ایک روٹی کا سوال ہے بابا!

ملک میں آٹے کا بحران شدید تر صورت اختیار کر چکا ہے۔لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے روٹی روٹی کو ترس گئے ہیں۔روٹی کپڑا مکان تو عوام کا بنیادی حق ہوا کرتا ہے، خصوصاً شکم سیری تو ہر شخص کی اولین ضرورت اور حق ہے اور موجودہ دورِ حکومت میں عوام کے اسی بنیادی حق کا استحصال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مدینے کی ریاست کے سبز باغ دکھانے والوں نے عوام کو بھوک و افلاس کے اندھیروں میں دھکیلنے کی تیاری پکڑ لی ہے۔شاید ان کو معلوم نہیں کی مدینےکی ریاست کے جانشین تو دریائے فرات کے کنارے ایک کتے کے بھوکے مرنے پر بھی خود کو خدا کے حضور جوابدہ سمجھتے تھے، اور یہاں تو اشیا خوردونوش انسانوں کی پہنچ سے ہی دور ہوتی جارہی ہیں۔ جس عوام کو شکم سیری کی فکر لاحق ہو جائے ، وہ ملک و ملت کیلئے کیسے سودمند کام سرِانجام دے سکتی ہے؟ مدینے کی ریاست کا خواب تو کب سے چکنا چور ہوا ؟ اب تو لوگوں کو زندگی گزارنے کے لالے پڑ چکے ہیں۔

پاکستان جیسے زرعی ملک میں آٹے کی قلت کا ہونا حکمرانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مہنگائی کی مستقل بڑھتی ہوئی شرح نے پہلے ہی عوام کا خون چوس لیا ہے اور اب آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی قلت نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ یہ بات ایک عام آدمی پر بھی عیاں ہو چکی ہے کہ موجودہ حکمران ملکی معیشت کو ڈبونے سے نہیں بچا سکتے۔ اب کھوکھلے دعوئوں سے یہ عوام بہلنے والی نہیں ہے۔ عوام اقدامات کی منتظر ہے۔

حکومت فوری طور سے ایسے کرپٹ عناصر کو گرفت میں لائے جو ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، ورنہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے اور پھر حکومت کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں رہے گا۔

جواب چھوڑ دیں