قائدِاعظم کا پاکستان

قدرت کے فیصلے دراصل بڑے لوگوں کے قولِ فعل اس لئے بن جاتے ہیں کہ وہ جس کام کیلئے عزم کر لیتے ہیں، وہ منزلِ مقصود کو رواں دواں ہو جاتے ہیں،یہ سوچے بنا کہ فاصلہ کتنا طویل ہو گا۔ان کی لگن سچی اور فکر پُر خلوص ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی طلب و جستجو کے لئے ہمیشہ وہ راستہ اختیار کرتے ہیں جو پہلے کسی نے اختیار نہ کیا ہو۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح کے والدِ گرامی پونجا جناح نے انہیں زندگی گزارنے کے دو اصول بتائے’’پہلا اصول،اپنے بزرگوں کی فہم و فراست اور ان کے علم و تجربے پر بھروسہ کرو،ان کی ہدائت پر عمل کرو جیسا وہ کہیں ان پہ عمل کرو‘‘یہ وہ طریقہ،راستہ اور اصول ہے جسے سبھی نے اختیار کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ’’اپنی مرضی سے جو چاہو کرو،اپنی غلطیوں سے سیکھو،زندگی کی تلخیوں،سختیوں اور ٹھوکروں سے سبق حاصل کرو،یہ راستہ ،طریقہ،اصول مشکل،پُرخطر،خار دار اور بغیر نشانِ منزل ہوتا ہے،بڑے لوگ خود نشانِ منزل بناتے ہیں کہ آنے والی نسلیں انہیں نشانِ منزل سمجھ کر حصولِ منزل کو آسان بنا لیں۔

جناح نے دوسرا طریقہ،راستہ اور اصول اپنایا۔یہی وہ رجلِ عظیم ہوتے ہیں جنہیں بسترِ مرگ پر بھی اپنے مشن کی تکمیل کی فکر ہوتی ہے۔اسٹینلے والپرٹ’’جناح آف پاکستان‘‘ میں اور مس فاطمہ جناح ’’میرا بھائی‘‘ میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایامِ آخر میں ڈاکٹرز نے جناح کو مکمل آرام کا مشورہ دیا تو جناح ! مس فاطمہ سے مخاطب ہو کر بولے کہ ’’فاطمہ کیا تم نے کبھی کسی جرنیل کو اس وقت رخصت پر جاتے ہوئے دیکھا ہے جب اس کی فوج میدانِ جنگ میں اپنی بقا کے لئے مصروفِ پیکار ہو‘‘اس پر فاطمہ نے کہا کہ ’’آپ کی زندگی بہت قیمتی ہے‘‘جناح نے جوابُ الجواب فرمایا کہ:

’’مجھے تو ہندوستان کے دس کروڑ افراد کی فکر ہے‘‘

1913 ؁میں جب انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو تب سے تا دمِ مرگ ایک ہی فکر میں رہے اور وہ فکر تھی ،مسلمانانِ برصغیر کی الگ سیاسی پہچان،پاکستان اور مستقبل۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرتے ہی جو سب سے پہلا کام کیا وہ اس کے منشور میں تبدیلی تھی کہ جس میں انہوں نے حکومتِ برطانیہ سے وفاداری کو سیلف گورنمنٹ کے قیام میں تبدیل کر دیا۔سر آغا خان اپنی کتاب India in transition;A study in political evalution میں لکھتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ مشہور صحافی بیورلے نیکولسن نے قائداعظم سے سوال کیا کہ آپ کس اصول کے تحت پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں۔تو جناح نے پیارے انداز میں جواب دیا کہ صرف چار لفظوں کی بنیاد پرMuslims are a nation۔‘‘

اسی طرح ایک بار ایک ہندو طالبِ علم نے قائدِ اعظم سے سوال کیا کہ آپ پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ہندو اور مسلمان میں کیا فرق ہے؟قائد کچھ دیر خاموش رہے ،ایک طالبِ علم سے پانی کا گلاس منگوایا ایک گھونٹ اس میں سے پی کر باقی ماندہ ہندو طالبِ علم سے پینے کو کہا،ہندو طالبِ علم نے پینے سے صاف انکار کر دیا۔قائد اعظم نے پھر ایک مسلمان طالب علم کو بلا کر پانی پینے کا کہا تو اس نے بلا تامل جناح کا چھوڑا ہوا پانی پی لیا۔اس پر جناح نے کہا کہ ’’دونوں قوموں میں بس یہی فرق ہے اسی لئے میں مسلمانوں کے لئے الگ ملک بنانا چاہتا ہوں۔اسی ضمن میں ایک اور واقعہ یاد آ گیا جسے نذرِ قارئین نہ کرنا پیشہ صحافت سے زیادتی ہو گی۔

مشہور ہندو صحافی ڈی ۔ ایف ۔ کراکا پاکستان کے شدید مخالف تھے۔ وہ اکثر اخبار و رسائل میں پاکستان کے خلاف لکھا کرتے تھے۔ اس نے کئی بار جناح سے شرفِ ملاقات چاہا لیکن قائداعظم ہمیشہ انکار کر دیتے تھے۔ 3جون1947؁کو جب پاکستان کا اعلان ہوا تو ’’کراکا‘‘ کو قائداعظم کے پرسنل سیکرٹری کا خط ملا کہ قائداعظم تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ڈی۔ایف۔ کراکا کی جب قائداعظم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ:

’’تم پاکستان کو ناقابلِ تسخیر قرار دیتے تھے اور پاکستان کے اکثر خلاف لکھا کرتے تھے، میں نے اسی دن ارادہ کر لیا کہ تم سے پاکستان بننے کے بعد ہی ملاقات کرونگا۔ یہی تمہارے سوالات کا عملی جواب ہےاور پاکستان بننے کے بعد میں نے سب سے پہلے تمہیں یاد کیا۔‘‘

ڈی ۔ ایف ۔ کراکا حیران و ششدر قائد اعظم کا منہ تکتا رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

ان کی سیا سی و مذہبی بصیرت کیا تھی؟ وہ کس سوچ کے متحمل تھے کہ جس نے ایک نعرہ کو عوامی رنگ دے کر عوام الناس کے خون کو گرما دیا۔ کہ :

پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔لاالہ الاللہ

کیا عملی زندگی میں بھی اس نعرہ کو عملی تفسیر بنانا چاہتے تھے؟ اگرچہ اس کے حق و رد میں بہت کچھ لکھا گیا تاہم میں یہاں دو واقعات سے قائد کے خیالات سے آگاہ کرونگا کہ قائد کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے؟

انتقالِ اقتدار کی تقریر میں مائونٹ بیٹن سے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ نئی مملکت میں عدل و انصاف اور رواداری کی وہ روایتیںقائم کریں جو مغل بادشاہ اکبر نے قائم کی تھیں۔ ۔ جناح نے جوابی تقریر میں کہا کہ ’’عدل و انصاف اور روا داری کی روایتیں ہمیں اس سے بہت پہلے حضرت محمدﷺ سے مل چکی ہیں۔

دوسرا واقعہ اس طرح سے ہےسردار شوکت حیات کہتے ہیں کہ انہوں نے جب الفاروق (شبلی نعمانی) کا انگریزی ترجمہ پڑھا تو فرمائش ظاہر کی کہ اس کی دوسری جلد بھی مجھے مہیا کی جائے، جب دوسری جلد بھی پڑھ چکے تو فرمانے لگے کہ یہ مغرب والے کیا نعرہ لگاتے پھرتے ہیں؟ فلاحی مملکت کا پہلا تصور تو بارہ سو سال قبل حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دے دیا تھا۔ مسلمانوں کے ملک میں ایسا ہی نظام ہونا چاہئے۔یہی وجہ ہے کی قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ایک پریس کانفرنس میں جب کسی صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کا آئین کیسا ہو گا؟ تو جناح نے بر جستہ جواب دیا کہ’’ہمارا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہو گا‘‘َ

ْٓٗقائد اعظم کو مسلمان طلبا سے بہت پیار تھا وہ انہیں ہمیشہ پاکستان کا مستقبل اور معمار کہہ کر خطاب کرتے تھے، طلبا سے ان کی بہت امیدیں وابستہ تھیں،انہوں نے طلبا کو ملنے سے کبھی انکار نہیں کیا ۔انہوں نے 1937 میں کلکتہ کے اجلاس میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’نئی نسل کے نوجوانوںآپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کر کے اقبال اور جناح بنیں گے،مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھ میں مضبوط رہے گا‘‘یہ سب تحریک پاکستان کی جدوجہد اور کاوشوں کے دور کی باتیں تھیں جن سے اس بات کا اظہار ملتا ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

اب تعمیر پاکستان کا زمانہ ہے ہم نے اپنے اخلاص اور محنت شاقہ سے یہ ثابت کر دکھانا ہے کہ ہم ہیں قائداعظم واقبال کے خوابوں کی تعبیر وتفسیر،ہم ان کے خیالات پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کو دنیا میں باوقار ملک بنائیں گے۔انشا اللہ

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں