گدھے چَرانے سے کتابیں چُرانے تک

حکمت ودانائی حکیم لقمان،دقیق وتشکیک سخنوری غالب ،رومانوی شاعری جان کیٹس،لغو اور زٹل گوئی امام دین گجراتی جبکہ گدھے کے گوشت کی کڑاہی لاہوریوں سے ایسے منسوب کر دی جاتی ہے جیسے کوئی ثواب کا کام ہو۔

اب تو یہ بات ضرب المثل بنتی جا رہی ہے کہ لاہور میں کتاب اور گدھے بکثرت پائے جاتے ہیں۔’’پائے‘‘ گدھے کے ہوں یا بکرے کے،میرا دوست کہتا ہے کہ کھاتے ہوئے کہاں تمیز رہتی ہے کیونکہ آموں کے بعد ’’پائے‘‘کھانے کے لئے انسان کو بدتہذیب ہونا پڑتا ہے ورنہ پائے بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔سنا ہے لاہور میں گدھے چَرانے کے بعد سب سے زیادہ کتابیں چُرائی جاتی ہیں۔

ایک بار اپنے ایک لاہوریے دوست سے پوچھا کہ چَرانا پسندہے کہ چُرانا تو کہنے لگا اب ہم نے مذکور دونوں کام حکومتوں پر چھوڑ رکھے ہیں۔حکومت کے سامنے تو عوام کی چالاکی بھی کام نہیں آتی،کیونکہ حکومتیں زیادہ تر عوام کو گدھابنا ہی لیتی ہیں جو بچ جائیں انہیں الّو بنا نے میں کون سی دیر لگتی ہے؟

کہتے ہیں کتابیں گدھے پر لاد نے سے وہ عالم نہیں بن جاتا مگر میرا ایک معصومانہ سوال ہے کہ اگر عالم کو ہی گدھے پر بٹھا دیا جائے تو گدھے کی طبیعت پر کوئی اثر پڑے گا یا پھر بھی وہ گدھا ہی رہے گا۔اور کوئی خوبی ہو نا ہو گدھے میں ایک خصوصیت ضرور ہوتی ہے کہ ایک بار گدھا بن جائے تو پھر ساری عمر گدھا ہی رہتا ہے بھلے اسے گل قند ہی کیو ں نا کھلائی جائے،کاش یہ خوبی انسانوں میں بھی ہو؟

چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سو کتابوں کے ساتھ محو سفر ہو جائیں،چین میں ہر ریلوے اسٹیشن پر ایک فری بک اسٹور قائم ہے، آپ ایک اسٹیشن سے اپنی پسندیدہ کتاب لیں،راستہ بھر مطالعہ فرمائیں اور منزلِ مقصود اسٹیشن پر واپس کردیں،میں نے ایک تقریب میں یہ مشورہ دیا تو ہال سے پٹاخ بلکہ زناٹے دار جواب آیا کہ’’اسٹیشن پر کولر کو تو زنجیر سے باندھ لو گے کتاب کو کیسے پابندِ سلاسل کروگے؟‘‘جواب میں پطرس بخاری یاد آگئے جنہوں نے اپنی اکلوتی کتاب’’مضامینِ پطرس‘‘کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’اگر آپ کو یہ کتاب کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے،اگرآپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوقِ مطالعہ کی داد دیتا ہوں،اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے،اب بہتر یہی ہے کہ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں‘‘

موبائل آنے کے بعد کتاب کہ اہمیت ویسے ہی کم ہو گئی ہے جیسے دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کی،اب تو بچے کتاب کو شجر ممنوعہ ہی خیال کرتے ہیں،اسمارٹ فون کے بعد تو بچے ایک ہی بک پڑھتے ہیں اور وہ ہے فیس بک،ویسے یہ فیس بک بھی عجب بلا ہے جس میں فیس کسی اور کا ہوتا ہے اور ’’بُک‘‘کوئی اور کر رہا ہوتا ہے۔

موبائل آنے سے قبل لوگ ’’حلقہ ادب‘‘کا اندازہ آنکھوں کے گرد پڑے ’’حلقے‘‘سے لگایا کرتے تھے ،اب ’’ہلکے ادب‘‘کا اندازہ مہنگے موبائل سے لگا لیا جاتا ہے۔’’ادب‘‘کے لئے قیمتی کتاب کا پڑھنا ضروری نہیں مگر ہلکے ادب کے لئے مہنگے موبائل کا ہونا ازحد ضروری ہے،کتاب سستی ہو یا قیمتی ہر دور میں اپنا اثر چھوڑتی ہے مگر عصر حاضر میں موبائل مہنگا نہ ہو تو منگیتر بھی چھوڑ جاتی ہے۔

کتاب چوری ہونے کی سب سے زیادہ خوشی شاعر یا مصنف کو ہوتی ہے،یہ واحد چوری ہے جس کے خلاف کوئی مقدمہ یا کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی بلکہ مصنف اور شاعر چور کو فون پہ پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ ’’کوئی ہور خدمت ساڈے لائق‘‘۔ویسے کتاب چوری کے خلاف بغاوت اور صدائے احتجاج کا استحقاق صرف عورتوں کا بنتا ہے کیوں کہ خواتین کا خیال ہے کہ مرد دل چراتے چراتے اب کتابیں بھی چرانا شروع ہو گئے ہیں۔

شاعر کی اگر کوئی کتاب چوری ہو جائے تو اسے یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں وہ شاعر تو چوری نہیں کرگیا جس کی غزلیں میں نے چرائی تھیں،ایسے شعرا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ

دوچار لفظوں کی ہیر پھیر ہوتی ہے

پھر اس کی نہیں اپنی غزل ہوتی ہے

لیکن یاد رکھئے سرقہ شاعری اور ہیر پھیر والی طوائف کچھ روز میں ہی ننگی ہو جاتی ہے،اس لئے چوری اور سینہ زوری تو چل سکتی ہے مگر چوری اور ہیرا پھیری کا چلنا مشکل ہوتا ہے۔ہمیشہ وہ شاعر وادیب کتب چوری پر نالاں ہوتے ہیں جو خود سرقہ پسند ہوں،خود کی سوچ اور فکر سے لکھی گئی کتاب چوری ہو جائے تو مصنف کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا کہ پھینکنے سے بہتر ہوا کہ چوری ہو گئی۔

کتب چوری پر رائٹر کے ساتھ ساتھ پبلشر بھی خوشی میں برابر کا شریک ہوتا ہے،ایک شاعر کی کچھ کتابیں چوری ہو گئیں تو وہ پھولے نہ سما رہا تھا کہ شکر ہے اس میں میرے سوا کسی اور کی کتابیں نہیں تھیں۔ ایسی خوشیوں پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب اضافی نوٹ کے ساتھ کتابیں واپس آجائیں کہ ایسی کتابوں کو گدھے پر لاد کر شہر بدر کردینا چاہئے یا گدھے کے چوری ہونے کی بھی دعا کرنی چاہئے۔

دعا کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ کبھی کبھی قبولیت کا بھی وقت ہوتا ہے۔کیونکہ آجکل کتاب کی اہمیت ہو نہ ہو’’گدھے‘‘کی قیمت ضرور ہے۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ ’’اہمیت‘‘ چاہتے ہیں کہ ’’قیمت‘‘۔اہمیت کے لئے کتاب اور گدھا بننے کے لئے ضروری نہیں گدھا بنا ہی جائے،کچھ لاگ ہو بھی سکتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں