بڑے بے آبرو ہوکر ۔ ۔ ۔

پاکستان کی کرکٹ ٹیم کوئی خود مختار تو ہوتی نہیں کہ وہ اپنے متعلق خود ہی سارے فیصلے کرے۔ سارے فیصلے کرنا تو دور کی بات ہے، کرکٹ کی ٹیم کا کوئی ایک کھلاڑی یا کپتان نہ تو اپنے قوت بازو سے کرکٹ ٹیم کا حصہ بن سکتا ہے اور نہ ہی ٹیم کا کپتان لشکر کشی کرکے تخت کرکٹ پر از خود براجمان ہوکر اپنے کپتان بننے کا جھنڈا بلند کر سکتا ہے۔  کرکٹ ٹیم کا ایک ایک کھلاڑی پی سی بی کے قائدے، قانون اور کسی ضابطے کے تحت ہی ٹیم کا حصہ بنتا ہے ، بورڈ ہی فیصلہ کرتا ہے ان منتخب کھلاڑیوں میں سے کون اس لائق ہے کہ اسے ٹیم کی قیادت سونپی جائے۔ ٹیم کے انتخاب اور قیادت کے فیصلے کے بعد اب یہ کھلاڑیوں اور قائد پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی دکھا کر اپنے انتخاب کو درست ثابت کریں۔ بورڈ اور اس کے ذمہ داران ہر ایک کھلاڑی پر بھرپور نظر رکھے  ہوتے ہیں اور اس بات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ قائد کی کار کردگی اور اسے دی گئی ٹیم کے ایک ایک کھلاڑی کی کارکردگی ان کی توقع کے مطابق ہے یا نہیں اور اسی بنیاد پر قائد سمیت ہر کھلاڑی کے چناؤ میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ان نقاط کو سامنے رکھا جائے تو کسی کے کپتان بننے سے لے کر کسی بھی کھلاڑی کے ٹیم میں جگہ بنائے رکھنے کی ذمہ داری ساری کی ساری بورڈ، بورڈ کے ممبران اور ان سلیکٹرز پر آتی ہے جو ٹیم کے کھلاڑیوں یا اس کی قیادت کے متعلق فیصلے کرتے ہیں۔

کیپٹن شپ بدلتی رہتی ہے اور کھلاڑیوں کے چناؤ کے بھی سارے فیصلے پتھر کی لکیر نہیں ہوا کرتے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سرفراز احمد کا کپتان بنے رہنے میں اس کا اپنا کوئی بھی قصور نہ تھا۔ اس نے سیاسی جماعتوں یا سلاطین کے زمانوں کی طرح ایک طاقتور لشکر تیار کرکے کرکٹ کے تخت شاہی پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ اسے بورڈ اور اس کے ذمہ داروں نے از خود کپتان بنایا تھا۔ اس سے بحث نہیں کہ بحیثیتِ مجموعی اس کی کارکردگی اچھی رہی یا نہیں، بحث اس بات سے ہے کہ جس انداز میں اسے ہٹایا گیا وہ انداز ضرور ایسا تھا جس سے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے کپتان بنے رہنے میں خود اس کا ہی قصور تھا۔ایسا کون سا انسان ہے جسے کاملیت کا درجہ حاصل ہے ،اور پھر ایک ایسا انسان جس کا کپتان بن جانے سے لے کر کپتان بنے رہنے تک کوئی بھی اختیار نہیں ہو ، اس کو کیپٹن شپ سے ہٹائے جانے پر اس بری طرح ذلیل کرنا جیسے وہ خود اس عہدے کے ساتھ چمٹا رہا تھا، سمجھ سے بالا تر ہے۔

یہ بات کسی امتیازی سوچ کی بنیاد پر نہیں کہی جارہی بلکہ اس کے پسِ پردہ بہت تلخ حقائق ہیں۔ جس کی کیپٹن سی میں پاکستان نے 37 ٹی 20 میچوں میں سے 29 میچ جیتے ہوں اور لگاتار 11 ٹی 20 سیریز پاکستان کی جھولی میں ڈالنے کے علاوہ ٹی 20 کا سب سے بڑا ٹائیٹل پاکستان کے حوالے کیا ہو ، اسے صرف ایک سیریز  ہارجانے پر کپتانی سے ہٹا دینا شاید اتنی بڑی زیادتی نہ ہو لیکن اسے دکھے دے کر نکالنا اور پھر کھلاڑیوں کا جشن منانا، پنجاب اسمبلی میں سرفراز احمد کے خلاف باقاعدہ قرارداد کا پیش کیا جانا ،یہ عمل کسی بھی صورت میں بھلائے جانے یا معاف کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر جب پہلی بار میں نے ایک ایسا ٹوئیٹ اور پھر اس کے ساتھ ایک ویڈیو دیکھی،  تو میں نے اسے جھوٹ ہی جانا اس لیے کہ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ہر خبر اور ویڈیو حقائق پر مبنی نہیں ہوا کرتی لیکن روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی خبر نے میرے حسن ظن کو “حسنِ زن” بنا کر رکھ دیا۔ شائع ہونے والی خبر کے مطابق “پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹائے جانے کے اعلان کے فوری بعد ایک ٹوئٹ سے بورڈ تنقید کی زد میں آگیا۔ سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹائے جانے کے اعلان کے تھوڑی دیر بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے آفیشل ٹوئٹر اکانٹ سے ایک ٹوئٹ کی گئی جس میں شامل ایک ویڈیو میں کھلاڑیوں کو خوشیاں مناتے دِکھایا گیا جب کہ اس موقع پر سرفراز احمد بھی ویڈیو میں موجود ہیں جنھیں ٹریننگ سیشن کے دوران ٹیم کا ایک ممبر باہر جانے کا اشارہ کررہا ہے”۔ اسی خبر میں وضاحتی طور پر یہ بھی تحریر ہے کہ “پی سی بی کی جانب سے سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹانے کے موقع پر ویڈیو جاری کرنے سے تاثر پیدا ہوا کہ کھلاڑی سرفراز کے جانے کی وجہ سے خوشیاں منارہے ہیں اور ٹیم کا ایک ممبر انھیں باہر جانے کو کہہ رہا ہے”۔ اس بات کی مزید وضاحت کچھ اس انداز میں ہے کہ “ایک سال بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا آغاز ہوگا جس کے لیے ٹکٹوں کی فروخت شروع ہوئی ہے، اس حوالے سے تمام کرکٹ بورڈز نے ویڈیو جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا البتہ پی سی بی کی جانب سے ویڈیو کی شیئرنگ اور سرفراز کو کپتانی سے ہٹائے جانے کے ٹائمنگ میچ ہونے سے غلط تاثر پیدا ہوا”۔ وضاحت پر وضاحت کا انداز خود اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیو “فیک” نہیں تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک سال بعد ٹی 20 ورلڈ کپ کے آغاز کی خوشی میں کوئی جشن منایا جارہا تھا تب بھی سرفراز کو وہاں سے بے دخل کرنے کا کیا جواز تھا۔ کیا سرفراز کا اس جشن میں شریک ہونے سے رنگ میں بھنگ کا سبب بن جانے کا امکان تھا۔

پاکستان میں کیپٹن شپ بدل جانا یا بدل دیے جانا کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں رہی جس کی وجہ سے کھلاڑی کھلاڑی کی حیثیت ہی کھو بیٹھا ہو۔ ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے کہ جب آدھی سے بھی زیادہ ٹیم کپتانوں ہی پر مشتمل ہوتی تھی اور ہر کپتان اپنے عہدے سے ہٹائے جانے اور کسی بھی قیادت کے تحت کھیلنے میں نہ تو کوئی احساس کمتری محسوس کرتا تھا اور نہ ہی کھلاڑی کی حیثیت سے اس کی کارکردگی متاثر ہونے کا کوئی گمان گزرتا تھا، بلکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ کھلاڑی کی کارکردگی پہلے سے بھی کہیں زیادہ بہتردکھائی دینے لگتی تھی۔

یہاں ایک غور طلب امر یہ بھی ہے کہ جس خراب کارکردگی کی بنیاد پر سرفراز احمد کو ہٹایا گیا ہے ، کیا سرفراز اس کا واحد ذمہ دار ہے۔ سری لنکا نے پاکستان میں ون ڈے اور ٹی 20 میچز کھیلے۔ ون ڈے سیریز میں سری لنکا کی ٹیم اپنے میچز ہار گئی لیکن ٹی 20 اپنے نام کر گئی۔ کیا ٹی 20 میں پاکستان کی جانب سے کھیلنے والے کھلاڑی تبدیل کر دیے گئے تھے؟۔ ٹی 20 میں سب سے بڑی ناکامی بالنگ کی رہی جو سری لنکا کی بی ٹیم کے ہاتھوں بری طرح پٹی، بیٹنگ کا معاملہ “تو چل میں آیا” والا رہا اور فیلڈنگ تو اتنی تھرڈ کلاس تھی کہ گلی محلوں میں کھیلنے والے بچے بھی اس سے بہتر فیلڈنگ کر لیتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو سزا کا مستحق صرف ایک کپتان ہی کیوں،  اور وہ بھی اس بری طرح کہ اسے ٹیم میں دوبارہ اپنی جگہ بنانے کے لیے ایک طویل جد و جہد کرنا پڑی گی۔ اس معاملے کی اس لیے بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ ٹیم کا اس بری طرح نا کام ہوجانا “سٹے” کا شاخسانہ یا پھر کپتان کے خلاف “سازش” بھی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ شدید اختلافات کی بیانیئے حالیہ ورلڈ کپ کے دوران بڑی شدت سے سامنے آتے رہے تھے اور دو طرفہ الزامات کی گولہ باری بھی میڈیا کی زینت بنتی رہی تھی۔

پاکستان میں اس قسم کا امتیازانہ سلوک صرف سرفراز احمد کے ساتھ ہی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس سے قبل آصف اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی توہین آمیز سلوک سامنے آ چکا ہے۔  پاکستان آصف اقبال کی قیادت سے پہلے بھی اپنے بے شمار میچز مختلف قیادتوں میں ہارچکا تھا۔ ہار جیت ہر کھیل میں اور  دنیا کی ہر ٹیم میں ہوتی ہے لیکن اس کو کھیل کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ہارے جانے والے میچز کی قیادت کرنے والے بھی تنقیدوں کی زد میں آتے رہے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسمبلیوں میں ان کے خلاف قرارداد پیش کی گئی ہوں یا انھیں “جشن” سے دکھے دے کر نکالا گیا ہو۔ آصف اقبال کو بھی اس وقت کے واحد ٹی وی (سرکاری) چینل پی ٹی وی پر نہایت ہتک آمیز سوالات کرتے ہوئے  اس کے پورے کیرئیر کو خاک میں ملایا گیا تھا۔

ممکن ہے کہ آصف اقبال اور سرفراز نواز کا پاکستان کی ایک ہی کمیونٹی سے ہونا اتفاق ہی ہو، لیکن یہ وہ رویے ہیں جن کو محض “اتفاق” کہہ کر ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی قومی ٹیم “قومی” بھی کہلانے کے قابل رہے گی یا “دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہی ہے” بن کر رہ جائے گی۔

جواب چھوڑ دیں