این آر او نہیں دونگا ڈرامے کا انجام “دے دیا”

کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

کسی کو نہیں چھوڑوں گا، مجھ سے کوئی بچ کر نہ جا سکے گا، ایک ایک کو قوم کی لوٹی ہوئی دولت پاکستان کے خزانے میں جمع کرانی ہوگی اور یہ کہ میں ملک کی دولت لوٹنے والے چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو خون کے آنسو رلاؤنگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تھے وہ دعوے جس کی خاطر قوم اس بات کیلئے بھی تیار تھی کہ خواہ ان کو اپنے پیٹ پر پتھر ہی کیوں نہ باندھنے پڑیں یا گھاس کھا کر ہی گزارہ کرنا پڑے، وہ عمران خان سے قدم سے قدم ملا کر چلے گی اور پاکستان کو ہر قسم کی کرپشن سے پاک کرکے ہی سکھ کا سانس لے گی۔

لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام لیا

آخر اس بیماری دل نے اپنا کام تمام کیا

تازہ ترین خبروں کے مطابق “وفاقی کابینہ نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دے دی جس کی توثیق کرتے ہوئے صدر مملکت نے دستخط ثبت کردیے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت قانون نے نیب ترمیمی آرڈیننس کی سمری وزیراعظم عمران خان کو ارسال کی جس کی کابینہ اراکین نے بذریعہ سرکولیشن منظوری دی”۔ ایک تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس عظیم المرتبت شخصیت کی معراج کا یہ عالم ہو کہ اس کی “چڑیا” بٹھائے بغیر کوئی آرڈیننس پاس ہی نہ ہو سکتا ہو وہ صرف اس لئے حکومت پاکستان سے لاکھوں روپے کی تنخواہ، کروڑوں روپوں کی مراعات اور اعلیٰ قسم کی رہائش گاہ میں رہنے کا حق دار ہو کہ اس کے سامنے جو کاغذات بھی پیش کر دیئے جائے وہ ان پر اپنی چڑیا بٹھا دے اور یہ تک غور نہ کرے کہ اس چڑیا کے نتیجے میں ملک و قوم کو کوئی فائدہ ہوگا یا ملک مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔

ہمارے صدر محترم کتنے قابل ہیں، اس کا مظاہرہ ابھی حال ہی میں دیکھنے میں آ چکا تھا جب سپریم کورٹ نے ان کے پیش کردہ 4 نوٹیفکیشن نہایت سخت ریمارکس کے ساتھ لپیٹ کر حکومت کو واپس کر دیئے تھے جو آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع سے متعلق تھے۔ موجودہ دورِ حکومت میں بات صدر مملکت پر ہی آکر نہیں رک رہی بلکہ لگتا ہے کہ اس حکومت کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور نیچے سے لیکر اوپر تک سب کے سب ایسے افراد ہیں جو کسی بھی قول یا قرار کی پاسداری کے قائل ہی نہیں ہیں اور ذرا بھی آزمائش ان کی آرا کو بدل کر رکھ دیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ جو بھی قدم اٹھا تے ہیں اس کے نتائج ان کی سوچ کے بر عکس سامنے آتے ہیں اور اس طرح وہ ہر اس فرد کی حمایت کھوتے چلے جارہے ہیں جو ان کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان میں اب تک ایک حکومت بھی ایسی نہیں آئی جس کیلئے عوام ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے اس حد تک تیار و آمادہ دیکھے گئے ہوں کہ دال روٹی تک بھی کھانے کیلئے تیار ہوں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان نے کبھی پاکستان کے ہر محکمے اور ادارے کو ایک پیج پر نہیں دیکھا تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی یہ خوش بختی ہے کہ اس حکومت کے ساتھ عوام کا ایک سمندر تو ہے ہی، پاکستان کا ہر محکمہ اور ادارہ بھی اس سے قدم سے قدم ملا کر چلنے کیلئے تیار ہے۔ اتنی مضبوطی اور تعاون کے باوجود بھی لگتا ہے کہ صلاحیتوں کا فقدان حکومت کی نائو کو پار لگانے میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ میری سمجھ کے مطابق اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ

ارادے باندھ تا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

باالفاظِ دیگر حکومت اور خاص طور سے عمران خان کے بار بار کے یو ٹرنز اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو وہ کسی بات پر پورا غور و خوض نہیں کرتے یا پھر ان کو حالات اور امور مملکت کی اتنی سمجھ نہیں ہے کہ کارِ سلطنت کو کس طرح چلا یا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنے کئے گئے فیصلے یا دعوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

صدر مملکت کا کل کا آرڈیننس اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ حکومت مسلسل اپنی ہر پالیسی میں ناکام ہوتی جا رہی ہے اور وہ آخری مورچہ جس میں حکومت اور عمران خان کا دفاع کرنے والے نوجوان، ڈٹے ہوئے تھے کہ خان نہ تو این آر او کسی کو دے گا اور نہ ہی ملک کی دولت لوٹنے والوںکو چھوڑے گا، وہ مورچہ بھی خود عمران خان نے اپنی کابینہ اور صدر مملکت کے ساتھ مل کر ایک زوردار دھماکے کے ساتھ اڑا کر رکھ دیا۔

جاری ہونے والے آرڈیننس کی روشنی میں اب شاید ہی کوئی لٹیرا ایسا ہو جس کو نیب اپنے احتساب کے شکنجے میں جکڑ سکے اور اس سے لوٹی ہوئی دولت طلب کر سکے۔ آرڈیننس میں صاف صاف درج ہے کہ “محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا۔ سرکاری ملازم کی جائداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جاسکے گا اور اگر 3ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا۔ نیب 50 کروڑ سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کرسکے گا۔ ٹیکس، اسٹاک ایکس چینج اور آئی پی اوز سے متعلق معاملات میں نیب کا دائرہ اختیار ختم کردیا گیا۔ تاجر برادری نیب سے آزاد ہوگی حتیٰ کہ وہ افراد جن کے مقدمات نیب کے پاس ہیں ان پر بھی اب نیب مزید مقدمہ نہیں چلا پائے گی”۔

مذکورہ بالا چند بڑی بڑی “چھوٹ” کی روشنی میں اب یہ بات سمجھنے میں کسی بھی قسم کی کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے کہ حکومت نے سارے چوروں، خواہ وہ ماضی کے لٹیرے ہوں یا وہ سارے افراد جو چور اور ڈاکو بننا چاہتے ہوں، ان کو نہ صرف ہر قسم کے احتساب سے بری کر دیا ہے بلکہ نئے چوروں کو پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا کارخانہ بھی کھول دیا ہے کہ وہ “تجارت” کی آڑ میں جس انداز میں چاہیں ماراماری کریں اور جس جس طرح چاہیں اس ملک کو نوچیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آرڈیننس میں تاجروں کو نیب سے آزاد کر دیا گیا ہے تو پھر اب وہ کون باقی بچا ہے جس سے حکومت لوٹی ہوئی دولت واپس لے سکتی ہے۔ سارے سیاسی رہنما تاجر ہی تو ہیں، کسی کی شوگر ملیں چل رہی ہیں، کسی کے لوہے کے کارخانے ہیں، کوئی پراپرٹی ڈیل کر رہا ہے، کسی کے بڑے بڑے ڈپارٹ مینٹل اسٹورز ہیں، کسی کی دوائیوں کی فیکٹریاں ہیں تو کوئی کھیتی باڑی کرکے اپنی فصلوں کو منڈیوں میں فرخت کر رہا ہے۔ کیا یہ سب تجارت نہیں؟

ان سب معاملات کو دیکھتے ہوئے اب یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ حکومت کی صفوں میں خود اتنے بد عنوان اور کرپٹ افراد داخل ہو چکے ہیں جو کرپشن کو روکنے کی بجائے اس کا فروغ چاہتے ہیں تاکہ ان کو جتنا بھی وقت میسر ہے، اس کا بھر پور فائدہ اٹھا سکیں اور اپنے سابقین کی طرح امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، آسٹریلیا اور مڈل ایسٹ میں شدات کی جنت بنا سکیں۔

اس ساری صورت حال، نہیں چھوڑونگا، رلاؤنگا کی تکرار اور پھر بار بار یوٹرز کو دیکھتے ہوئے بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ

کوئی نگر کوئی بستی تو آخر منزل ٹھہراؤ

بے مقصد پر واز میں ورنہ سب وبال پر جائیں گے

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں