آخر کیسے؟

یہ پہلی رات نہیں تھی۔ رتیش پچھلے دس دنوں سے سیڑھیوں پراپنی چادر بچھا کر سو رہا تھا، اس کا واحد آسرا وہ وائی فائی تھا جو ساتھ والے کمرے کے لڑکے نے اس پر رحم کھا کر دے دیا تھا۔ وہ ایڈمیشن کے بعد صرف تین دن کالج کلاس لینے گیا اور پھر ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گیا۔ وہ روز رات کو کسی نہ کسی ہوٹل میں رکتا، صبح ناشتہ کرتا اور اگلے ہوٹل کے لیے روانہ ہوجاتا۔ پیسے ختم ہونے کی وجہ سے وہ واپس اپنے ہوسٹل پہنچا تو اسے اپنا سامان اپنے کمرے کے باہر پڑا ملا ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ آپ کے ڈیڑھ مہینے غائب رہنے کی وجہ سے یہ کمرہ ایک دوسرے لڑکے کو دے دیا گیا ہے، اور پھر تب سے وہ روز رات کو ہاسٹل کی سیڑھیوں پر سونے لگا۔

اس کے ساتھ ساتھ اس نے PayPal کی طرف سے جاری کردہ “فیلو شپ” کے لیے بھی اپلائی کرنا شروع کر دیا۔ہم رتیش کی کہانی کی طرف آنے سے پہلے “Thiel Fellowship” کی طرف آتے ہیں۔ PayPal کے فاؤنڈرپیٹر تھیل نے 23 سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کے لئے ایک “فیلوشپ” کا آغاز کیا ہے وہ تمام ہی بچے بچیاں جو دنیا میں کچھ الگ، کچھ نیا اور تخلیقی ذہن کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں، جو اپنا راستہ دوسروں کے راستے سے الگ بنانا چاہتے ہیں جن کی سوچ دنیا والوں کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے۔

اگر یہ اپنا آئیڈیا اور اپنے ذہن میں موجود خاکہ “PayPal” کو پیش کرنے اور خود کو منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں توPayPal انہیں “فیلوشپ” کا حقدار قرار دے دیتا ہے۔ اس “فیلو شپ” میں اس طالبعلم کو 1 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم اس بنیاد پر دی جاتی ہے کہ وہ طالبعلم آئندہ 2 سال تک کالج نہیں جائے گا اور سارا دھیان یکسو ہو کر اپنے اسٹارٹپ یا آئیڈیے پر لگائے گا۔

ادھار کے وائی فائی اور سیڑھیوں پر چادر بچھا کر سونے والا رتیش اگروال پورے ایشیاء کا پہلا 21 سالہ لڑکا تھا جو PayPal کی اس “فیلو شپ” کو لینے میں کامیاب ہوگیا۔ 19 سال کی عمر میں اپنی کل جمع پونجی 35 ہزار روپے سے ایک ہوٹل والے کے پاس گیا اور جا کر اس سے کہا کہ میں آپ کے ہوٹل کے ایک کمرے کو renovate کروں گا، پھر اس کو آن لائن کردوں گا۔ اگر کوئی گاہک میرے ذریعے سے آیا تو منافع آدھا آدھا کریں گے ورنہ دوسری صورت میں نقصان صرف میرا ہو گا۔

ہوٹل مالک کو آئیڈیا پسند آیا لیکن اپنی پڑھائی، گھر والوں کے دباؤ اور رقم نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ راجستھان کے کالج میں ایڈمیشن لینے کے بعد رتیش دردر کے ہوٹلوں کو چھانتا رہا۔ ان ہوٹلوں کی مخدوش حالت، بےتحاشہ کرائے، خراب ناشتہ اور غیر اطمینان بخش ماحول نے اس کے دماغ میں Oyo کا آئیڈیا دماغ میں ڈال دیا۔ اس آئیڈیے کو اس نے PayPal سے منوایا اور ہندوستانی 60 لاکھ روپے لینے میں کامیاب ہوگیا، اور اس طرح رتیش اگروال نے کالج کو خیر باد کہہ کر اپنا اسٹارٹپ شروع کردیا۔

2013 میں اس نے صرف ایک ہوٹل کےچند کمروں کو بہترین renovate کرکے اس میں اے-سی، وائی فائی، صفائی ستھرائی اور بہترین ماحول مسافروں کو فراہم کر دیا، ان تمام سہولیات کے ساتھ کمرے کا کرایہ صرف ایک ہزار روپے تھا۔ 2014 میں ان ہوٹلوں کی تعداد بڑھ کر 6 ہوگئی۔ 2015 میں یہ ہوٹلز 500 کا ہندسہ پار کرگئے، 2016 میں ہندوستان میں Oyo “وبا” کی طرح پھیلنا شروع ہوگیا، 2017 میں Oyo انٹرنیشنل برانڈ بن گیا۔ اب یہ ہندوستان سے نکل کر چین تک پہنچ گیا تھا، 2018 میں نیپال اور انڈونیشیاء میں بھی اس کے قدم جمنا شروع ہوگئے، 2019 میں Oyo دنیا کی تیسری اور چین کی چوتھی بڑی ہوٹل برانڈ بن کر سامنے آیا۔

آپ کمال ملاحظہ کریں۔ اس وقت ہندوستان کے 800 چین کے 337 انڈونیشیا کے 80 برطانیہ کے 25 اور امریکہ کے 40 شہروں میں بالترتیب 23 ہزار، 10 ہزار، سات سو بیس، 85 اور 68 ہوٹلز Oyo میں شامل ہیں، 46000 گیسٹ ہومز اس کے علاوہ ہیں۔ تین لاکھ ملازمین کے ساتھ اویو 2023 میں دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل چین کا اعزاز حاصل کرنے جارہا ہے اور امریکہ سمیت 12 ملکوں میں موجود اویو ہوٹلز/رومز کا سب سے بڑا انویسٹر”سافٹ بینک” ہےاور اس وقت اویو کا سالانہ بجٹ 600 کروڑ روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ رتیش اگروال کی عمر صرف 26سال ہے جبکہ انہوں نے یونیورسٹی کی شکل تک بھی نہیں دیکھی ہے۔ کاش میرے ملک کا نوجوان بھی سمجھ سکے کہ دنیا میں بغیر ڈگری اور کم سرمائے کے ساتھ بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ غربت اور جھونپڑیاں رکھنے والے ملک کا دیہاتی نوجوان اڑیسہ کے گمنام گاؤں “بسام کٹک” سے نکل کر یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کا نوجوان کیسے وسائل اور تعلیم کا شکوہ کرسکتا ہے؟ آخر کیسے؟

جواب چھوڑ دیں