اس میں کوئی قصور نہیں 

تیرے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا”

پھر ہم یوں کہتے ہیں کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ، ماں باپ کہتے ہیں، یہاں تو مہمان ہو میاں کے گھر جا کر نخرے پورے کرنا، یا پھر ایسے طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ ابھی تو مزے کر لو وہاں جا کر پتا چلے گا، مطلب سسرال جا کر ،مگر میں کہتی ہوں وہا ں جا کر پتا لگے گا مطلب بہت دور اس جہاں سے دور اس جہاں میں جا کر پتا لگے گا۔ کیا رب نے دیا ؟کتنی عزت وقار اور مقام و رتبہ دیا۔ خود ہم نے کیا کیا ؟ اگر محنت کی بچوں کے لئے، بھائی بندوں کے لئے ، والد کے لئے، شوہر کے لئے ،سب کے لئے تو اللہ کا فضل ہے کہ اس لا ئق بنایا ، محبت دی تو لوگوں کا حق ادا کیا، ورنہ میری ذات تو اتنی کمزور کہ خود کا بوجھ نہ اٹھا سکوں ۔ محنت ہی میں تو عظمت ہے۔ محنت بھی پیار اور خلوص کے ساتھ ہو تو کیا بات ہے اس لئے عظیم ہے وہ ماں جو بے لوث بے غرض ہر دم خدمت پر معمور رہتی ہے، کبھی کہیں چھٹی کا تو کیا؟ ہاف ٹائم لیف کا بھی تصور نہیں ۔ ہم نے اپنی اماں کو ایسا بھی دیکھا مگر زیادہ تر مصروف صبر شکر کے ساتھ ہی دیکھا کہتی تھیں ۔

اس زندگی کے حسن کی تابندگی نہ پوچھ

جو حادثوں کی دھوپ میں تپ کر نکھر گئی 

واقعی زندگی امتحان ہے ہر لمحہ امتحان اس کو جینا فن ہے ۔ شکوہ شکایت نا شکری ہے ۔ غلطی کو تسلیم کر لینا اعلیٰ ظرفی ہے اور واقعی عاجزی میں عظمت ہے ۔ جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے یہ بھی دعا ئوں نے سکھایا ہے ۔ محبت الٰہی اور خشیت الٰہی سے مسلم مومن بنتا ہے اور ظاہر ہے سچے اور کھرے مومن کو سوائے رب کے کسی کا کبھی خوف نہیں ہوتا ۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ معاشرے کے سدھا ر یا بگاڑ کا قصو ر عورت کے کھاتے میں جاتا ہے، کیونکہ بے شک انسان مہد سے لحد تک علم حا صل کرتا ہے، لیکن پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتی ہے، لہٰذا تہذیب وہاں سے ہی جنم لیتی تو گویا ذمہ دار یا قصور وار ہم ہی ٹھہرے نا کیونکہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ جیسی ماں ویسی اولاد ! تو پھر ۔

“میں ہی قصور وار تھا اپنے قصور کا 

الزام اب کے بار میرے ہی سر گیا” 

ہمیں خود پر ہی غور کرنا ہے ۔کہتے ہیں عورت کا کوئی گھر نہیں مانا لیکن یہ بھی تو سوچیں عورت کے بغیر کوئی گھر نہیں تو گویا گھر ہی زندگی بھر کا ایسا ادارہ ہے، جو ہر دم تعلیم و تربیت کا محور ہے۔ اس لحا ظ سے عورت ہی ہر معاشرتی برائی یا اچھائی کا محور بلکہ مرکز و محور ٹھہری ۔ یعنی تہذیب کو بنانے یا بگاڑنے کی اصل ذمہ دار ٹھہری نا۔ تو پھر ذمہ داری اٹھانا ہمارا ہی فرض ہے، صلہ بھی تو تین گنا زیادہ ہے ! مایوسی سے کیا گھبرانا ہمت جوان رکھنی ہے ۔ حوصلے بلند اور نیت نیک رکھنی ہے نتائج اللہ پر چھوڑنے ہیں۔

“وہی عظیم ہیں اے دوست اس زمانے میں 

شکست کھا کے جو ہمت جوان رکھتے ہیں “

تو پھر ساتھیوں افسوس یا غم کی کیا بات ہے ؟ذمہ داری ادا کرتے جائیں ، سارے وار سہتے جائیں ۔ جنت مائوں کے قدموں تلے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ آگے خوشیاں منتظر ہیں ۔ ہمیں خوبصورت کے ساتھ ساتھ خوب سیرت ضروری ہونا ہے، ورنہ کائنات میں بجائے رنگ بھر نے کے بھنگ بھر جا ئے گا ۔ ہمیں چہرے نہیں بلکہ سماج کو بدلنا ہے، اپنی مثبت سوچوں اعلیٰ ظرفی محنت محبت اور خلوص کے ساتھ اپنی کارکردگی ہمیشہ ایک مسلمان کے شایانِ شان رکھتا ہے یہی دعا ہے یہی چاہ ہے ۔

“اے خدا میری دعا ئوں میں وہ اثر کردے 

مانگو تجھ سے قطرہ اور تو اسکو سمندر کردے “۔ 

(آمین)

جواب چھوڑ دیں