ابھرنا ہے تو اللہ کے آگے جھکنا ہے

اس میں کوئی شک نہیں اسلام نے اس بات پر کوئی پابندی نہیں لگائی کہ اسلامی مملکت کا سربراہ کیا کہلائے گا۔ اگر قید ہے تو فقط اتنی کہ جو بھی حکمران ہوگا اس کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اللہ کو حاکم اعلیٰ مانے۔ اللہ کے لائے ہوئے دین کے مطابق خود بھی زندگی بسر کرے اور قوم کو بھی اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے قانون پر چلنے کی نہ صرف تاکید کرے بلکہ ہر وہ عمل، خواہ وہ اجتماعی ہو یا انفرادی، اگر اللہ کے لائے ہوئے دین کے مطابق نہیں ہو تو اس کی نہایت سختی کے ساتھ سر کوبی کرے اور اپنی مملکت میں اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک کے کسی بھی گوشے میں کوئی ایسا کام نہ ہو رہا ہو جو اللہ اور اس کے رسول کا نہ پسندیدہ ہو۔

قرآن میں صاف صاف حکم دیا ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت فرض ہے۔ اگر اتنی استطاعت ہو کہ کسی ظالم حکمران کواس کے عہدے سے ہٹا کر کسی اللہ کے ولی کو حاکم بنایا جا سکے تو ایسا کرنے کی اسلام مکمل اجازت دیتا ہے، جس کی سب سے اعلیٰ مثال امامِ عالی مقام، نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت امام حسین (رض) کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جنھوں نے یزید کے خلاف تلوار محض اس لئے بلند کی کہ اس کا ذاتی کردار اسلام کے احکامات کے برعکس تھا۔

اسلام میں شورائی نظام ضرور ہے لیکن وہ مغربی طرز کی شورائیت کے سخت خلاف ہے۔ مغربی طرز حکومت میں اصل حاکم اعلیٰ عوام ہوا کرتے ہیں۔

مغربی جمہوری نظام اور اسلام کے حقیقی نظام میں زمین و آسمان کے فرق کے باوجود ہم نے اُس خطہ زمین میں جس کو حاصل ہی اس لئے کیا تھا کہ وہاں اللہ اور اس کے رسول کے مطابق قوانین وضع کئے جائیں گے، اللہ کے احکامات سے انحراف کرتے ہوئے مغرب کے انسانوں کے تراشیدہ آئین و قوانین کو گلے سے لگا لیا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آیا ہم گھر کے ہیں یا گھاٹ کے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے کتنی سچی بات کہی تھی کہ

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

اللہ سے بغاوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو ہم جمہوری بن سکے اور نہ ہی اللہ کے نائب۔ یہ ویسا ہی معاملہ ہے جس نے “خلافت” کو ملوکیت میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا اور پھر ملوکیت نے بادشاہت، سلطانیت اور شہنشاہیت کا روپ دھار لیا تھا۔ اسلامی تاریخ کے جتنے میں بادشاہ، سلطان اور شہنشاہ گزرے ہیں کیا وہ مسلمان نہیں تھے ؟اور کیا ان کے ادوار میں جو بھی قوانین مروج تھے، وہ سب کے سب غیر اسلامی تھے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان ادوار میں تقریباً سارے قوانین اسلامی ہی ہوا کرتے تھے، لیکن کیونکہ ان کی ذاتی زندگیاں اسلامی احکامات کے بر خلاف ہوا کرتی تھیں اس لئے وہ اپنے، عمائدین سلطنت اور اپنے محکمہ جاتی معاملات میں اللہ کے احکامات سے زیادہ اپنی “میں” کے غلام بن کر رہ گئے تھے، جس کی وجہ سے عدل و انصاف کے دہرے معیار بنے اور پھر آہستہ آہستہ ہر طاقتور اپنے سے کمزور پر غالب آتا گیا اور اس طرح پوری دنیا میں مسلمان اور اسلام ایک مذاق بن کر رہ گیا۔

اب بھی دنیا میں 50 سے بھی کہیں زیادہ ایسے ممالک ہیں، جہاں نہ صرف مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے، بلکہ ان کے سارے حاکمین مسلمان ہی ہیں، مگر ان کی ذاتی زندگی اسلام سے بغاوت پر ہے، اس لئے وہاں اسلامی قوانین نہیں “میں” کی حکمرانی ہے، جس کی وجہ سے ہر ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی حکومت ہے، وہاں ہر معاملے میں قوانین کے دہرے، بلکہ دقیانوسی معیارات ہیں، جس کی وجہ سے عام سطح پر بے چینی کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے۔

پاکستان میں دیگر اسلامی ممالک سے کہیں زیادہ بے چینی اس لئے پائی جاتی ہے کہ یہاں 1973 کا آئین و قانون تو کچھ اور کہتا ہے، لیکن حکمرانوں اور طاقتور حلقوں کا طرزِ عمل اس سے کہیں مختلف ہے۔ ویسے تو 1973 کا آئین اسلامی اصولوں کو سامنے رکھ کر بنانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ،لیکن دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس میں بھی اللہ سے زیادہ “میں” کا دخل ہے اور یہ وہ زہر ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام ہوں، سیاسی پارٹیاں ہوں، مذہبی حلقے ہوں یا مقتدرہ، سب کے سب آدھا تیتر، آدھا بٹیر بنے نظر آتے ہیں۔ طرزِ حکومت جمہوری بھی چاہتے ہیں، لیکن اس میں “اسلامی” کا تڑکا بھی لگاتے ہیں۔ عوام کی رائے سے حکومت کی تشکیل بھی کی جاتی ہے لیکن راولپنڈی کی پیوندکاری بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اظہار رائے کے قائل بھی ہیں لیکن مقتدرہ کے آگے بولتے ہوئے زبان پر چھالے بھی پڑجاتے ہیں۔ انصاف بھی درکار ہے لیکن صرف اپنی پسند کا ورنہ عدالتیں اور جج سب کے سب سازشی و غدار قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم اصل میں کیا ہیں؟ یا کیا بننا چاہتے ہیں؟ اس کا علم ہم میں سے شاید کسی کو بھی نہیں۔

الیکشن کمیشن کوئی آج سے تو قائم نہیں، ایک عرصہ دراز سے سے قائم ہے اور اس کو جو بھی اختیار تفویض کئے گئے ہیں، وہ بھی کل کی بات تو نہیں۔ یہی الیکشن کمیشن نہ جانے کس کس کے ہاتھ پاؤں باندھتا رہا؟ کس کس کو نااہل قرار دیتا رہا؟ اور کس کس کے گلے کی ہڈی بنا رہا ؟ لیکن یہ پھر بھی موجودہ حکومت کی نظر میں بہت حسین و جمیل سمجھا جاتا رہا لیکن اچانک موجودہ حکومت کو پتہ چلا کہ اس کے اختیارات تو بہت ہی زیادہ وسیع اور خود مختارانہ ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے پر کاٹے جائیں۔

اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ الیکشن کمیشن کے پنکھ زیادہ بڑے بڑے نظر آنے لگے اس کا اندازہ اس خبر سے خوب اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے بطور چیئرمین تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار اور تحریک انصاف کے سابق عہدیدار اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت کے حوالے سے دیے گئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا ہے۔ بطور پارٹی چیئرمین عمران خان نے عدالت عظمیٰ میں اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت کے حوالے سے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کردی ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ حنیف عباسی بنام عمران خان کیس میں عدالت عظمیٰ نے قواعد طے کر دیے تھے کہ قانون کی نظر میں الیکشن کمیشن کوئی عدالت یا ٹریبونل نہیں۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ سنگل بینچ کا 18 جولائی 2018 کا چیمبر آرڈر بھی قانون کی نظر میں درست نہیں، الیکشن کمیشن آرٹیکل 175 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے اور کمیشن کا 12 دسمبر 2019 کا حکم غیر قانونی ہے”۔

بات وہیں آکر ختم ہوتی ہے کہ جہاں بھی “میں” پر کوئی ضرب پڑ رہی ہوتی ہے، وہاں طاقتور حلقے، خواہ ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو، حرکت میں آجاتے ہیں اور پھر عدل، انصاف اور قانون کی پاسداری کے سارے نظریات بدل جایا کرتے ہیں۔ یہاں بھی وہی بات سامنے آ رہی ہے کہ کیس کا تعلق پی ٹی آئی کی “فارن فنڈنگ” سے ہے جس میں سیدھی سی بات اتنی ہے کہ “رسیدیں” دکھائی جائیں لیکن جب بات پی پی اور نواز کی “رسیدیں” دیکھنے کی تھی تو ہر منظر صاف اور شفاف نظر آ رہا تھا لیکن جب اپنی باری آئی تو رسیدیں چھپانے کیلئے اختیارات کو محدود کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔

بات بہت سیدھی اور سادی اور بقول اقبال یہ ہے کہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی”۔ ہم قیامت تک جمہوری بن ہی نہیں سکتے یاتو “خلیفہ” کی طرح صرف اور صرف اللہ کی حاکمیت کو مانتے ہوئے اس کے آگے سجدہ ریز ہو سکتے ہیں یا پھر اس سے بغاوت پر اتر کر ظالم اور جابر حکمران کی صورت میں خود ہی خدا بن کر بیٹھ سکتے ہیں۔ ان دونوں طرز حکومت کے علاوہ ہم کبھی کوئی اور راستہ اختیار ہی نہیں کر سکتے اس لئے پاکستان کے مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہی ہوگا کہ وہ سجدہ ریز ہو جانے میں اپنی عافیت دیکھتے ہیں یا ابلیس کی طرح سرکشیدگی کا شکار ہوکر راندہ درگاہ اور مردود بن کر تباہ و برباد ہونا چاہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں