تبدیلی سرکار تبدیلیوں کے گرداب میں

پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق کسی بھی منتخب حکومت کے پاس صرف 5 سال یعنی کل 60 ماہ ہوتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی طیارے کو اڑنے کے بعد اپنی معمول کی بلندی اور رفتار میں آنے اور اس کے بعد مطلوبہ منزل پر اترنے کیلئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے اسی طرح امور مملکت سنبھالنے اور پھر کسی دوسری حکومت کو اپنے امور درست انداز میں منتقل کرنے کیلئے بھی بہر حال وقت تو لگتا ہی ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ پانچ سال یا ساٹھ مہینے گھٹ کر 55 ماہ ہی رہ جاتے ہوں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جس جماعت نے اپنا ہوم ورک پہلے سے کیا ہوتا ہے وہ حکومت ملتے ہی چند دنوں کے اندر ہی اندر پورے ملک کی باگ ڈور بآسانی سنبھال لیتی ہے لیکن جن کی تیاری ناپختہ ہوتی ہے اسے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کام کا آغاز کہاں سے کیا جائے گا اور ڈی ریل ہونے والے امور کس طرح دوبارہ پٹڑی پر چڑھائے جائیں گے۔ یہی حال موجودہ حکومت کا نظر آرہا ہے جو اپنی مدت کا 25 فیصد وقت گزارنے کے باوجود امور مملکت کو پیچھے کی جانب تو ضرور لے گئی ہے لیکن دو قدم بھی آگے کی جانب لیجانے میں سخت ناکام نظر آرہی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ابھی تک وہ یہ ہی نہیں طے کرپائی کہ حکومتی محکمے کس کس کے حوالے کرے، کون کس محکمے کا اہل ہے اور کس کس فرد میں کیا کیا صلاحیتیں موجود ہیں۔

15 ماہ کے دوران مختلف افراد کو مختلف امور سونپ کر آزمانے کے بعد بھی نتیجہ یہی سامنے آیا ہے کہ جس جس کو جو جو امور بھی حوالے کئے گئے وہ فرد اس میدان کا مرد میدان ثابت ہی نہیں ہو سکا۔ کسی بھی حکومت کیلئے یہ امر کتنا اذیتناک ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس ایسے افراد کی سخت قلت ہو جو ملک کے محکموں کی کارکردگی کو بڑھوتری کی جانب لے جا سکیں اور ان کی استعداد کار میں اضافہ کر سکیں۔

موجودہ حکومت کو یا تو اس بات کی امید ہی نہیں تھی کہ وہ عام انتخابات کے نتیجے میں اتنی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی کہ اسے حکومت بنانے کی پیشکش کی جائے گی یا وہ اس بات سے تو آگاہ تھی کہ اسے کسی نہ کسی طور تخت حکومت پر بٹھا ہی دیا جائے گا اور جو عوامل اس کے ممد اور مدد گار ہونگے وہ خود ہی ایسا انتظام بھی کردیں گے کہ ان کی قائم ہونے والی حکومت گزشتہ حکومتوں سے کہیں بڑھ کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

الیکشن سے پہلے عمران خان کو یہ اندازہ ہو یا نہ ہو کہ آنے والے الیکشن کے نتائج ان ہی کی جھولی میں آگریں گے لیکن پاکستان کے اہل عقل و شعور اس بات کو بہت اچھی طرح بھانپ چکے تھے کہ ایسا ہی ہوکر رہے گا۔ پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں سے توڑ توڑ کر لوگوں کا ایک جگہ جمع کیا جانا، ملک کی دوبڑی پارٹیوں کے خلاف مسلسل گھیرا تنگ کیا جانا، ان کے سربراہوں کو میدان سیاست سے مسلسل دور رکھنا، ان کو جیلوں کی سیر کرانا، پارٹیوں کی توڑ پھوڑ کرنا اور کراچی کی سب سے بڑی پارٹی کا تو بالکل ہی جلوس نکال دینے جیسے اقدامات اس بات کی جانب واضح اشارہ تھے کہ گلیوں سے ایوان اقتدار تک کے راستے از سرِ نو تعمیر کئے جا رہے ہیں جن پر وہی بس چلائی جائے گی جس کی رجسٹریشن “مقتدرہ” نے کی ہے۔

اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے ملک کے موجودہ وزیراعظم کو اس بات کا اندازہ خوب اچھی طرح ہو چکا تھا کہ 2018 ان کیلئے خوش بختی کا سال ثابت ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کے ذہن میں یہ گمان بھی ابھرا ہو کہ جب ان کا کاتب تقدیر ان کیلئے پاکستان کی حکمرانی لکھ رہا ہے تو پھر وہ پاکستان کے تمام قابل اور اہل افراد کو بھی ان کے نصیب میں ڈال دیگا اور وہ پاکستان کی خوش بختی میں چار چاند لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

کسی انسان کی تربیت جس انداز میں کردی جاتی ہے وہی انداز آہستہ آہستہ اس کی فطرت بنتا چلا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم پاکستان، پاکستان کی کرکٹ کے ایک عظیم کپتان کے روپ میں پاکستانی اور دنیا کے عوام کے سامنے آئے اور اپنی مسلسل جد و جہد کے نتیجے میں دنیائے کرکٹ کے سپر اسٹار بن کر ابھرے اور 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ پاکستان کے نام کیا لیکن اس بات کو بھی خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کی کرکٹ کا کوئی بھی کپتان نہ تو خود کپتانی کے عہدے تک پہنچتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی ٹیم خود بناتا ہے۔ کھلاڑی کی صلاحیتیں دیکھ کر “بورڈ” کسی کو قیادت سونپتا ہے اور پھر سلیکٹ کئے ہوئے کھلاڑیوں کو کپتان کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ بے شک سلیکٹ کئے ہوئے کھلاڑی ملک کے بہترین کھلاڑی ہی ہوتے ہیں لیکن ان کے چناؤ میں کپتان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ البتہ جتنے کھلاڑی اس کے حوالے کردیئے جاتے ہیں ان کو میدان میں اتارنے کے فیصلے میں کپتان کی رائے کو مد نظر ضرور رکھا جاتا ہے لیکن وہاں بھی اسے مکمل خود مختاری حاصل نہیں ہوا کرتی۔ اب جس کپتان کی ساری تربیت اسی طور ہوئی ہو اس کی فطرت کا یکسر بدل جانا بہر کیف کوئی آسان کام تو نہیں تھا۔ یہی وہ مشکل ہے جو کپتان کو وزیر اعظم بننے کے بعد پیش آرہی ہے اور اگر سچ پوچھیں تو اس وقت کپتان سخت دباؤ میں ہیں اور اپنی سلیکٹڈ ٹیم کے کبھی فیلڈنگ پوائنٹ اور کبھی بیٹنگ آرڈر تبدیل کر کر کے اس گمان میں ہیں کہ ان کو دی ہوئی ٹیم پاکستان کی حکومت کا عالمی کپ جیت جائے گی۔ جو ٹیم اپنی ہوم پچ اور اپنے ہی کراؤڈ کے سامنے اپنی کارکردگی نہ دکھا پارہی ہو اس سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ ملک سے باہر کوئی بڑا ٹورنامنٹ جیت پائی گی، عقل و فہم سے باہر کی بات ہی لگتی ہے۔

پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کوئی حکومت اپنے ابتدائی مہینوں میں ہی کابینہ میں بڑی بڑی تبدیلیاں کرے۔ چند ماہ قبل بھی مرکزی اور صوبائی سطح پر بڑی بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں اور اس مرتبہ پھر تبدیلیوں کے برسات دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اپنے مقرر کئے گئے وزرا کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھی جائے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ان سے کوئی ایک محکمہ نہیں چلتا ہو تو کوئی اور محکمہ دیکر آزمایا جائے کہ شاید وہاں اس کے ہنر سامنے آجائیں۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کسی بھی منتخب حکومت کے پاس کل 60 ماہ ہی ہوتے ہیں۔ ان ساٹھ ماہ میں سے اگر 25 فیصد عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کسی وزیر کا صرف محکمہ ہی تبدیل کیا جائے جبکہ اس کی پچھلی کارکردگی “صفر” ہی رہی ہو تو باقی 75 فیصد کیلئے اسے کوئی اور محکمہ حوالے کرنا کہاں کی دانشمندی ہوگی۔

جب بھی کسی فرد سے اس کی تربیت یا وہ تربیت جو کسی کا مزاج یا فطرت بن چکا ہو، کام لیا جائے گا تو نتیجہ غلط ہی نکلے گا۔ ایک کپتان کی فطرت میں اگر یہ بات کندہ ہوچکی ہو کہ اس کو کپتان بنانے والے ہی ٹیم کی سلیکشن کریں گے تو وہ ملک کا کپتان ہوتے ہوئے کسی بھی صورت اپنے لئے کوئی بہترین ٹیم بناہی نہیں سکے گا اور یہی مشکل موجودہ سربراہ مملکت کو در پیش ہے جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ملک کا تاجر طبقہ بجائے حکومت کو اپنی مشکلات بتانے اور تجاویز رکھنے کے ملک کے آرمی چیف سے ملاقاتیں کرتا نظر آرہا ہے۔ غیر ملکوں سے آنے والے عسکری و سول وفود بجائے حکومت سے بات چیت کرنے کے جی ایچ کیو کے چکر لگاتے نظر آ رہے ہیں۔

جب حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے جائیں اور ہر فیصلہ کرنے سے قبل وہ راولپنڈی کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوں تو پھر معاملات کا الجھ جانا اور ہر قسم کی امن و امان کی صورت حال سے لیکر معیشت تک کی تباہی کے مناظر کچھ ایسے ہی انداز میں دکھائی دینے لگتے ہیں۔

اگر پاکستان کے سارے ادارے اس بات کو سمجھ جائیں اور اپنے نیتوں کو ملک کے ساتھ خالص کرلیں تو امید کی جاستی ہے کہ ملک کی نیا کسی نہ کسی طرح پار لگ جائے گی، بصورت دیگر آپس میں چھوٹا کون اور بڑا کون کی رسہ کشی کسی بہت بڑی تباہی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ کاش تھوڑا کہے کو بہت سمجھا جائے اور ملک یا تو ٹیک اوور کرلیا جائے یا حوالے کر کے دو حکومتی تصور کا خاتمہ کیا جائے ورنہ آنے والا کوئی دن بھی ہمیں اچھی خبریں سناتا نظر نہیں آرہا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں