کہیں دیپ جلے کہیں دل

آج مجھے یقین آگیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت طاقت ہے۔طاقت اپنے فیصلے خود منواتی ہے۔اس کا کسی مذہب یا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں۔طاقت بذات خود ایک مذہب ہے۔ایک ہی صدی اور تقریباً ایک ہی وقت کی دو یادگاروں پر آج یکسر مختلف ماحول ہے۔ایودھیا کی بابری مسجد نوحہ کناں ہے تو کرتاپور میں بابا گرونانک کے گوردوارے پر شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ایودھیا میں مسجد کے مینار بین کررہے ہیں تو کرتاپور کا ٹیمپل روشنیوں سے جگمگارہا ہے۔بابا گرونانک کے 14کروڑ پیروکار شاداں ہیں تو ظہیر الدین بابر کے ڈیڑھ ارب ہم مذہب غم و یاس کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔کرتاپور راہداری کا افتتاح ہماری وسعت القلبی کا آئینہ دار ہے تو بابری مسجد پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ تنگ نظری کا مظہر ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ سن کر مجھے”امیر خسرو“ یاد آرہے ہیں۔اگر آج وہ ہوتے تو ان کو کوئی پہلی نہیں سوجھتی،”میر تقی میر“ غزل کہنا بھول جاتے،”سودا“ کا قلم قصیدہ لکھتے ہوئے ڈگمگاجاتا،”غالب“ دلی کی گلی قاسم جان میں لڑکھڑاجاتے،”مومن“شطرنج کی بساط لپیٹ دیتے،”حالی“ بے حال ہوجاتے،”میردرد“ کا درد ان کی آنکھوں سے عیاں ہوجاتا،مولوی عبدالحق بابائے ”ہندی“ ہوجاتے اور یہ سب”انیس“ کے در پر جاکر اپنی نم آنکھوں سے ان کا مرثیہ سنتے۔بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ سن کر نجانے کیوں مجھے لال قلعہ کی دیواریں شکستہ نظر آرہی ہیں۔تاج محل کا رنگ زرد لگ رہا ہے۔قطب مینار ایک جانب جھکا ہوا نظرآتا ہے اور دلی کی جامع مسجد کے میناروں پر تفکرات کے سائے نظر آرہے ہیں۔مجھے آج سب سے زیادہ ابوالکلا م آزاد یاد آرہے ہیں۔ایک عالم بے بدل جن کی علمیت پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔وہ ابوالکلام آزاد جو متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے داعی تھے۔جو کہتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اصل شناخت ہندوستان ہی ہے۔پاکستان میں ان کی کوئی شناخت نہیں ہوگی۔بھارتی سپریم کورٹ نے آج ابوالکلام آزاد کو بھی غلط ثابت کردیا ہے۔آج ابوالکلام ہوتے تو ہندوستان کے 20کروڑ مسلمان بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ان سے سوال ضرور کرتے لیکن شاید آج ابوالکلام آزاد کے پاس بھی ان کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔
یہ نریندر مودی کا ہندوستان ہے۔ایک ایسا ہندوستان جو گاندھی کی سوچ سے کوسوں دور ہے۔جہاں نفرت کا بیوپار عروج پر ہے اور جہاں محبت کا قال پڑا ہے۔بابری مسجد تو بس آغاز ہے۔ابھی نفرت کے بھینٹ محبت کی علامت تاج محل کو بھی ڈھایاجائے گا۔قطب مینار کی زمین کسی جوتشی کی جنم بھومی قرار دی جائے گی اوردلی کی جامع مسجد کسی ہندواوتار کی مسکن قرار پائے گی۔مودی کے بھارت میں طاقت یہ بات بھی منوالے گی کہ میر تقی میر سے شکیل بدایونی تک تمام شاعر ہندو تھے۔انہوں نے بس اپنے نام مسلمانوں والے رکھے ہوئے تھے۔تحقیق ہوگی اور ان کو ہندو ثابت کردیا جائے گا۔مودی کے بھارت میں تسلیم کروایا جائے گا کہ سرسید احمد خان کسی مندر کے پجاری تھے تو ڈپٹی نذیر احمد راشٹریہ سیوک سنگھ کے سپوت تھے۔نریند ر مودی کی قیادت میں ہندستان کی ایک نئی تاریخ ”بنائی“ جارہی ہے۔ایک ایسی تاریخ جہاں نہ آپ کو ظہیر الدین بابر نظر آئے گا اور نہ ہی وہ مظلوم بادشاہ بہادر شاہ ظفر جو کوئے یار میں دو گززمین کے لیے ترس گیا تھا۔مودی کے بھارت میں نہ مسیحوں کے گرجے ہوں گے اور نہ ہی سکھوں کے ٹیمپلز،یہ ایک ایسا بھارت ہوگا جہاں آپ مسجدوں کے مینار تلاش کرتے رہ جائیں گے۔مودی کا ہندستان صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کا ملک ہوگا،مودی کا ہندوستان ایک ایسا دیس ہوگا جہاں رنگ صرف نارنجی چلے گااور جہاں پھل صرف ناریل کھایا جائے گا۔یہ ایک ایسا ہندوستان ہوگا جس کا آغاز بھی ہندوتوا سے ہوگا اور جس کا اختتام بھی ہندوتوا پر ہی ہوگا۔
یہاں شکوہ نریندر مودی سے بنتا بھی نہیں ہے۔وہ اپنی دانست کے مطابق اپنے دھرم کی سیوا کررہا ہے۔اس کی نظر میں ہر وہ قدم اٹھانا جائز ہے،جس سے بھارتی اقلیتوں کو نقصان پہنچے۔اس نے کبھی اپنے آپ کو امن کا داعی نہیں کہا۔اسے خون کا ہر ذائقہ ازبر ہے۔وہ نفرتوں کا پجاری ہے۔اس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ آج کے بھارت میں اس کا ”سودا“خریدنے والے بڑی تعدا د میں موجود ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں،جو کھرے اور کھوٹے سے مبرا ہو کر اس کی باتوں پر یقین کررہے ہیں اور گاندھی کے بھارت کو اس جانب لے کر جارہے ہیں،جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہوجائے گی۔
ظہیر الدین بابر کے ڈیڑھ ارب ہم مذہب اس وقت لاچار ہیں۔نہ یہ فلسطین میں کچھ بولتے ہیں۔انہیں کشمیر میں محصور لاکھوں مسلمانوں کا غم بھی نہیں کھارہا ہے۔انہیں اپنی ماؤں کی چادروں کا پاس ہے اور نہ ہی یہ بہنوں کی عصمتیں لٹنے پر شرمسار ہیں۔ایک بے حسی کی بیل ہے،جو ان کے جسموں سے لپٹ چکی ہے۔ان کی آنکھیں بتارہی ہیں کہ جرم ضعیفی کی سزاکیا ہوتی ہے۔حال ناتواں ہوجائے تو پھر شاندار ماضی پر فخر نہیں ماتم کیا جاتا ہے۔ہاتھوں میں اتنی سکت نہیں رہتی کہ ڈیرھ ارب کی تعداد اور 56ملکوں میں حکومت رکھنے کے باوجود ایک مسجد کی حفاظت کرسکیں۔دل کالے ہوجائیں تو یادگاریں آنکھوں کے سامنے سے ایسے اوجھل ہوجاتی ہیں،جیسے کہ کبھی موجود ہی نہیں تھیں۔ماضی کا ہر نقش پہلے آنکھوں سے اوجھل ہوتاہے اور پھر دل سے بھی اس کی یاد آہستہ آہستہ مٹ جاتی ہے۔بابا گرونانک کے پیروکار خوش نصیب ہیں کہ آج اپنے گرو کے قدموں میں بیٹھے ہیں۔ان کی نیت خالص ہے،اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہے اس لیے آج کرتار پور میں دیپ جل رہے ہیں۔ہماری نیتوں میں کھوٹ ہے جب ہی آج فلسطین سے لے کر ایودھیا تک ہمارے دل جل رہے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں