*نسخہ محبت یا خطرہ جاں*

جب بھی موسم بدلتا ہے ساتھ کچھ تبدیلیاں لاتا ہے۔ جیسے پت جھڑ کے موسم میں درختوں کے پتے سوکھ کر گرتے ہیں تو موسم بہار میں یہی ٹنڈ منڈ سے درخت نئی کونپلوں، نئے پتوں اور پھولوں سے لد جاتے ہیں۔ اسی طرح  موسمی تغیرات کی وجہ سے کبھی کبھار لوگوں کو الرجی، نزلہ، کھانسی، بخار وغیرہ بھی ہو جاتا ہے۔ جیسے ابھی پچھلے دنوں ہم پر فلو کا حملہ ہوا۔ ساتھ ہی بخار، نزلہ، گلے کی خرابی اور کھانسی نے آ لیا۔ آواز بھی بند ہو گئی۔ ادویات لیں جن میں بھاری بھرکم اینٹی بائیوٹکس بھی شامل تھی۔ جس کے سائڈ ایفیکٹس بھی ہوتے رہے۔ بہرحال کچھ دنوں میں طبیعت کچھ سنبھل تو گئی مگر کھانسی نہ گئی۔

   ہم سارا دن کھانستے رہتے۔ صبح کے وقت زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ ابتدائی دنوں میں اس کو ہلکا لیا۔ کہ چلو موسمی تبدیلی سے ہے، وقت کے ساتھ خود ختم ہو جائے گی۔ جوشاندہ، شہد وغیرہ کا استعمال کرتے رہے۔ لیکن ،” مرض بڑھتا گیا،  جوں جوں دوا کی ” کے مصداق، بجائے کھانسی کم ہونے کے بڑھنے لگی۔ اب گھروالے بھی بے وقت کی مسلسل کھنگار سے پریشان ہو گئے۔ دوسری طرف ہمیں لگاتار کھانسنے کی وجہ سے پسلیوں  اور حلق میں  درد ہونے لگا۔ کہتے ہیں ناں روگ کا گھر کھانسی۔ ایسے ہی کہیں باہر جانا بھی ختم ہو گیا۔ کہ اچانک کھانسی کا دورہ سا پڑتا اور ہم کھانس کھانس کر دوہرے ہوتے ہوئے شرمندہ بھی ہو جاتے۔ اسی حالت میں قریب دو ہفتے گزر گئے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کھانسی بڑھتی رہی۔

 اب جسے بھی خبر ہوتی کوئی نہ کوئی مشورہ ضرور دیتا۔ ہماری ساس صاحبہ ایک روز بوقت فجر کھانسی کی آواز سن کر فکر مند ہوتے ہوئے کہنے لگیں:

“اے ہے بیٹا، تمہارا تو بہت برا حال ہو رہا ہے۔ تم سونٹھ کیوں نہیں لیتی؟ پھر ٹوٹکا بتانے لگیں کہ سونٹھ آدھا پاؤ، ایک پاؤ گڑ لو، اس کو ہاون دستے میں اچھی طرح کوٹ کر وقفے وقفے سے گرم پانی کے ساتھ پھانک لو۔ دیکھنا دو دن میں کھانسی ٹھیک ہو جائے گی۔ اور ہاں یہ موئی مشین میں نا پیسنا۔ اس سے اثر زائل ہو جاتا ہے۔

 ہم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر سورج چڑھتے ہی دونوں چیزیں منگوا کر کوٹ لیں۔ اور استعمال شروع کر دیا۔ دو تین روز استعمال کے باوجود کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ تو ہماری دیورانی کہنے لگیں: سب کچھ چھوڑیں، اب آپ  ادرک کو کوٹ کر باریک کریں، پھر شہد ملا کر گرم کر لیں، اور دن میں دو تین بار استعمال کریں۔ ان شا اللہ ضرور فرق محسوس کریں گی۔ ہمارا چوں کہ پچھلے ٹوٹکے سے اعتماد اٹھ چکا تھا سو یہ استعمال کرنے کی ٹھانی۔ دوا بنائی اور اطمینان سے کھانا شروع کردی۔ اس یقین کے ساتھ کہ چلو اب تو موئی کھانسی چھوڑے گی۔ اس دوا سے تھوڑا سا فرق پڑا، لیکن جان خلاصی نہ ہوئی۔ روگ کا گھر آباد رہا۔ یعنی۔کھانسی کا دورہ پڑتا رہا۔

ایک روز ہماری نند آئیں تو کہنے لگیں: تمہیں میں جو ٹوٹکا بتاتی ہوں اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ پھر وہ ٹوٹکا بتانے لگیں کہ ایک بڑا چمچہ میتھی دانہ لے کر ڈیڑھ گلاس پانی میں ابال لو۔ جب پانی ایک گلاس کے قریب رہ جائے تو چولہے سے اتار لو۔ پھر یہ گرم جوشاندہ آدھا کپ لے کر اس میں ایک چمچ شہد شامل کر کے پی لو۔ اس تو ضرور تمہاری کھانسی ختم ہوگی۔ دو تین دن استعمال کر لو۔ اب ہم اس نسخے کی تیاری میں لگ گئے۔ نسخہ تیار ہوا۔ بس اس کا استعمال کرنا تھا کہ جسم بھڑک اٹھا، ایسے جیسے پورے بدن میں آگ لگ گئی ہو۔ جسم جھلس رہا تھا۔حالت غیر ہونے لگی۔ دل کیا گبھرایا تھا، سارے گھر والے بھی گھبرا گئے۔ شاید بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا۔  ہماری غیر ہوتی حالت کو دیکھ کر ہماری نند کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔

 اتنے میں ہماری پڑوسن آ دھمکیں۔ انھیں جب صورت حال کا علم ہوا تو کہنے لگیں: بیچاری کو گرم پڑ گیا میتھی دانہ، اسے لسی دیں کہ اس سے پیٹ کی گرمی کم ہو جائے گی۔ ساس گھر پر تھیں نہیں سو خود ہی انہوں نے لسی بنائی اور پیش کردی۔ ہم نے بھی گلاس جھپٹا اور غٹاغٹ پی گئے۔ کہ اس وقت کوئی ٹھنڈی چیز پینے کا ہی دل چاہ رہا تھا۔ اب پی تو لی لیکن فکر بھی ہونے لگی کہ الٹا اثر نہ پڑ جائے۔ اور پھر وہی ہوا۔ لینے کے دینے پڑ گئے۔ اور کھانسی بھی پہلے سے زیادہ ہو گئی۔ ہماری داستان کھانسی بھابی تک پہنچی تو دوسرے دن دوپہر کے وقت دیسی انڈے اور نیا علاج لے کر پہنچ گئیں۔ پھر کہنے لگیں: روزانہ صبح شام ایک دیسی انڈا اچھی طرح سے پھینٹ کر اس میں گرم گرم دودھ ڈال کر استعمال کرو۔ پھر چٹکی بجاتے ہوئے بولیں، تم دیکھنا، یوں افاقہ ہوگا۔

کچے انڈے کے خیال سے ہی ابکائی آنے لگی۔ پھر دانت چباتے ہوئے پوچھا:  “کچا انڈا؟” ہاں تو اور کیا۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگیں: دیکھ لینا، شرطیہ کہتی ہوں کہ اس سے  تمھاری کھانسی ضرور ٹھیک ہو جائےگی۔ دن گزرا تھا کہ میاں صاحب دفتر سے واپسی پر توت سیاہ کی بوتل لے آئے۔ دفتر کے کسی دوست نے اپنی کھانسی کا تذکرہ کرتے اس دوا کے استعمال کا مشورہ دیا تھا۔ وہ بضد تھے کہ اور جو اتنا کچھ استعمال کیا یہ بھی کر لو، اس سے ضرور فائدہ ہوگا۔ ہم نے بے بسی سے بوتل کی طرف دیکھا اور پھر قسمت آزما لی کہ شاید اس سے ٹھیک ہو جاؤں۔ میں بےزار آچکی تھی۔ دو تین دن میں۔دوا کی بوتل تو ختم ہو گئی۔  لیکن کھانسی کسی بلا کی طرح ہم سے چمٹی ہی رہی۔

ہمیں مایوسی ہونے لگی تھی کہ اب بس اس سے نجات نہ ملے گی۔ اس تمام عرصہ میں جتنے جاننے والوں سے فون پر بات ہوئی یا ملاقات ہوئی۔ ہر ایک نے الگ الگ علاج تجویز کیے۔ ہر ایک نے اپنا ٹوٹکا بتایا۔ کسی نے مسور کی دال کو ابال کر اس کا پانی پینے کا کہا، تو کسی نے دیسی مرغ کی یخنی، کسی نے بھنے ہوئے چنے گڑ ملا کر کھانے کو کہا تو کسی نے پستے اور بھنے چنے ہم وزن پیس کر کھانے کو۔ اور ہاں ہر ایک نے اپنی پسند کے اچھے ڈاکٹر کا نام بھی لیا۔کوئی ہومیوپیتھی، کوئی یونانی، تو کوئی ایلو پیتھی کا مشورہ دیتا۔

اس طرح پورے دو ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ اب ہم بیزاری کی انتہا پر تھے۔ یوں ہی ایک دن ہماری بڑی بہن کا اومان سے فون آیا۔ جو ماشاءاللہ سے ڈاکٹر ہیں۔ ابھی سلام دعا ہی ہوئی تھی کہ موئی کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ کھردری آواز کے جھونکے تھے جو بس آہی رہے تھے۔  ہم کھانستے رہے اور دوسری جانب ان کا لیکچر جاری رہا۔ کہ ہم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے۔  ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فون میں سے نکل کر آ جائیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہی تھا کہ، سارے گھریلو نسخے، ٹوٹکے چھوڑو اور فورا کسی اسپیشلسٹ سے چیک اپ کراؤ۔ دیکھو، دو ہفتوں سے زیادہ کی کھانسی کا مطلب، معاملہ کچھ سیریس ہے۔ ہماری سانسیں بحال ہوئیں تو کہا: ہیں! یہ کیا کہہ رہی ہیں؟ خدا نہ کرے کہیں آپ تپ دق کا تو نہیں کہہ رہیں؟ اللہ سے ڈریں۔ ذرا سی تو کھانسی ہے۔ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ پھر خقد کو تسلی دیتے اختتامی سلام کیا اور فون رکھ دیا۔  اور فورا باجی کی گفتگو من وعن میاں کے کان میں انڈیل دی۔ انہوں نے سنا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔

 دوسرے دن دفتر سے جلدی آ کر ہمیں ایک چیسٹ اسپیشلسٹ کے پاس لے گئے۔  ڈاکٹر صاحب نے اچھی طرح معائنہ کیا اور کہا:کچھ بڑا  مسئلہ نہیں، بس آپ کو الرجی ہو گئی ہے۔ پھر  بڑے سے پرچے پر چند ٹیڑھی ترچھی لکیروں میں مختلف گولیاں اور چند ایک سیرپ لکھ کر دیے۔ کہ یہ استعمال کیجیے۔ انشاء اللہ اس سے ضرور افاقہ ہوگا۔ بالفرض نہ ہوا تو ایکسرے کرنا پڑے گا۔جب ہم نے الرجی کے بارے استفسار کیا تو کہنے لگے: بی بی! یہ تو اب آپ خود محسوس کریں۔ کسی کو ڈسٹ سے، کسی کو پینٹ یا کسی بھی بو سے الرجی ہو سکتی ہے۔ کسی کو پیٹرول یا فنائل کی بو سے،  کسی کو کچھ کھا  پی لینے سے۔  غرض یہ کہ اس چیز کا تعین بہت مشکل ہے۔ پھر بتانے لگے کہ میری ایک پیشنٹ کو تو ٹی وی پر بھی دھول مٹی اڑتی ہوئی نظر آئے تو چھینکیں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔

جواب سن کر ہم کچھ پریشان سے ہو گئے۔ کیوں کہ الرجی کی وجہ سمجھ نہ آرہی تھی۔ خیر ہم گھر آئے اور ادویات کا استعمال شروع کر دیا۔  خدا کا کرنا ان کی دوا سے شفا ملی اور ہم رو بہ صحت ہو گئے۔ جب طبیعت سنبھل گئی تو اب سوچ رہی ہوں۔ کیوں نہ وہ تمام نسخے، گھریلو ٹوٹکے، قسم قسم کی دوائیں لکھ کر ایک فہرست بنا لوں۔ ان گنت نسخے ہیں کسی ایک سے تو کھانسی بھاگے گی۔ کسی کو تو صحت ملے گی۔ پھر خیال گزرتا ہے کہ  ہم کیسے لوگ ہیں؟ بس بیماری کا سنا نہیں اور دوا تجویز کر دی۔ مفت کا مشورہ دے دیا۔

خیال ہی نہیں گزرتا کہ میرے بتائے ٹوٹکے کا کسی پر الٹ اثر پڑ گیا۔ طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ ہمیں جاننا چاہیے کہ نیم حکیم، خطرہ جاں ہوتے ہیں۔ ہمیں یوں بغیر طبیب کے مشورے نہیں دینے چاہییں۔ بلاشبہ بتانے والے محبت، خیر خواہی اور خلوص کے جذبے سے ہی بتاتے ہیں۔ لیکن ضروری تو نہیں نا کہ جس دوا، نسخے، ٹوٹکے سے آپ کو شفا ملی دوسرے کو بھی مل جائے۔ اس لیے احتیاط برتنا ازحد لازم و ضروری ہے۔ آپ مریض کی سنت طریقہ سے تیمارداری کیجیے۔ اسے تسلی دیجیے۔ دعا کیجیے کہ خدا آپ کو اس مرض میں مبتلا نہ کریں۔

جواب چھوڑ دیں