کیا کتے غراتے رہیں گے؟

آوارہ کتے کب نہیں ہوا کرتے تھے۔ گلیوں میں، سڑکوں پر، کھیتوں میں، کھلیانوں میں، گاؤں دیہاتوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں۔

نہ صرف یہ کتے ہر جگہ بے شرمی کا مظاہرہ کرتے پھرتے تھے بلکہ اگر ان کی عیاشیوں میں کوئی رکاوٹ ڈالے تو پھر یہ بھنبھوڑ بھی لیا کرتے تھے۔

یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ وہ کونسا علاقہ، چوک، چوراہا اور گلی کوچہ ایسا ہے جہاں یہ نہ پائے جاتے ہوں اور عیاشی میں رکاوٹ آجائے تو یہ نہایت دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کاٹنے اور بھنبھوڑ نے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

پاگلوں کی اور بات ہے کہ ان کو اپنا ہی کچھ ہوش نہیں ہوتا تو وہ دوسرے کا کیا خیال کریں لیکن ہوشمند کتے کتنے ہی دلیر دکھائی دیتے ہوں وہ اندر سے نہایت بزدل ہوتے ہیں اور اگر کوئی ڈر جانے کی بجائے ڈٹ جائے تو پہلے وہ اپنی آنکھیں جما کر اور کان کھڑے کرکے ڈٹ جانے والے کو بہت غور سے دیکھتے ہیں کہ ڈٹ جانے والا واقعی ڈٹ ہی گیا ہے یا نہیں اور جب کتوں کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ بھی ”کتےپن “ پر اتر آئے گا تو ان کے پاس بھی ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کو دبا کر وہ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ ہوتی ہے ان کی دم۔

زندگی میں ایک بار نہیں باربار ڈھیٹ بن جانے کا مظاہرہ کرکے بظاہر نظر آنے والے کتوں کا گیڈر بن جانا دیکھا ہے اور انھیں اپنی اپنی دمیں دبا کر بھاگتے پایا ہے۔

کتوں کے سامنے ڈٹ جانا کوئی آسان بات نہیں اس لئے کہ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں پاگل کون سا ہے لیکن یقین مانیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل بھی نہیں۔ اگر ان کی دل دہلا دینے والی بھونک سے آپ پلٹ کے بھاگنے لگے تو کسی بھی صورت آپ ان ” کتوں “ سے نہ تو تیز بھاگ سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے اپنے ہاتھ پاؤں بچا سکتے ہیں۔ آپ کے ڈرتے ہی کمزور سے کمزور کتا بھی شیر بن جاتا ہے اور پھر نہ صرف انسان لرزنے کے بھی قابل نہیں رہتے بلکہ آپ خود بھی ہلنے جلنے کے قابل نہیں رہتے بلکہ اگراسپتالوں میں ویکسین میسر نہ ہو تو دوسروں کو بھنبھوڑنے اور کاٹنے والی کیفیت کا شکار ہو کر دارِ فانی ہی سے کوچ کر جاتے ہیں۔

کچھ تو ہوتے ہی ”کتے“ ہیں اس لئے آپ اپنی اذیت کی شکایت بھی ان کے کسی بڑے سے نہیں کر سکتے لیکن کچھ کتے ایسے بھی ہیں جو کتوں جیسے نظر تو نہیں آتے بلکہ شکل و صورت کے اعتبار سے اپنے جیسے ہی لگتے ہیں لیکن ان کی خصلت حقیقی کتوں سے بھی زیادہ خونخوار ہوتی ہے۔ ایسے کتے سارے کے سارے پاگل ہی ہوتے ہیں لیکن دنیا نہ تو ان کو پاگل سمجھتی ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی ڈاکٹر اس بات کی جرات کر سکتا ہے کہ ان کو پاگل قرار دے کیونکہ ڈاکٹرز ہوں یا عام عوام، اس بات کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ان کی جانب کوئی شک کی نگاہ سے بھی دیکھ لے تو وہ اسے کاٹ کھانے میں لمحہ نہیں لگاتے۔

اس قسم کے پاگل کتے کچھ دھائیوں پہلے تو چند ہی ہوا کرتے تھے اور وہ بھی کسی کسی ملک میں اور کبھی کبھی کسی شریف، سیدھے سادے اور بھولے بھالے انسان کو کاٹ لیا کرتے تھے لیکن اب تو یہ عالم ہے کہ پورے پورے ممالک ہی پاگل کتے بنے ہوئے ہیں اور وہ اپنے اپنے ملکوں کی سرحدوں سے باہر نکل کر ہر اس ملک کو بھنبھوڑتے پھر رہے ہیں جو ان کو ذرا بھی ”مشکوک“ نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔

ان ممالک میں پہلے تو سر فہرست صرف امریکا ہی آتا تھا یا پھر اسرائیل، لیکن اب بھارت بھی تیزی کے ساتھ اس ریس میں داخل ہو چکا ہے۔ دنیا کے یہ تین ممالک پہلے پہل صرف بھونک بھوک کر ہی ڈرا دھمکا دیا کرتے تھے لیکن اب تو عالم یہ ہے کہ بالکل ہی پاگل ہو کر رہ گئے ہیں۔

امریکا اور اسرائیل دونوں ایک طویل عرصے سے پاگل پن کا شکار ہونے کے باوجود بھی ابھی تک کم از کم اتنے عقل و ہوش میں ہیں کہ اپنے اندررہنے اور بسنے والوں پر کوئی عذاب نہیں بنے ہوئے ہیں لیکن مناسب ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے بھارت تو اتنا”کتا“ ہو چکا ہے کہ اسے اپنوں اور غیروں میں تمیز تک نہیں رہی اور وہ اپنے اندر رہنے اور بسنے والوں کو دن رات اس بری طرح بھنبوڑ رہا ہے کہ ان کی چیخیں ایک جانب شرق تا غرب سنائی دے رہی ہیں تو دوسری جانب آسمانوں کی حدود کے اس پار تک جا پہنچی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ہو یا بھارت، کشمیر پر اپنے اپنے دعوے رکھتے تھے لیکن کشمیر کا ایک بڑا حصہ نہ صرف بھارت کے قبضہ قدرت میں تھا بلکہ وہ دنیا کے ہر فورم پر اسے اپنا اٹوٹ انگ کہا کرتا تھا۔ 72 سال سے جس خطے کو وہ اپنا خطہ اور وہاں بسنے والوں کو اپنا کہتا رہا آج کل اسی خطے کے مکینوں کو رات دن بھنبھوڑنے میں مصروف ہے بلکہ اپنے دیگر شہروں میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں، بلاتفریقِ مذہب و ملت ہر اس فرد پر نہ صرف بھونک رہا ہے بلکہ اسے کاٹ کھانے سے بھی گریز نہیں کر رہا جو کشمیر میں ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز احتجاج بلند کر رہے ہیں۔

اپنے ملک کی حدود میں وہ جو کچھ کر رہا ہے اس پر پاکستان صرف احتجاج ہی کر سکتا ہے جو کہ دنیا کہ ہر فورم پر کیا جارہا ہے لیکن بھارت کا اب یہ عالم بھی ہو گیا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب منہ کرکے بھی غرانے کی کوشش کرنے لگا ہے چنانچہ اس نے پاکستان پر الزام دھرا ہے کہ وہ پاکستان میں نہ صرف سکھوں کا عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے بلکہ سکھوں کی عبادت گاہیں بھی پاکستان میں غیر محفوظ ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ بھارت میں رہنے والی اقلیتیں، بھارتی جنتا اور ان کی سینا کے ہاتھوں سخت ظلم و ستم کا شکار ہو رہی ہیں جبکہ پاکستان میں رہنے والے ہندو اور سکھ محفوظ حصار میں ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی مساجد نذر آتش بھی کی جارہی ہیں اور ڈھائی بھی جارہی ہیں جبکہ پاکستان ان کی برسوں پرانی عبادت گاہوں پر سالانہ کھربوں روپے خرچ کر کے ان کے ورثہ کو محفوظ رکھنے کی کو شش میں مصروف ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو مذہبی پابندیوں کا سامنا ہے جبکہ پاکستان نے کرتارپور راہداری کھول کر سکھوں کو یاترا کرنے میں مزید آسانیاں اور سہولتیں مہیا کی ہیں۔ اس پر بھارت کے پاگل پن کا یہ حال ہے کہ وہ پاکستان ہی پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔

ایک جانب ” باؤلےکتے“ بھارت کا یہ عالم ہے کہ وہ نہ صرف اپنے شہریوں کو بھنبھوڑنے میں مصروف ہے بلکہ پاکستان کی سرحدوں کے آس پاس بھی اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آ رہا تو دوسری جانب امریکہ دنیا کے سارے مسلمانوں کیلئے پاگل کتا بنا نظر آ رہا ہے۔ یہ سارا کھیل صرف اور صرف اس لئے جاری ہے کہ مسلمان اس پاگل پن کی ویکسین استعمال کرنے سے خوف زدہ ہیں اور غراہٹ پر اس درجہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ پاؤں ہی کیا پورا بندن تپِ لرزہ کے شکار مریضوں کی طرح کپکپانے لگتا ہے۔

یہ صرف کتوں پر ہی منحصر نہیں بلکہ ہر موذی کی یہ خصلت ہوتی ہے کہ وہ پہلے اپنے مد مقابل کو ڈراتا ہے۔ اگر مد مقابل ڈٹ جائے تو عام طور پر وہ راہ فرار ہی اختیار کرتا ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ موذی کوئی سا بھی ہو، ڈر کر یا بھاگ کر اس سے جان کسی بھی صورت میں نہیں بچائی جاسکتی۔ ایسے سارے پاگلوں سے نجات کا ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور وہ راستہ ڈٹ جانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

امریکہ ہو، اسرائیل ہو یا بھارتی ” باؤلےکتے“ ، ان کی ایک ہی ویکسین ہے اور وہ ہےڈٹ کر پاگل کتے کا خاتمہ کرنا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ سب باؤلےکتے نہ تو فلسطین پر حکمران بن سکے، نہ ویت نام اور افغانستان کے میدانوں میں ٹھہر سکے اور نہ ہی یہ ایران، ترکی، اور عراق میں اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہو سکیں ہیں۔ ہر وہ ملک جوڈٹ جائے گا تویہ کتے بھی ڈر جائیں گے لیکن جو کتے سے ڈرتا رہے گا توکتےاس پر بھونکتے بھی رہیں گے اور اس کو بھنبھوڑتے بھی رہیں گے۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے مصلحت پسندی کا شکار رہا ہے۔ وہ اس فریب میں مبتلا ہے کہ یہ بلائیں مصلحت پسندی کے دورد و وظائف سے دور ہو جائیں گی۔ پیچھے ہٹنے سے مان جائیں گی اور سرتسلیم خم کر لینے سے سروں پر ہاتھ رکھنے کیلئے تیار ہو جائیں گی۔ یہ پاکستان کا بہت بڑا فریب ہے۔ یہ وہ کتے ہیں جو ہر ڈرنے اور دب جانے والے پر چڑھ چڑھ کر آتے اور غراتے رہیں گے۔ جتنا پاکستان پیچھے ہٹتا جائے گا یہ چڑھتے آئیں گے۔

کشمیر تو ہاتھ سے جاہی چکا ہے، اب ایئر بیسز، شاہراہیں، بندرگاہیں، شہر اور صوبے بھی نشانے پر ہیں۔ پاکستان کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ ہے وہ راستہ ڈٹ جانے کا ہے، لہٰذا ڈرنا ڈرانا چھوڑیں، ڈٹ جائیں ورنہ یہ وہ بلائیں ہیں جو کسی صورت بھی ٹلنے والی نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں