صفرکامہینہ اور توہمات

صفر قمری تقویم کا دوسرا مہینہ اور اسلامی مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ہے، اسلام کی آمد سے قبل بھی اس مہینے کا نام صفر ہی تھا اسلام نے اس کے نام کو برقرار رکھا۔ اس مہینے کے بارے میں غلط باتوں اور توہمات کو ختم کرنے کے لیے اسے ”صفر المظفر“کہا جاتا ہے۔ قبل از اسلام اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے اور اس میں سفر کرنے کو برا سمجھتے تھے، اسی طرح دورِ جاہلیت میں ماہِ محرم میں جنگ و قتال کو حرام خیال کیا جاتا اور یہ حرمت ِ قتال ماہ صفر تک برقرار رہتی لیکن جب صفر کا مہینہ شروع ہو جاتا اسے منحوس سمجھا جاتا۔ ماہ صفر میں جب جنگ و جدال دوبارہ شروع ہو جاتے اہل عرب جنگ کے لئے چلے جاتے اور گھرو ں کو خالی چھوڑ جاتے اس لئے اس مہینے کا نام صفر (جس کا معنی خالی ہے) رکھا گیا تھا۔ الغرض آج کے باشعور معاشرے میں بھی بہت سے لوگ ماہِ صفر کے بارے جہالت اور دین سے دوری کے سبب ایسی توہمات کا شکار ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔ جیسا کہ اس مہینے میں توہم پرست لوگ شادی کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیتے ہیں۔ اس میں کسی کام مثلاً کاروبار وغیرہ کی ابتدا نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے، اس قسم کے اور بھی کئی کام ہیں جنہیں کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جو اس مہینے میں شروع کیا جاتا ہے وہ منحوس یعنی خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔
بلاشبہ ماہ و سال، شب و روز اور وقت کے ایک ایک لمحے کا خالق اللہ ربّ العزت ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کسی دن، مہینے یا گھڑی کو منحوس قرار نہیں دیا۔ در حقیقت ایسے توہمانہ خیالات غیر مسلم اقوام اور قبل از اسلام مشرکین کے ذریعے معاشرے میں داخل ہوئے، اور آج یہی فاسد خیالات مسلم اقوام میں در آئے ہیں، جبکہ دین اسلام کے روشن صفحات ایسی توہمات سے پاک ہیں۔ کسی وقت کو منحوس سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ کسی دن یا کسی مہینہ کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ ربّ العزت کے بنائے ہوئے زمانہ میں، جو شب وروز پر مشتمل ہے، نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے۔ وہ وقت (دن، مہینے، سال) کو برا کہتا ہے حالانکہ وقت (زمانہ) میں ہوں، بادشاہت میرے ہاتھ میں ہے، میں ہی دن اور رات کو بدلتا ہوں“۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ دن رات اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں، کسی کو عیب دار ٹھہرانا خالق و مالک کی کاریگری میں عیب نکالنا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توکل کے بارے فرمایا ”جان لو! اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچائیں تو وہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے، مگر وہی جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ اور اگر لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچائیں تو وہ تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے“۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے“ (مشکوٰۃ)۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جو شخص بدشگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقینا اس نے شرک (اصغر) کا ارتکاب کیا“۔ اس سے معلوم ہوا کہ بدشگونی یعنی کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔ لہٰذا ماہ صفر کو منحوس خیال کر تے ہوئے اس مہینے میں شادیاں کرنے سے رکنا احادیث کے مطابق شرکیہ عمل ہے جس سے ہر صورت میں اجتناب ضروری ہے۔ بعض خواتین و حضرات صفر المظفر کے آخری بدھ کو عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری بدھ میں صحت یاب ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لیے باہر تشریف لے گئے تھے حالانکہ اس دعوی کی اصل نہ حدیث میں ہے اور نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ بر صغیر میں ماہ صفر کو تیرہ تیزی کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے، ایسا کہنے والوں کو گمان یا خیال ہے کہ اس ماہ کے پہلے 13دن بہت منحوس ہوتے ہیں۔ان دنوں میں جادو گر، جنات اور بد روحیں کھلے عام آفات مچاتی ہیں اور کام بگاڑتی ہیں۔ایک کہاوت یہ بھی بنائی گئی ہے کہ ان دنوں میں کوئی بیماری ہو جائے تو وہ مریض مشکل سے بچتا ہے یا اس ماہ میں لگنے والی بیماری مہلک یا شدید ثابت ہوتی ہے۔جبکہ یہ سب باتیں عوام میں پھیلادی گئی ہیں، جو کہ محض تو ہمات اور گھڑی ہوئی باتیں ہیں، لغویات اور بدعات ہیں اور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت میں ان کا کوئی جواز نہیں۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے، اسلام کے تمام احکام پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ اور اس دین مبین میں خرافات وبدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اب کوئی نام نہاد عالم دین، مفتی یا محدث ایسا نہیں جو اس دین مبین اور صاف و شفاف چشمے میں بدعات و خرافات کا زہر ملائے لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین صافی کو ضلالت و جہالت سے خلط ملط کرنے اور خرافات سے داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دین اسلام نے انسان کی ہر سطح پر کامل رہنمائی کی ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان،اعتقاد اور توکل کا تقاضا یہ ہے کہ سب کچھ اسی سے ہونے کا یقین انسان کے قلب و ذہن میں راسخ ہو۔کسی شے کے بارے میں بدفالی،نحوست اورتوہم پرستی کا نظریہ درحقیقت ایک غیراسلامی سوچ اوراسلامی تعلیمات کے سراسر منافی عمل ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اپنے خالق و مالک اللہ کریم کو اس صورت میں راضی کر سکتے ہیں کہ جب ہم اس کے ارشادات اور تعلیمات کی پابندی و پیروی کریں اور شریعت و سنت کے مقابلے میں اپنی نفسانی خواہشات اور توہمات کو کبھی ترجیح نہ دیں۔

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں