“میرا پھدکتا تھرکتا سفر “

میرا ہر دوسرے دن سات نمبر ناظم آباد سے امام کلینک اور بعض دفعہ سرینا تک کا سفر ہوتا ہے۔ کبھی چنچی اور کبھی رکشہ سے۔ کتنی سست رفتاری سے گرین بس کیلئے آگے فلائی اوورز اور انڈر پاس کے تمام تر تعمیری کام ہو رہے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ مستعدی سے ارد گرد لائن سے ملٹی اسٹوریز بلڈنگز تسلسل سے بنی جا رہی ہیں۔ جن کا تعمیراتی مواد الگ وبال جان بنا ہوتا ہے باقی دونوں طرف کی سڑکیں بارش میں دھل کر چیچک زدہ یعنی کھڈوں کا شکار اتناز یادہ ہو چکی ہیں کہ رش آورز میں عجیب ہو کا عالم ہوتا ہے۔ ہزاروں ہی اقسام کی چھوٹی بڑی گاڑیاں، ویگنیں، رکشائیں، چنکچیاں اور سونے پہ سہاگہ موٹر سائیکلیں اور ان کی کثیر سواریا ں ایک دوسرے کو پیچھا چھوڑتی ہوئی مزید میوزیکل ناچ ناچتی توازن کو کھوتی عوام کو جھنجھوڑتی، اتنا زیادہ پھدکتی، تھرکتی کہ اللہ کی پناہ! گاڑیا ں چلانے والے کی ضبط و ہمت کو سلام۔ گاڑیوں میں اندر بیٹھے مسافر بھی مٹھی میں جان زبان پر کلمہ پڑھتے جان کی امان پانے کے منتظر کٹھن سفر طے کرکے سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ آپ سب کا تجربہ ہوگا لیکن بیمار کا علاج پہلے بہت ہی ضروری ہو جا تا ہے اتنی خستہ حالتوں میں وقفے وقفے سے کھڈوں سے مختصر سڑکیں اور میدانی چٹانی علاقے نہ صرف گاڑیوں کی قیمتی صحت کو متاثر کرتے رہتے ہیں بلکہ مسافروں کے بھی چھکے چھڑاتے رہتے ہیں پچھلے تقریباً دو ماہ سے میرا یہ تھرکتا پھدکتا سفر مجھے فریاد کرنے پراکسا رہا ہے کہ متعلقہ عملے اپنی اولین ترجیح ان راستوں کو ہموار بنانے میں لگائیں۔ ہم کتنے تبدیل ہوگئے ہیں ہمیں تو حکم ہے کہ راستے سے پتھر، کانٹے اور رکاوٹوں کو ہٹا کر لوگوں کو سہولت فراہم کریں نہ کہ تجاوزات توڑ پھوڑ گٹر کے پانی کچرے کونڈے کے ڈھیر اور مزید کھڈوں اور اجڑی ہوئی گزر گاہیں بنا کر عوام الناس کا جینا نہ صرف اجیرن کیا ہوا ہے بلکہ سب سے قیمتی شے وقت کا زیاں اور گاڑیوں کا کباڑا نکل جاتا ہے لہٰذا انسان اتنا کماتا نہیں جتنا گاڑیوں کی مرمت پر روز کا خرچہ نکالتا ہے۔ ہر جگہ لیٹ ہونے کی وجہ سے جو ناگواریاں اور بلڈ پریشر کا اضافہ مزید برا اثر ڈال کر گھر سے لے کر کسی بھی ادارے کی کارکردگی کو متا ثر کرتا ہے۔ کیا اس صورتحال کاکوئی حل نہیں نکالا جا سکتا؟ عوام کی سہولت اور خیر خواہی کا ذمہ کون نبھائے گا؟ حکومتی ادارے تماشائی اور پسپائی ہیں آوے کا آوا ہی بگڑکر لاوا بنتا جا رہا ہے۔ جب ہم دوسروں کیلئے را ہیں ہموار نہ کرینگے تو ہمیں کہیں بھی صراط مستقیم نہیں ملے گا کیونکہ کر بھلا ہو بھلا۔ عوام کو بھی حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔ حکومتی اداروں کو بھی ایمانداری سے انتہائی مضبوط اور موثر تعمیرات سڑکوں کی مستقل بنیاد وں پر کرتے رہنا چاہئے اور ان کی مرمت فوری کروانا چاہئے تاکہ نہ پبلک متاثر ہو نہ ٹریفک مسائل جنم لے کر حالات کو سوگوار بنائیں حادثات کا سبب بن کر قیمتی جانوں کو داؤ پر لگائیں۔ بچے بوڑھے بڑے بیمار، فزیو تھراپی والے کیا بتا ؤں کہ کُب نکل جاتے ہیں کچھ کہ کُب درست ہوجاتے ہیں۔ اللہ کی شان ایسے میں چنچیاں اور ان میں بیٹھے منہ در منہ مسافر ہر وقت ٹینشن میں سفر کرتے ہیں۔ میرا سفر بھی اس لئے بہت ہی سوگوار ہو تا ہے۔ اس پر منہ مانگے کرائے مزید جلتی پر تیل ہوتا ہے۔ بعض چنکچیوں سے تو گھٹنے نکلے ہوئے ہوتے ہیں جو دوسری موٹر سائیکلوں کی زد میں آنے کی تیاری میں ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر اور ڈر لگتا ہے۔ ایسے میں کوئی ہیوی لوڈر، بڑا ٹرک یا ایمبولینس مزید دل دہلادیتی ہے۔ گویا جانا اور واپس آنا جو کے شیر لانے سے کم نہیں لہٰذا میری گزارش ہے حکومتی عملے کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات سے کہ وہ ان راستوں کو کارخیر سمجھتے ہوئے ڈرگ روڈ کی طرح سیاہ چمکیلے اور مضبوط و پائیدار بنا کر اپنی زندگی کی را ہوں کو عافیت بخشیں کہ یہ نیکی کا کام ہے جو کبھی را ئیگاں نہیں جائے گا۔ آپ کو اللہ دونوں جہاں میں آسان اور ہموار راہیں عطا فرمائے گا۔ نئی تعمیرا ت ہو رہی ہیں، ہوتی رہیں لیکن پرانی سڑکوں فٹ پاتھوں کو بھر پور توجہ اور عملی اقدامات کے ذریعے وینٹیلیٹر اور آئی سی یو سے نکال کر وارڈ میں ہی نہیں گھر میں شفٹ کریں تا کہ معاشرہ جسمانی، روحانی اور مالی اعتبار سے مستحکم رہے ورنہ یہ وبا کسی کو کہیں بھی پنپنے کا موقع نہ دے گی لہٰذا جو اچھا کرنا ہے آج کرلیں کیونکہ زندگی کا سفر یک بارگی ہے۔
بقول شاعر: یہ سفر بھی کتنا طویل ہے یہاں وقت کتنا قلیل ہے
کہاں ٹوٹ کر کوئی آئے گا ” جوچلا گیا وہ چلا گیا “

حصہ

جواب چھوڑ دیں