جہادبڑی نعمت

اس حقیقت کو سب پاکستانی تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ مسئلہ کشمیر کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل موجود نہ ہو۔اور بحیثیت مسلمان میرا یہ ایمان ہے کہ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل قران پاک میں موجود نہ ہو۔جب کفار کا ظلم حد سے بڑھ جائے تو اس کا حل قرآن میں جہاد بتایا گیا ہے۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہم لوگ جہاد کا متبادل راستہ ڈھونڈنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ امن سے حل ہو جائے اور قرآن پاک بتاتا ہے کہ کفار بدترین جانور ہیں۔ بد ترین جانور کبھی امن نہیں چاہیں گے۔آج نہیں تو کل کشمیر آزاد ہوگاانشاء اللہ۔

اس آزادی کی وجہ جہاد ہی بنے گا کیوں کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔جب ایک کتا پاگل ہوجاتا ہے تو وہ ہر دوسرے شخص کو کاٹنے لگتا ہے اور اگر آپ لوگ اس کتے کو جان سے مارنا ظلم سمجھتے ہو تو آپ یقیناً بہت بڑے احمق ہیں۔ کیوں کہ انسانوں کے دفاع میں اس کتے کو جان سے مارنا جائز ہے۔کچھ یہی معاملہ کشمیر کا ہے۔ کشمیر کے مسلمانوں کو بچانے کے لیے جو کافروں کو مارنا ظلم سمجھتا ہے وہ میری نظر میں احمق ہے۔ کیوں کہ ایک مظلوم مومن کو بچانے کے لیے لاکھوں ظالم کافروں کو مارنا بالکل بھی غلط نہیں اور میرا وہی نعرہ ہے جو صحابہ کرام کا تھا۔کافروں کا ایک علاج الجہاد ولجہاد ۔

حدیث ہے کہ ” جہاد قیامت تک جاری رہے گا انشااللہ ” لیکن ہم لوگ چاہتے ہیں بغیر جہاد کے کشمیر آزاد ہوجائے۔بغیر جہاد کے ہم لوگ امن و سکون سے رہ لیں۔ اگر جہاد کے بغیر مومنو ںکی ترقی ممکن ہوتی اور بغیر جہاد کے اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لایا جاسکتا تو اللہ تعالیٰ جہاد فرض ہی نہ کرتا۔

قرآن میں بار بار جہاد کا ذکر نہ آتا۔ حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو میرے نزدیک امن کا پرچم محض ایک ڈھال ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم لوگ زندگی سے پیار کرنے لگ گئے ہیں۔ ہم لوگ مرنے سے ڈرتے ہیں کہیں کافروں کے ہاتھوں مارے نہ جائیں۔ ہم جانی اور مالی دونوں نقصان سے ڈرتے ہیں۔جب کہ جان کا مالک اللہ ہے اور جہاد اللہ کے لیے ہے۔کشمیر کے حالات کسی سے بھی چھپے نہیں ہیں۔ سب جانتے ہیں کشمیر میں کیا ہورہا ہے؟ فلسطین میں کیا ہورہا ہے اور برما میں کیا ہورہا ہے؟ آج نہیں تو کل کہیں نہ کہیں سے جہاد منظر عام پر آ کر ہی رہے گا۔

جہاد ایک نعمت بھی ہے۔اس نعمت سے اگر ہم لوگ فیض یاب نہیں ہوتے تو ہم بد نصیب ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اپنی راہ میں لڑنے کا موقع نہیں دیتا۔

کیا تم کو ذرا بھی خیال ہے جب بروز محشر مظلوم مسلمان تمہارا گریبان پکڑ کر کہیں گے” یا اللہ ہم پر ظلم ہورہا تھا اور یہ لوگ بس موت کے ڈر سے ہم پر ظلم ہوتےہوئے دیکھتے رہے۔

یا اللہ ہماری عزتیں محفوظ نہیں تھی اور یہ اپنی جان بچانے کی خاطر کفار سے صلح کا منصوبہ بناتے رہے، تو کیا جواب دو گے؟بے شک اس پر ہماری بہت بری پکڑ ہوگی۔جہاد کرو۔قلم سے۔مال سے۔جان سے۔فرض ادا کرو۔جس طرح نماز،روزہ فرض ہے جہاد بھی فرض ہے۔فرض کا منکر کافر ہے۔جو جہاد کا منکر ہے وہ کافر ہے۔

جواب چھوڑ دیں