شرم تم کومگر نہیں آتی

کوئی کہتا ہے کہ سیاست اندھی ہوتی ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ سیاست بے رحم ہوتی ہے۔ مجھے معلوم نہیں سیاست کے اندھے یا بے رحم ہونے میں کتنی صداقت ہے ؟ لیکن اتنا ضرور کہونگا کہ سیاست اندھی، بہری، لنگڑی، لولی یا بے رحم ہو یا نہ ہو، سیاستدان سارے کے سارے بے شرم ضرور ہوتے ہیں۔

ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو میرا اس طرح “بے شرم” کہنا کچھ زیادہ سخت لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس لفظ سے کوئی اور سخت لفظ ملا ہی نہیں جو میں کہیں سے ڈھونڈ کے لاتا اور ان کی توصیف بیان کر پاتا۔ ہوا یوں کہ جب میں نے اس لفظ کو سیاست دانوں کیلئے استعمال کیا تو یقین مانے وہ شرما کر میرے پاس لوٹ کر آ گیا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر مجھ سے کہنے لگا کہ بے شک مجھ “بے شرم” کو جب بھی کسی کی جانب روانہ کرتے ہیں تو میں خوشی سے اس لئے پاگل ہو جاتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے جیسا ہی لگتا ہے لیکن کم از کم میری اتنی توہین تو مت کریں کہ مجھے کسی سیاستدان کی جانب اچھال دیں۔ کیا آپ کے پاس ان کیلئے کوئی اور گالی نہیں یا میں ہی رسوائی اٹھانے کیلئے رہ گیا ہوں۔

پہلے تو مجھے “بے شرم” کا شرمانا سمجھ میں نہیں آیا لیکن جب مجھے بے شرم کا شرم سے پانی پانی ہوجانا سمجھ میں آیا تو میں خود ہر جگہ سے خود پانی پانی ہو کر بہنے لگا۔ اس بہنے کو بڑی مشکل سے روک تو لیا لیکن اس وقت سے تا دمِ تحریر میں دنیا بھر کی ساری لغتیں کھول کر اس لفظ کی تلاش میںہوں جو میں سیاستدانوں پر چسپاں کر کے انھیں احساس دلا سکوں کہ وہ حقیقتاً کہاں تک”وہ” ہیں اور لوگ ان کے متعلق کس کس زاویہ ہائے غلط نگاہیں سے دیکھتے ہیں۔

جھوٹ کون نہیں بولتا لیکن جو بھی بولتا ہے وہ اس “جھوٹ” میں اتنا سچا ضرور ہوتا ہے کہ مرتے مر جاتا ہے، اپنے جھوٹ پر قائم و دائم رہتا ہے۔ دھوکہ دہی کی عادت بہت لوگوں کو ہوتی ہے لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جن کی عادت میں بھی یہ بیماری ہوتی ہے وہ قیامت تک اسی فعل بد کا شکار رہتے ہیں۔

ایسے تمام لوگ جو جھوٹ، مکرو فریب، دھوکے اور وعدہ خلافی پر پتھر کی لکیر کی طرح کھنچے نظر آتے ہیں ان سے دنیا نہ تو کسی قسم کا ڈر اور خوف کا شکار رہتی ہے اور نہ ہی ان کی مکر و فریب پر شکوہ سنج اس لئے کہ وہ دنیا کے سامنے لاکھ منفی ہی کیوں نہ ہوں، ان کا کردار ہر فرد و بشر کے سامنے الم نشرح ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ اسی طرح رویہ رکھتے ہیں جیسے ان کی شہرت ہوتی ہے۔

اگر میں کہوں کہ وہ تمام افراد جو “بے ایمانی” کے کام کرتے ہیں وہ اپنے کام (کار و بار) میں نہایت دیانتدار ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ ایک زمانہ پاگل پاگل کا نعرہ لگاتے اور تالیاں پیٹتے میرے پیچھے اس بری طرح پڑ جائے کہ مجھے “گدو بندر” کی سیر کرا کر ہی دم لے لیکن یقین مانے ہر وہ فرد جو انتہائی بے ایمانی کا کام کرتا ہے وہ اپنے اس بے ایمانی کے کام میں اتنا دیانتدار ہوتا ہے کہ ایمان داروں کی ایمانداری آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر منھ پر دوپٹا ڈالتی نظر آنے لگتی ہے۔

بات یقیناً حلق سے نیچے اتر نے والی نہیں ہے لیکن میں کوشش کرونگا کہ کہ بے ایمانوں کی ایمانداری کا ایک بہت معمولی سا واقعہ سنا کر آپ کو اس بات پر قائل کر سکوں بے ایمانوں سے ایماندار میں نے کم از کم پاکستان میں آج تک کسی کو نہیں پایا۔

بات یوں ہے کہ شمالی علاقوں کی سیر کیلئے میں اور میرا ایک دوست روانہ ہوا۔ مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میرا دوست سیر کے بہانے کچھ اور بھی ارادہ رکھتا ہے۔ سیر کے دوران میں نے اس کو اپنے کسی پرانے یار غار سے ممنوعہ بور کی گن سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے دیکھا تو میرے کان کھڑے ہو گئے۔ کچھ لو دو کے بعد رقم بھی طے ہو گئی اور یہ بات بھی کہ اسے وہ گن اسکے اپنے شہر اور اپنے گھر میں چاہیے۔ معاہدہ ہوگیا۔ پہلے تو میرے پسینے چھوٹ گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ راستے میں کئی پوسٹیں ایسی آتی ہیں جہاں سخت چیکنگ ہوتی ہے لیکن جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ گن ہماری واپسی کے ساتھ ہی اسکے گھر پہنچ جائے گی تو جان بچی ہے لاکھوں پائے والا جملہ میرے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔ رقم ادا کر دی گئی جو کہ بڑی ٹھیک ٹھاک تھی۔ نہ کوئی لکھت ہوئی نہ ہی کوئی پڑھت۔ جس سے سودا ہوا وہ تو رقم لے کر چمپت ہو گیا لیکن میں اور میرا دوست کئی دن تک سیر سپاٹے میں مصروف رہے۔ میرے دوست کی گاڑی کیا تھی، جدت کا شاہکار تھی۔ نہایت تیز رفتار، پائیدار اور آرام دہ۔ واپسی پر میں پریشان تھا کہ جس سے گن کی بات چیت ہوئی تھی وہ تو پھر دوبارہ نظر ہی نہیں آیا تھا تو کیا ادا کیا گیا پیسہ گیا۔ سارے راستے میں اپنے دوست کے کان کھاتا رہا کہ یار اتنا اندھا اعتماد بھی اچھا نہیں ہوتا کہ ایک خطیر رقم بغیر کسی لکھت پڑھت کسی کے حوالے کردی جائے مگر پورے راستے میرا دوست نہایت مطمئن اور پُر سکون ہی نظر آیا یہاں تک کہ دو دن کی مسافت کے بعد ہم گھر پہنچ گئے۔ اس رات میں نے اس کے گھر ہی قیام کیا۔ اگلی صبح میں نے اپنے دوست کو تھوڑا سا مضطرب پایا تو پوچھا کیا بات ہے۔ کہنے لگا کہ وہ تو کہہ رہا تھا کہ تمہاری گن تمہارے گھر پہنچنے کے ساتھ ہی پہنچ جائے گی لیکن اب تو ایک رات بھی گزر چکی ہے۔ کہیں واقعی مجھے دھوکا تو نہیں ہوا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا موبائیل جیب سے نکالا اور کسی کے نمبر ڈائل کئے۔ رابطہ ہونے پر اس نے گہرا سانس لیکر کہا کہ یار وہ۔۔۔ بس اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ جواب آیا۔ پاگل اپنی گاڑی کے نیچے گاڑی کے سائلنسر کے قریب تلاش کرو، ہم نے گن اسی کے ساتھ باندھ دی تھی۔ جاکر دیکھا تو گن تو ہمارے پہنچنے کے ساتھ کیا ہمارے ساتھ ساتھ ہی سفر کرتی رہی تھی۔

بے ایمانوں کی ایمانداری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ ہر کام وعدے اور دعوے کے مطابق ہوا اور شاید پوری دنیا میں ہر بے ایمانی کا کام ایمانداری کے اوج ثریا کو ہی چھوتا ہوگا جبھی ایسے ایسے علاقوں میں بھی اسلحے، چرس، ہیروئین اور اسمگلنگ کی دیگر اشیا کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں جہاں کسی گاڑی کیا، پیدل انسان کا گزر بھی ممکن نظر نہیں آتا۔

رشک کرنا تو نہیں چاہیے کہ یہ سارے کام فتنہ و فساد اور شیطان کے ہیں لیکن رشک کئے بنا بات بنتی دکھائی بھی نہیں دیتی۔ ایک جانب یہ فراڈیئے، دھوکے باز، بے ایمانی اور غیر قانونی کار و بار کرنے والوں کی اعلیٰ “ایمانداریاں” دیکھیں اور دوسری جانب ہمارے ایماندار سیاست دانوں کا کردار ملاحظہ کریں۔ جھوٹ، مکر، فریب اور دھوکا دہی ان کی رگ رگ میں اس طرح حلول نظر آئے گی جیسے سانپ کے کاٹ جانے کے بعد جسم کے پورے پورے تک زیر سرائیت کر جاتا ہے۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ قوم سے کئے گئے کسی بھی وعدے پو قائم رہ کر نہیں دیتے۔ ان کے وعدے اور دعوے ان پر سے ایسے پھسل جاتے ہیں جیسے کسی چکنے گھڑے پر ڈالا گیا پانی پھسل جایا کرتا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق الیکشن کمیشن نے ساڑھے تین سو سے بھی زیادہ ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی کی رکنیت محض اس لئے معطل کر دی ہے کہ انھوں نے آج کے دن تک اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے الیکشن کمیشن کے پاس جمع نہیں کرائے ہیں۔ ٹی وی کی شہ سرخیوں میں ایک ایک کی تصویر ان کے نام کے ساتھ مسلسل گردش کر رہی ہے لیکن آپ جب بھی انھیں دیکھیں گے ان کے چہرے بغیر کسی شرم و حیا کے گلاب کی طرح کھلے نظر آئیں گے۔ گلاب کے پھولوں کی طرح کھلے چہروں کی علامت کسی کی بے شرمی کی انتہا کو ناپنے کا وہ پیمانہ ہے جہاں لفظ “بے شرم” نہایت شرم اور غیرت کے ساتھ واپس آ جایا کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی ممبر کیلئے اس بے شرمی کا مظاہرہ نہ کرنے کا کیا جواز ہے۔ جب کسی کو کسی جرم کی سزا ملتی ہی نہیں ہے تو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ بلا ضرورت “شرمائے”۔

معطلی بھی کوئی سزا ہوئی اور وہ بھی پاکستان میں۔ رات دن نہ جانے کتنے وزیر، سفیر، پولیس کے اعلیٰ عہدیدار، بیوروکریٹ، اعلیٰ سول افسران اور بڑے بڑے اداروں کے ایم ڈیز معطل ہوتے اور بحال ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی گھریلو ملازم گلاس بھی توڑدے تو اسے ملازمت سے کھڑے کھڑے نکال باہر کر دیا جاتا لیکن قوم کے لیڈر، اسمبلی کے ممبران، سرکاری افسران، وزیر اور مشیران صرف “معطل” کر دیئے جاتے ہیں اور پھر یہی تعطل افراددوبارہ”بحال” ہو جاتے ہیں۔

شرم کسی کو بھی کسی غلط کام کرگزرنے پر نہیں آیا کرتی۔ غیرت مند کیلئے بے شک چلو بھر پانی بھی ڈوب مرنے کیلئے بہت ہے لیکن یقین مانے کہ ہمارے سیاست دانوں کیلئے تو بحرالکاہل بھی کم ہے۔ ان سب کی سزا معطلی نہیں برطرفی ہے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ کیا پاکستان میں کسی میں اتنی شرم و حیا ہے کہ وہ کسی سیاستدان کو برطرفی کی سزا کا مستحق قرار دسے سکے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں