نقل کا بڑھتا ہوا رجحان

کچھ برائیاں ایسی سنگین نوعیت کی ہوئی ہیں کہ  ان میں کئی برائیا  ں جمع  ہوجاتی ہیں۔ ان برائیوں سے معاشرے میں فتنے جنم لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرہ فساد سے بھر جاتاہے۔ اور معاشر ے کا ہر فرد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔دور حاضر میں  ایک برائی ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں میں نقل کا بڑھتا ہوا رجحان ہے ۔اس کی ابتداء تو طالب علم سے ہی ہوئی ہے مگر بغور دیکھا جائے تو اس کی جڑیں والدین کی ناقص تربیت سے جاکر ملتی ہیں۔

جب تعلیم کو نمبر اور ڈگری  کے گر د محدود کردیا جائے اور قابلیت اور مہارت کے حصول کو نظر انداز کردیا جائے، تو طالب علم کے ذہن میں ایک ہی بات بیٹھ جاتی ہے یا والدین بٹھاتے ہیں کہ اگر نمبر کم ہوئے تو اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں ملے گا اور ڈگری نہیں مل سکے گی،  اب طالب علم کی تمام تر محنت   اور وقت صرف اور صرف نمبروں کی حصول میں صرف ہوتاہے۔ اب طالب علم چاہے کیسے طریقے استعمال کرے ؟ اس کو مطلوبہ نمبر  حاصل کرنے کی دھن سوار ہوتی ہے ۔  یہ با ت صرف یہاں تک محدود نہیں رہتی بلکہ والدین بھی اس شامل ہوجاتےہیں۔ یعنی نقل کرانے میں اپنے ہونہاروں کے ساتھ ہوتے ہیں اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لیے امتحانی مراکز تک جا پہنچتےہیں۔ اور سونے پر سہاگہ جب سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوتو کیا بات ہے؟

اس تیزی سے بڑھتے ہوئے نقل کے رجحان نے معیار تعلیم کا جنازہ نکال کررکھ دیا ہے۔کیا میڑک ؟ کیا انٹر؟ اور کیا اعلیٰ تعلیم؟   تمام کے تمام ہی اس برائی میں مبتلا ہیں۔ اس خرابی کے نتیجے میں ذہین اور با صلاحیت طلبہ کا استحصال ہوتاہے،   میرٹ کا  قتل ہوتاہے۔  اس ایک برائی کے اندر  سب سے بڑی برائی  جھوٹ، بددیانتی،  ظلم شامل ہیں۔یہ کبیرہ درجے کے گناہ ہیں،  جن کو آج کل سمجھا نہیں جارہا ۔یا پھر نظر انداز کیا جاتاہے۔

ہم جان بوجھ کر اپنے آشیانے کو آگ لگانے کی کوشش کررہے ہیں،  ذرا  اندازہ کیجئے کہ جب اپنے علاج کے سلسلےہم خودہی کسی ایسے  ہی ڈاکٹر کے ہتھے چڑھ گئے تو کیا ہوگا؟ اور جب ایسے ہی کسی انجینئر سے ہم پل ، سڑکیں ڈیم اور عمارتیں بنوائیں تو ایسی تباہی کے ذمّہ دار کون لوگ ہوں گے؟

اس طرح کے لوگ جب اعلیٰ ڈگریاں لے کر اداروں میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کےلیے اعلیٰ عہدوں پر اپنی ذمّہ داریا ں ادا کریں گے ،تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیا ملک و قوم کی خدمت کریں گے ،بلکہ ملک و قوم کو ان کی خدمت کرنا پڑے گی۔اس طرح کے افراد صرف چھوٹی نوکریوں اور ذمّہ داریوں پر نہیں بلکہ اب تو خیر سے صوبائی ،قومی اسمبلوں اور سینیٹ کی نشستوں پر  براجمان ہیں اور ہر آن  کیا کیا گل کھلارہے ہیں؟عوام پہلے تو لمبی لمبی قطاروں میں دھکّے  کھاتی ہے، اب تو پانی سر سے اوپر ہوگیا ہے ۔

ضروری ہے کہ ہم اپنے ہونہاروں کی تربیت کی طرف توجہ دیں  ایمانداری اور دیانتداری  کو ان کی شخصیت کا حصّہ بنانے کی پوری کوشش کریں،  اس کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ اجتماعی خرابیاں اجتماعی کوششوں سے دور ہوتی ہیں۔لہٰذا ہم سب کو اس پورے نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرنی چاہیئے ۔اسی نظام کے اندر وہ  خرابی کہ جس کا ذکر سطور بالا میں کیا گیاہے، تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔اسی نہر کے پانی سے یہ ببول کے درخت اور جھاڑیاں سیراب ہوکر نشونما پارہی ہیں۔

اسلامی نظام ہی وہ نظام ہے کہ جس میں مکمل رہنمائی موجود ہے،  اس نظام کی برکتیں  پوری دنیا کو ماضی میں منّور کررہی تھی اور آج بھی اس کے اندر ہی وہ صلاحیت موجود ہے کہ  معاشرہ کی تمام خرابیاں دور کرسکتاہےاور پوری دنیا کو منْور کر سکتاہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ : “اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان کے لیےزمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے”۔ ” سورہ اعراف

 

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں