پاکستانی ڈراموں کی پرانی اور موجودہ ہیروئن

عورت ایک ایساشجرِ سایہ دارہے جس پہ گھر،خاندان اور ایک صحت مند معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔اسی لیے دین میں اس کی تعلیم و تربیت اور حقوق پہ سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔لیکن ہمارے ٹی وی ڈراموں کی ہیروئن بالکل بھی اس عورت کی عکاسی نہیں کرتی جو خاندان اور معاشرے کو مطلوب ہے۔ میڈیا کسی بھی معاشرے کی ذہین سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹی وی پہ دکھائی جانے والی کوئی بھی چیز کسی نہ کسی کی سوچ اور زندگی کی منظر کشی ضرور کرتی ہے اور دیکھنے والوں کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ٹی وی ڈرامے کی 90فیصد Audience خواتین ہوتی ہیں۔اسی لیے ٹی وی ڈراموں میں دکھائی جانے والی ہیروئن کا کردارگھر میں بیٹھی سادہ عورت کے ذہن پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔90کی دہائی تک دکھائے جانے والے ڈراموں کی ہیروئن ایک مضبوط کردار رکھتی تھی قوتِ ارادی،خود اعتمادی،احساس ِ ذمہ داری جیسی خصوصیات کی حامل تھی۔پی ٹی وی کے پرانے ڈراموں پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے۔تو ان میں بھی خاندانی سیا ستیں،محبت اور طلاقیں ہوا کرتی تھیں لیکن ان کہانیوں کا پلاٹ حقیقت سے قریب تر تھااور ان میں سوچ اور فکر کا عنصر پایا جاتا تھا۔پی ٹی وی کا پرانا ڈرامہ”ان کہی“جس کی ہیروئن پورے ڈرامے میں اپنی فیملی کو غربت سے نکالنے کی جدوجہد میں مصروف دکھائی گئی۔”تنہایاں“ کی ہیروئن جس کے ماں باپ ایک روڈ ایکسڈنٹ میں انتقال کر جاتے ہیں ان کی دفات کے بعد کس طرح مشکالات کا سامنہ کرتے ہوئے وہ اپنا بزنس سیٹ کرتی ہے۔”دھوپ کنارے“ کی ہیروئن جو پوری توجہ سے اپنے باپ کی خواہش پہ بغیر کوئی افیئر چلائے ڈاکٹر بنتی ہے۔ڈرامہ سیریل ”آنچ“ کی ہیروئن کس طرح اپنے شوہر کی پہلی بیوی کے بچوں کے دل میں اپنی جگہ بناتی ہے90 کی دہائی تک ان تمام ڈراموں کی ہیروئن اصل زندگی کی عکاسی اور حقیقی مسائل کے ساتھ کس طرح مقابلہ کیا جاتا ہے بہترین انداز میں ان مسائل کو حل کرتیں اور ان کا مقابلہ کرتی ہوئی نظر آئیں۔ لیکن موجودہ ڈرامے کی ہیروئن کی زندگی یا تو ساس بہو،نند بھاو ج کے جھگڑوں کے گرد گھومتی یا رشتے کے انتظار میں گھولتی کالج کی طالبات یا ایسی لڑکی جو اپنے افئیر کو کامیاب بنانا چاہتی ہے اور اسے کامیاب بنانے کی جدوجہد میں ہی پورا ڈرامہ دکھادیا جاتا ہے اور اب تو محبت،طلاق، بچے،رشتے، حسد، جادو ٹونہ جیسے مسائل میں ٹی وی ہیروئن کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ان الجھے ہوئے مسائل کو بار بار دیکھانے سے ہی معا شرہ ذہنی انتشار کا شکار ہے خاص طور پر خواتین میں کوئی نئی سوچ جنم نہیں لے رہی ہے۔نئی سوچ جنم نہ لینے کی وجہ سے ہی نئی نسل اپنی زندگی کی سمت کا کوئی تعین نہیں کر پا رہی اور بے سمت ہونے کی وجہ سے ہی بے راہ روی کا شکار ہے۔

ادب اور ادیب معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں،جن کا ہاتھ ہمیشہ ان کی نبض پہ رہتا ہے اور معاشرتی بگاڑ کی نشاندہی اپنا فر ض سمجھ کر کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ڈرامہ نگاروں نے ڈرامے کے ذریعے مسائل کم کرنے کے بجائے معاشرے کے مسائل بڑھا دیے ہیں لکھنے والوں کو اپنی تحریروں پہ نظر ِ ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔عورت کی زندگی صرف ساس بہو کے مسائل کے گرد نہیں گھومتی اور نہ ہی اس کی زندگی کا مقصد ان مسائل میں گھرے رہنا ہے اوران سب مسائل کوبار بار دیکھانے سے کیا مسائل حل ہو رہے ہیں؟یا معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نظر آ رہی ہے۔بلکہ دیکھا جائے تو ان مسائل کو بار بار دکھانے سے مجرمانہ ذہین رکھنے والوں کو مزید نئے خیالات مہیا کیے جا رہے ہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اور لکھنے والے ایک مضبوط اور اعلیٰ کرداررکھنے والی ہیروئن کومعاشرے میں متعارف کروائیں۔ہیروئن کے لیے بنائے گئے خاکے کو تبدیل کرنا معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔زندگی مستقل ایک جدو جہد میں لگے رہنے کا نام ہے۔پاکستانی ڈرامے کی موجودہ ہیروئن محنت،مستقل مزاجی،احساس ِ ذمہ داری اور کچھ نیا سیکھنے کے شوق جیسی بے شمار خصوصیات سے بالکل خالی ہے۔ٹی وی سکرین پہ عورت کی جدو جہد پہ بننے والی کہانیوں کی تعداد صرف ایک فیصد ہے جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔پاکستانی ڈرامے کی ہیروئن کے لیے بنائے گئے خاکے میں اب ایک ایسی عورت کو فٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگروہ بیوہ ہو جائے تو وہ گھٹ گھٹ کر مرنے یا دوسروں پر بوجھ بننے کی بچائے اپنی زندگی کے معنی کو تلاش کرے۔عورت کی زندگی میں علم حاصل کرنے کی اہمیت کو صرف اس حد تک محدود نہ دکھایا جائے کہ وہ اس علم سے جاب کر کے اپنے آپ کو مضبوط دکھائے۔ ایسی ہیروئن دکھانے کی ضرورت ہے جس میں گھر میں بیٹھی عورت کو معاشرے کے لیے ایک فائدہ مند فرد دکھایا جائے۔ایسی ہیروئن دکھائی جائے جو بچوں کی اچھے سے اچھے اور مشکل سے مشکل حالات میں ان کی کیسے بہترین تربیت کرتی ہے۔ایسی ہیروئن دکھانے کی ضرورت ہے جو مشکل حالات میں اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کیسے رزق کمانے کے مواقع تلاش کرتی ہے۔ ایک ایسی جوان ہیروئن ٹی وی پہ دکھانے کی ضرورت ہے جو اپنے آپ کو ثمر آور بنانے کی طرف گامزن ہے نہ کہ کسی لڑکے کے دل میں جگہ بنانے اور رشتہ آنے کے انتظار میں دن رات گھلے جا رہی ہے۔

90کی دہائی کے بعد بے مقصد ڈراموں کے آنے والے طوفان نے سب سے زیادہ عورت اور خاندانی نظام کو متاثر کیا ہے۔عورت جو خاندان کا محور ہے ٹی وی کی ہیروئن نے سب سے زیادہ اس کے نظریات کونقصان پہنچایا ہے۔ 90کی دہائی کے بعد ڈرامے کی ہیروئن سے ہلکے پھلکے رومانوی تڑکے کے ذریعے معاشرے کو غلط راستے کی طرف اکسا یا گیا اور پھر اسی رومانوی اور تصوراتی دنیا میں رہنے والی ہیروئن کے معاشرے میں جو نتائج نکلے ان پر ڈرامے بنا بناکر رہی سہی کسر بھی پوری کی جا رہی ہے۔میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے اور اس طاقت کو لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو ہی کوئی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اور لکھنے والے اپنی سوچ کوبدلیں اور معاشرے کی سوچ کو ایک نیا رخ دیں۔میڈیا کو چاہیے کہ ایسی کہانیوں کا بائیکاٹ کرے جس میں عورت کو حسد،جادو اور لڑائی جھگڑے جیسی خرافات میں ملوث دکھایا جاتا ہے۔لکھنے والوں کو چاہیے کہ محنت اور تحقیق کے ذریعے ایسے نئے کردار تشکیل کریں جو حقیقی معنوں میں عورت کی زندگی میں ایک نئی روح پھونکیں۔ ٹی وی ڈرامے کے ذریعے عورت کو اپنے مسائل سے نکلنے اور ثمر آور بنانے کے نئے خیالات مہیا کرے۔جس سے ہر طبقہ کی عورت خود کو کمزور،مظلوم اور ناکام محسوس کرنے کے بجائے خود کو کسی قابل بنا سکے۔

جواب چھوڑ دیں