” پاکستان اور ریاستِ مدینہ “

صبحِ صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں،

تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے کسی نے یہ سوال کیا کہ اس ریاست پاکستان میں قانون سازی کیسے ہو گی؟ تو قائد نے جواب میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی قانون سازی چودہ سو سال پہلے قرآن و سنت کی روشنی میں ہو چکی اب اس کی علیحدہ سے قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ قائد کے اس جواب سے قیامِ پاکستان کا مقصد واضح ہو جاتا ہے۔ ریاستِ مدینہ کے بعد پاکستان وہ واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پہ قائم کی گئی، جہاںسیاست، معیشت، عدالت اور نظام تعلیم نیز ہر وہ پہلو جو ریاست سے متعلق ہو، اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا تھا۔مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک صورتحال دیکھ کر کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ وہی ریاست ہے، جسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔

یہ بیان کرتے دل خون کے آنسو روتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جو بھی اس ریاست میں حکمران رہے تقریبا سب نے ہی شریعتِ محمدی اور نفاذِ اسلام کے دعوے کیے اور یہ صرف دعوے کی حد تک ہی رہے۔ نہ جانے وہ شریعت محمدی اور نفاذِ اسلام سے کیا مراد لیتے تھے؟ بہرحال دورِ حاضر کے وزیراعظم عمران خان صاحب نے تو واضح طور پہ ”ریاستِ مدینہ“ کا نام لے لیا، اب آنے والا وقت بتائے گا کہ وہ ریاستِ مدینہ سے کیا مراد لے رہے ہیں؟ ابھی تک تو کوئی بھی کام ریاست مدینہ والا نہیںکیا۔

قیامِ پاکستان سے اب تک اس ریاست کے مختلف پہلوؤں پہ روشنی ڈالیں تو طویل داستانوں پہ مشتمل باب کا آغاز ہوتا ہے، ایک وہ شخص جو بانی پاکستان کے نظریے اور اسلامی نظام اور اصولوں سے بخوبی واقف ہو، پھرپڑھتے پڑھتے اشکبار آنکھیں اور غمزدہ دل لیے کچھ لمحات کے لیے وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ مگر اچانک اس کے دل میں ایمانی قوت ایک ہل چل سی مچا دیتی ہے جو اللہ کے نام کی ضرب سے جاگ جاتی ہے اور آخرکار اسے اطمینان کی کیفیت میں لے آتی ہے، چنانچہ وہ اللہ پہ بھروسہ کرتے ہوئے پھر سے امید کا دامن تھام لیتا ہے۔ تاریخ ایسے بے شمار سیاہ اوراق سے بھری پڑی ہے، جن میں اسلام کا نام استعمال کیا گیا مگر اسلام کے نام پہ کافرانہ نظام کا نفاذ قائم رہا۔ آج کوئی بھی اطمینان سے یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں ایک انچ جگہ پر بھی اجتماعی طور پہ اسلام نافذ ہے۔ غرض یہ کہ جہاں تک نفاذِ شریعت کی بات ہے تویہ ریاست اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔

سب سے پہلے اس ملک کی سیاست کو اسلام کے میزان میں دیکھیں تو یہاں پہ جو جمہوریت قائم نظر آتی ہے، اس کا کہیں بھی اسلام میں تصور موجود نہیں۔ بے شمار دینی قوتیں جنہوں نے نفاذِ اسلام کی کوششیں کی وہ بری طرح ناکام ہوئیں اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برصغیر سے انگریز کے جانے کے بعد انھوں نے اسی انگریز کے قائم کردہ نظام میں رہ کر یا شامل ہو کر نفاذِ اسلام کی کوششیں کی، یوں اس نظام کو اور تقویت مل گئی جبکہ انھیں اس کے برعکس ایک اسلامی نظام متعارف کروانا چاہیے تھا۔ اسلام نے تو سیاست کو بڑی واضح انداز میں پیش کیا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں انکی ہستی ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

اس ریاست کا معاشی نظام مغربی نظام کی طرح سود پہ چل رہا ہے، جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت کی ہے، حتی کہ سود کے استعمال کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا۔ اس سودی نظام سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب ترہوتا جا رہا ہے اور قوم مختلف طبقات میں بٹ کر رہ گئی جبکہ ریاستِ مدینہ کے امیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے تو اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا تھا بقول فاروق حسین صابر

طبقات کے ڈھانچے کی بنیاد گرا کے پھر، 

انسانوں کو وحدت کی ترکیب بتائی ہے

جہاں تک اس ملک کے نظام تعلیم کی بات ہے یہ کسی مسلمان کا نہیں بلکہ ایک انگریز لارڈ میکالے کا بنایا ہوا نظام ہے ، جس نے یہ نظام متعارف کروانے کے بعد برصغیر سے واپسی پہ اپنے بڑوں کو آگاہ کیا کہ میں ایسا نظام دے کر آیا ہوں کہ کئی سال یہ ہمارے غلام رہیں گے۔ ریاستِ مدینہ کا نظامِ تعلیم تو کسی انگریز کا نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بنایا گیا نظام ہے۔ اسلام جہاں مذہبی تعلیم پہ زور دیتا ہے وہیں دنیاوی علوم کو بھی ضروری قرار دیتا ہے، فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اس سے دنیاوی علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کو تعلیم اور تعلیمی سہولیات مہیا کرے۔جبکہ ہمارے ملک کی موجودہ صورت حال سب کے سامنے ہے۔

آئے دن بڑھتے ہوئے جرائم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس ملک میں عدالتی نظام انتہائی ناقص ہے۔ قانون غریب کے لیے ہے اور امیر امارت کے مزے لوٹ رہےہیں۔ جبکہ ریاستِ مدینہ کے خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کا قانون غیروں نے لے کر عروج پایا۔

اس ملک کے معاشرے میں آج ہر کسی کی خواہش ہے کہ معاشرے سے برائی کا خاتمہ ہو، لیکن میں برائی نہ چھوڑوں۔ جبکہ نبیء رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ معاشرہ قائم فرمایا کہ جس میں سب ایک دوسرے سے الفت و قربت رکھتے تھے، دنیا کو پیغام دیا کہ اگر امن کی منزل کو پانا چاہتے ہو تو عدل و انصاف اور مساوات کی شاہراہوں سے گزرنا لازم ہے۔آج ہمارے وزیراعظم اقلیتوں کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں بالکل کرنی چاہیے مگر یہ تو دیکھیں کہ کیا اکثریت کو حقوق مل گئے؟

اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے نام پہ قائم کردہ ریاست میں اسلام کا نفاذ قائم نہیں ہے اور اس جرم میں ایک عام شہری سے لے کر حکمران تک سب شریک ہیں۔ اسلام کا نفاذ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ نسلِ نو کو اسلامی اصول اور اسلامی نظام کی اصل روح سے آشنا کر دیا جائے۔ میں اس پر ہی گفتگو ختم کرتاہوں

اب کیا لکھیں ؟ہم کاغذ پر اب لکھنے کو کیا باقی ہے؟

جواب چھوڑ دیں