محاسبہ اور علاج

صبح ہی صبح ایک وائس میسج ملا کوئی 26یا 27سالہ بیوہ لڑکی کا جو دو سال پہلے کینسر کے مرض میں مبتلا تھی ، اس سے ایک سال پہلے اس کے شوہر کا اچانک انتقال ہو گیا تھا ، وہ سانس کا مریض تھا ، بہرحال وہ واپس اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں آگئی ، یہ چھٹے نمبر کی بہن تھی ، اللہ اس پر خصوصی رحم فرمائیں ، آپ سب اس کے لیے  دعا کریں ۔ اس نے اپنے صوتی پیغام میں کہا کہ آنٹی مجھے پھر سے کیمو ہورہی ہے ، میں ہسپتال میں داخل ہوں ۔ اس کی ایک ٹانگ پوری کی پوری دوسال قبل اس بیماری کی وجہ سے کاٹ دی گئی تھی ۔ بال وغیرہ سب نکل گئے تھے مگر اس کو کبھی میں نے روتے دھوتے نہیں دیکھا ، ہمیشہ مسکراتی رہتی ہے ۔ واکر سے چلنے بھی لگی تھی ۔ پچھلے ہفتے میری ملاقات بھی ہوئی تھی ، اس نے کہا آنٹی میں آپ سب کے لیے  دعا کروں گی، آپ سب میرے لیے بہت دعا کریں۔ اللہ اس کی تکلیف دور فرمائے اور اس پر اپنی خاص رحمت برسائے آمین ۔ پھر میری ایک اور دوست کا پیغام دیکھا جو قابل غور، قابل عبرت اور ہر ایک کے لیے قابل احتساب ہے۔ بس اللہ ہی ہمیں ہدایت دے کہ ہم زندگی کے مقصد کو پالیں اور دنیا میں چوکننے ہو کر رہیں، نہ کہ اس کی محبت اور دولت شہرت کی چاہ میں ، پیسے کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اپنی ہی زندگی کو داؤ پر لگادیں اور دنیاکا معاشی توازن بگاڑ دیں ، لوگوں کے حقوق بھول جائیں ، اس صوتی پیغام میں لکھا تھا کہ ایک خاتون کینسر کے علاج کے سلسلے میں ہسپتال آئیں ۔ ساتھ میں ایک سوٹ کیس بھی تھا جس میں رقم تھی ۔ ڈاکٹر سے علاج کی مشاورت کے لیے روم میں داخل ہوئی اور ڈاکٹر سے التجا کرنے لگ گئی کہ مجھے کسی طرح موت کے منہ سے بچاؤ ، میرا علاج کرو اس طرح کہ میری بیماری ختم ہو جائے ۔ ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کہا کہ میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوں کیوں کہ کینسر آخری مرحلے پر ہے اور صحت یابی کی کوئی امید نہیں ہے ۔ بہت ہی بجھے چہرے سے وہ کمرے سے نکلی اور ہسپتال کے کوریڈور میں تمام نوٹ پھیلادیے،  چیخ کر کہنے لگی کیا فا ئدہ مال کا “ہم کیوں جمع کرتے ہیں مال”  وہ مال جس سے ہم صحت نہیں خرید سکتے ،وہ مال جس سے ہم زندگی نہیں خرید سکتے ۔ کیا فائدہ ایسے مال کا ، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو صحت و عافیت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ، اس کی نعمتوں پر جو نہ گنی جاسکتی ہیں نہ شمار کی جا سکتی ہیں ۔ الحمد للہ یہ سب حقیقتیں ہمیں اللہ کا ذکر اور انفاق کی دعوت دیتی ہیں ۔ سولی ایک چڑھتا ہے عبرت لاکھوں حا صل کرتے ہیں ۔ بیمار ایک پڑتا ہے آزمائش ہزاروں کی ہوتی ہے، عبرت اور محاسبہ کا موقع ملتا ہے ۔ صدقات ، خیرات ، عطیات ، کھلے دل سے ان کو دیں جنہیں ضرورت ہو مگر سفید پوشی کی وجہ سے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتے ، آپ کا مال جمع ہوتا رہے گا ۔ دل سکون پاتا رہے گا جسم راحت میں رہے گا اور معاشرے میں مسائل کم ہوتے جائیں گے ، ویسے بھی یہ دنیا ایک ویلیج کی مانند ہے اور ہم سب اس کے فیملی ممبرز ہیں ، ایک دوسرے کی خوشیوں کو بانٹیں تو ہماری خوشیاں دگنی ہوجاتی ہیں اور غم باٹیں تو خو شیاں ضرب کھا کر کئی گنا بڑھتی پھلتی پھولتی ہیں ۔ یہ بات سب ہی دل سے تسلیم کرتے ہیں ، مگر اختیار آپ کا ہے ، دل کو فسق و فجور میں مبتلا کرکے معاشرے کو بیمار بنائیں ، خود تباہ ہوں ، یا دل کو پاک صاف کریں ۔  نرمی ، انکساری اور اپنے جیسے بندوں سے محبت کریں اور انسانوں کا غم باٹیں۔ محاسبہ کریں ۔۔

“قلب میں سوذنیں روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد ؐ کا تجھے پاس نہیں “

لطیف النساء

ناظم آباد کراچی

جواب چھوڑ دیں