اسلام آباد پر چڑھائی ہوئی تو۔۔۔

پاکستان میں جس چیز کی روایت پڑ جائے وہ پتھر کی لکیر بن جایا کرتی ہے۔ دھرنے کے لفظ کی اصطلاح اور عملاً اسلام آباد میں دھرنے کی تاریخ کوئی بہت پرانی تو نہیں۔ “سیاست” میں دھرنے کی اصطلاح اور عملاً اس کا آغاز نوے کی دھائی کے اوائل میں ہوا تھا، جب امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد صاحب کے حکم پر جماعت اسلامی نے اسلام آباد کو ایک جزیرے میں بدل کر رکھ دیا تھا اور دارالحکومت کے سارے زمینی راستے بند کرکے رکھ دیے تھے۔ اس دھر نے کا نتیجہ اس وقت کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا تھا۔

اس وقت جس دھر نے کا شور بلند ہو رہا ہے وہ فضل الرحمن کے دھرنے کا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف 50 لاکھ افراد کو جمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ وہ موجودہ حکومت کے تخت کا تختہ کرکے رکھ دیں گے۔ ان کے دھرنے کے اس اعلان سے قبل بھی ملک کی تاریخ کا ایک بہت ہی انوکھا اور طویل ترین دھرنا ہوا تھا جو 126 دن جاری رہا تھا۔ یہ دھرنا پہلے تو اشتراک تھا پی ٹی آئی اور مولانا طاہرالقادری صاحب کی پارٹی کا جس میں کافی عرصے طاہرالقادری نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا لیکن مایوس ہونے اور کوئی نتیجہ نہ نکلتے دیکھ کر انھوں نے دھر نے سے اٹھ جانے اور عمران خان کا ساتھ چھوڑ جانے کا اعلان کرتے ہوئے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا تھا اور اس طرح پی ٹی آئی ڈی چوک کے میدان میں تنہا رہ گئی تھی۔

اس دھر نے کی اہم بات یہ تھی کہ اس نے نہ صرف ریڈ زون کی حدود کو توڑتے ہوئے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا تھا بلکہ پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہونے کے بعد اس کی نشریات کو نہ صرف معطل کیا بلکہ املاک کی توڑ پھوڑ کے علاوہ عملے کے افراد کے ساتھ بد سلوکی بھی کی اور کچھ کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ اس 126 دن کے دھرنے میں وہ باتیں بھی ہوئیں جو بہر صورت بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں جس میں شرکا کا قبریں کھود کر یہ دھمکیاں لگانا کہ وہ یا تو مرجائیں گے یا ماریں گے اور مرنے یا مارے جانے والے افراد کو افراد کو ان قبروں  میں دفن کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب طاہر القادری کے سارے شرکا نے، طاہرالقادری سمیت، عملاً سروں سے کفن باندھ کر پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس پر حملہ بھی کردیا تھا ۔  پاکستان کی افواج پہلے ہی یہ اعلان کر چکی تھیں کہ جتنی بھی سرکاری عمارات ہیں وہ ریاست کی پراپرٹی ہیں اور ان کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے لیکن اس شدید حملے کے باوجود بھی اگر ان دونوں پارٹیوں کو کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اسلام آباد کی پولیس تھی جن انھیں سامنا کرنا پڑا جو ایک حیران کن بات تھی۔ جس طرح کا بغاوتی انداز تھا اس کے مقابلے میں ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ سکیورٹی اداروں کا جو رویہ تھا وہ بہت نرم تھا جبکہ پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسا تاریخ ساز رویہ اس سے قبل کبھی دیکھنے میں آیا اور نہ ہی اب تک دیکھنے میں آرہا ہے۔

اس دھرنے کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ 126 دن دھرنا دینے کے باوجود بھی پی ٹی آئی کا حکومت گرانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا البتہ ملک کا معاشی لحاظ سے بہت نقصان ہوا اور ملک کے امن و امان کی صورت حال بہت ہی خراب ہو کر رہ گئی۔ ان دونوں نقصانات کی سزا آج بھی ہر پاکستانی بہت بری طرح بھگت رہا ہے۔

کہاوت ہے کہ جو گڑھا آپ دوسروں کے لیے  کھودتے ہیں اس میں خود ہی گرنا پڑ جاتا ہے، وہی کچھ حالات اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت کے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ اب ان کی حکومت کو بھی ایک بڑے متوقع دھرنے کا سامنا ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ نے اپنے حتمی فیصلے میں کہا ہے کہ ان کی پارٹی کے قافلے اسی ماہ (اکتوبر) کی 27 تاریخ کو ملک کے ہر شہر سے نکلنا شروع ہونگے اور 31 اکتوبر کو ایک ساتھ اسلام آباد میں داخل ہونگے اور واپسی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک وہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو اس حکومت سے نجات نہیں دلا دیتے ۔  یہ دعویٰ کتنا سچا ہے اور مولانا اپنے دعوے کے مطابق 50 لاکھ افراد کو جمع کرنے اور حکومت گرانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کر سکے گا لیکن جس اعلان کو حکومت کی جانب سے بہت ہی آسان لیا جارہا تھا اور سمجھا جارہا تھا کہ حسب سابق پرانے ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے حکومت اس “آفت” کو کسی نہ کسی طرح ٹالنے میں کامیاب ہو جائے گی، اس میں ناکامی کو سامنے دیکھتے ہوئے اب موجودہ حکومت کسی حد تک پریشان نظر آرہی ہے ، حکومت اور اس کے وزرا اور مشیران کے لب و لہجے میں وہ غیر سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی جو ابتدا میں نظر آرہی تھی۔ اس بات کا اندازہ اس بیان سے لگا جا سکتا ہے کہ “وزیراعظم عمران خان نے جمعیت علماء اسلام( ف) کے آزادی مارچ کے تناظر میں کہا ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی ہوئی تو قانون حرکت میں آئے گا”۔ اس میں کوئی دو آرا ہونی بھی نہیں چاہئے کہ اگر کوئی بھی غیر آئینی یا بغاوتی طرز عمل اختیار کیا جارہا ہو تو یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ حکومت اس کے خلاف حرکت میں آجائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی صورت حال واقعی غیر آئینی و غیر جمہوری کہلائے گی، اور اگر اس قسم کا طرز عمل واقعی غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے تو پھر ماضی قریب میں  126 دنوں کا دھرنا کیا تھا؟ جس میں قبریں بھی کھودی گئیں، سروں سے کفن بھی باندھا گیا، سرکاری عمارتوں پر عملاً چڑھائی بھی ہوئی اور پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے ہیڈ کواٹر پر قبضہ بھی کیا گیا ۔  ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ اس وقت کے سکیورٹی اداروں نے اس قسم کے بغاوتی طرز عمل کی روک تھام کیوں نہیں کی۔

سیاست میں کوئی حرف بھی حرف آخر نہیں ہوا کرتا۔  دوستیاں دشمنی میں اور دشمنیاں دوستی میں بدلتے دیر نہیں لگا کرتی۔ وہی طرز عمل جو ماضی میں اچھا کہلاتا ہے وہ حال میں اس لیے برا لگتا ہے کہ وہ اپنے خلاف جارہا ہوتا ہے۔  ماضی کے 126 دھرنے کو کارنامہ کہنے اور سمجھنے والے آج جے یو آئی کے اعلان سے پریشان ہیں۔  ان کی پریشانی بجا سہی لیکن بات گڑھا کھودنے اور اس میں گرنے پر ہی آکر ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔

آج وزیر اعظم جس قانون کو حرکت میں لاکر اسے دھرنے کے خلاف استعمال کرنے کی باتیں کر رہے ہیں کیا وہ اپنے 126 دنوں کے دھرنے  کے دوران اس قانون کے خاموش رہنے کا سبب قوم کو بتانے کی پوزیشن میں ہیں۔ جن اداروں کا کام اس قسم کی صورت حال کے خلاف بہر صورت حرکت میں آجانا ہوتا ہے، ریڈ زون کو توڑنے والوں کے خلاف سخت قدم اٹھانا ہوتا ہے، خلاف ورزی کرنے والوں کے ہاتھ اور پاؤں روکنا، ان کو گرفتار کرنا اور ان کو ہر قسم کی باغیانہ حرکتوں سے باز رکھنا ہوتا ہے وہ خاموش تماشائی کیوں بنے رہے۔ ریڈ زون تو ریڈ زون، ریاست کی حساس عمارتیں، جن میں پالیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، یہاں تک کہ سرکاری ٹی کا ہیڈ کواٹر تک مظاہرین کی دست برد سے نہ بچ سکے اور “قانون” پھر بھی حرکت میں نہ آنے کا کیا عذر تراشہ جاسکتا ہے؟

یہ سوالات شاید اتنی اہمیت یا سنجیدگی اختیار نہ کرلیتے اگر ماضی قریب کے 126 دن کے دھرنوں میں ہر قسم کی غیر آئینی و قانونی اقدامات کے خلاف راست اقدامات کیے گئے ہوتے لیکن اگر اب اسلام آباد کی جانب بڑھنے والے قافلوں کو سختی کے ساتھ روکا گیا یا اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش میں گھیراؤ کرنے والوں کے ساتھ ریاستی دہشتگردی اختیار کی گئی تو پاکستان ہی نہیں دنیا کے ہر کونے سے یہ سوال تو لازماً اٹھایا جائے گا کہ 126 دنوں تک خاموش تماشائی بنے رہنے والے سکیورٹی ادارے اب کیوں پہاڑ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عمران خان کو یہ بات بھی ضرور مد نظر رکھنی چاہیے کہ ان کے پاس پارلیمنٹ میں جو بھی گنتی ہے ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو اپنی وفاداریوں کے دام لگاتے چلے آئے ہیں۔ جو بازار میں بکنے کے لیے  ہر دم تیار رہتے ہیں ، ان کے خریدار کہیں سے بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں۔  یہ وہ لوگ ہیں جو حکومتوں کی پناہ  گاہیں محض اس لیے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ ان کے جرائم پر پردہ پڑا رہے۔ یہ بات درست ہے تو وہ کسی کی بھی پناہ میں جا سکتے ہیں۔ جس حکومت کی عمارت ایم کیو ایم (پاکستان) کی 6 نشستوں پر کھڑی ہو وہ اٹھائے گئے سوالات کے جوابات شاید ہی دے سکیں۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان صاحب ایسا کوئی سخت قدم اٹھا سکیں گے کہ اسلام آباد کا دھرنا روکا جاسکے، کوئی ایسا حکم سیکیورٹی اداروں کو دے سکیں گے؟  سب سے اہم بات یہ ہے کہ سکیورٹی ادارے حکومت کی موجودہ ابتر صورت حال کے پیش نظر حکومت کی اہمیت کو سامنے رکھیں گے یا ریاست ان کے نزدیک زیادہ اہمیت کی حامل ہوگی۔

 

 

 

 

 

 

 

جواب چھوڑ دیں