حقیقت پر نظر کرتی ہوں جب دنیائے فانی کی

آج بھی ہمارا دل حق کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ کسی نہ کسی جستجو اور کسی نہ کسی سچ کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ مگر پھر بھی ہم دنیا کی سرگرمیوں میں اتنا محو رہتے ہیں کہ ہمیں اپنی ہی عمر رواں کی فکر لا حق نہیں ہوتی اور یوں ہم لوگوں کی خاطر ، لوگوں کے لئے ، کسی نہ کسی دنیا وی نشے میں اپنے قیمتی وقت بلا مقصد ضا ئع ہی کر رہے ہوتے ہیں ۔ اچانک کوئی بڑا حادثہ ، کوئی زمینی یا آسمانی آفت جیسے زلزلہ ، طوفان، آتش فشاں ، جان لیوا گرمی یا سردی یا جنگلات کی آگ اور انسانی کوششیں ، کوئی سونامی یہ حقیقت واضح کردیتا ہے کہ ایک حقیقی قوت بالا تر اور اتنے نزدیک ہے کہ جس کی طاقت کا کوئی اندازہ تک نہیں کرسکتا ۔

ٹڈی دل کا حملہ، نہ رکنے والی بارشیں ، قحط سالی اور برف باری یہ سب قدرتی مظاہر ہمیں خالق سے قریب کرتے اور اسکی مزید صفات کو اجاگر کرتے ہیں ۔ ان سب کے باوجود رب نے دنیا اتنی حسین اور پر کشش بنائی ہے کہ جو یہاں آگیا وہ واپس جانا نہیں چاہتا کیونکہ رشتے ناطے ذمہ داریاں ، رعنائیاں لذیذ کھانے اور حسین دلکش مناظر ، انواع و اقسام کی مخلوق اور ہم سفر بچے والدین سب میں اتنی کشش ہے کہ کسی کو کھونا نہیں چاہتا ، مگن رہتا ہے ۔

الحمد للہ مسلما ن ہے تو خبر رکھتا ہے کہ یہ دنیا مسافر خانے کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ایک مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے ۔ اچانک کسی کی موت کی اطلاع ملتی ہے ۔ کوئی عزیز، رشتہ دار، پڑوسی ، دوست ، کولیگ ، بچہ ، بوڑھا جس کا آخری دیدار کرتے ہیں ۔ تو حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہر کسی کا یہی انجام ہونا ہے چند لمحو ں کے لئے ایمان عروج پر ہوتا ہے ہر چیز بے کار نظر آتی ہے ۔ اس قیمتی مگر فانی دنیا کی حقیقت سمجھ آتی ہے ۔ اس کے سامنے دنیا کی ساری لذتیں ہیج ہو جاتی ہیں گو یا

حقیقت پر نظر کرتی ہوں جب دنیا ئے فانی کی 

بہاریں خاک میں مل جاتی ہیں سب زندگانی کی 

پھر خیال آتا ہے واقعی دنیا میں تو میں چند لمحوں کا مہمان ہوں مجھے ادب، تمیز، اخلاق سے مہذب زندگی گزارنی چاہئے کیونکہ 

دنیا نہ بسا دل میں کہ دنیا کی حقیقت 

مچھر کے کسی پر کے برابر بھی نہیں ہے

واقعی یہی حقیقت ہے ہم بار بار بھٹک جاتے ہیں ۔ بھول جاتے ہیں اسی لئے ہمیں اپنا واپسی کا سفر یاد ہی نہیں رہتا گزرتا ہوا ہر لمحہ ہمارا امتحان ہوتا ہے، جس میں ہمیں پاس ہی ہونا ہے اور ہم وہی بھول جاتے ہیں ۔ واقعی ہم زندگی میں کتنی کتابیں پڑھتے سمجھتے ہیں ، زبانیں سیکھتے ہیں ۔ ہر سال ایک کتابوں کا نیا سیٹ ہو تا ہے جسے امتیازی نمبروں کے ساتھ امتحان دے کر پاس بھی ہو جاتے ہیں ۔ زندگی میں کتنی کتابیں پڑھتے ہیں یاد بھی نہیں ہوتیں بسااوقات لوگ اتنی کتابیں لکھ بھی لیتے ہیں جو انہیں یا د بھی نہیں ہوتیں کہ کتنی لکھیں ؟ مگر زندگی بھر کی ایک ہی کتاب “قر آن” جو اپنے معنی مفہوم کے لحا ظ سے کبھی نہیں بدلتی ، رہنمائی ہے ہدایت ہے ، بار بار پڑھنے، تدبر کرنے، سمجھنے، عمل کرنے اور پھیلانے کی ویسی کو شش کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے درسی کتابوں کی کامیابی کے لئے کرتے ہیں ۔ دنیا میں ہزاروں کامیابیوں کے باوجود کتاب زندگانی سے نرے ناواقف ہوتے ہیں ۔ اسی لئے کسی موت کی حقیقت کو دیکھ کر سہمے سہمے رہتے ہیں اور فکر مند بھی کہ میری موت کیسے ہوگی اور آگے کامیابی ! ہر بندہ جائز لے کیا ویسی ہی ہے زندگی؟ پھر رب کو اس کا پریکٹیکل دکھانا تھا ، نمونہ چھوڑ کر آنا تھا تو ہم نے کیا کیا ؟ ہم تو واقعی نمونہ بن گئے مگر کیسا؟ میرے دل سے تو یہی دعا نکلتی ہے کہ

حا ضر ہیں تیرے دربار میں ہم 

اللہ کرم ، اللہ کرم

ساتھیوں پرسوں برف میں جمی ہوئی، اکڑی ہوئی ایک بزرگ کی برف سے نکالتے ہوئے مردہ باڈی دیکھی جو ہاتھ جوڑے سکڑا ہوا برف میں دھنستا ہوا ملا ۔ دل پسیج گیا کہ یہ ہے دنیا ئے فانی کی حقیقت نہ زیادہ گرمی برداشت کرسکتا ہے اور نہ ہی سردی ، اللہ کی مہربانی ہے ، مہلت زندگی ہے جب تک رکھے جیسا رکھے!

اس رب کی مرضی بس اذان سے نماز کے وقفے میں ہمیں اس واحد کتاب ہدایت سے رہنمائی لے کر جینا ہے ۔ وہ تو صراط مستقیم دکھاتی ہے ۔ زمانہ سجھاتا ہے اور آ گے بڑھا تا ہے ۔

اپنی زندگی کی کشتی کو نہ خود پانی میں ڈبونا ہے ، نہ گناہ کرکے سورا خ کرنا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ خود ڈوب جائے بس حوادث زمانہ سے عبرت لیتے ہوئے مرمت کے کام کو جاری رکھتا ہے تو بہ استغفار کے کھلے درسے گذر کر کتاب ہدایت سے جڑ کر اور اوروں کو جوڑ کر اپنا کور س مکمل کرنا ہے اور کامیابی کی یقینی کوشش اور یقین کے ساتھ دعا ئوں کا اہتمام کرنا ہے ۔ بدعات اور خرافات سے دور رہنا ہے ۔ عزت صرف اللہ دینے والا ہے، لہٰذا اس کی عطا کی ہوئی عزت کا شکر ادا کرتے رہنا اور اس کا حق ادا کرنا ہی دراصل زندگانی کا مشن ہے ۔ اس مشن کو مشین بن کر ادا کریں۔ اللہ جزائے خیر دے اور اپنی معرفت عطا فرمائے ۔ آمین

جواب چھوڑ دیں